تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     11-01-2025

کامیاب مذاکرات کی خواہش

ہر محبِ وطن اور باشعور پاکستانی کے لیے یہ امر باعثِ اطمینان ہونا چاہیے کہ ڈھائی‘ تین سال کے مسلسل سیاسی عدم استحکام کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کا عمل جاری ہے اور دونوں فریق اب تک دو ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ گو کہ اس وقت مذاکرات کے مستقبل پر بے یقینی چھائی ہوئی ہے مگر ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے دونوں فریقوں کو وقتی سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر نیک نیتی کے ساتھ ملکی مفادات کو مدِ نظر رکھنا ہو گا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں پارلیمنٹ کا اہم حصہ ہیں اور دونوں پر پالیسی سازی اور ریاستی سطح کے فیصلوں میں تعمیری کردار ادا کرنے کی ذمہ داری ہے۔ تحریک انصاف بھی شاید اس لیے مذاکرات پر رضا مند ہے کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات سے وطنِ عزیز کو محفوظ رکھنے کے لیے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔ دوست ممالک بھی پاکستان کو سیاسی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں الیکشن میں دھاندلی سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی جمہوریت میں کوئی دلچسپی ہے‘ ان کی دلچسپی صرف سیاسی استحکام میں ہے تاکہ ان کی یہاں سرمایہ کاری محفوظ رہے۔ ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن کو مطمئن کرنا بہت ضروری ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس مقصد کے لیے موجودہ حکومتی سیٹ اَپ میں کوئی تبدیلی بھی ضروری ہو جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ایسی حکومت تشکیل دی جائے جسے اپوزیشن نظریۂ ضرورت کے تحت تسلیم کر لے۔ اسی طرح وفاقی کابینہ میں بھی اپوزیشن کو مطمئن کرنے کے لیے تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ ایک آپشن پانچ سال کے بجائے تین سال بعد الیکشن کا انعقاد ہے۔
مگر یوں لگتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو ملکی تاریخ کا قطعی ادراک نہیں۔ حکومت سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما کے بقول شیخ مجیب الرحمن کو پیرول پر رہا کر کے 1969ء کی گول میز کانفرنس میں لایا گیا تھا‘ اسی طرح عمران خان کو بھی پیرول پر رہا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ حالانکہ شیخ مجیب الرحمن کی پیرول پر رہائی کے وقت حالات قدرے مختلف تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ تب ایوب خان خود کمزور پڑ چکے تھے‘ اس لیے انہیں شیخ مجیب الرحمن کے کے خلاف دائر غداری کے تمام مقدمات واپس لیتے ہوئے انہیں رہا کرنا پڑا۔ یحییٰ خان نے سازشوں کا جال بچھا کر صدر ایوب خان کو ایوانِ صدر تک محدود کردیا تھا۔ صدر ایوب خان کے پرنسپل سیکرٹری نے بھی اس حوالے سے یحییٰ خان کے معاون کا کردار ادا کیا اور جسٹس ایس اے رحمن کی سربراہی میں مغربی پاکستان ہائیکورٹ کا جو ٹربیونل شیخ مجیب الرحمن کے خلاف کیس کی سماعت کر رہا تھا‘ اس عدالت پر حملہ کرکے عدالت کا سارا ریکارڈ نذرِ آتش کردیا گیا اور جسٹس ایس اے رحمن بڑی مشکل سے جان بچا کر وہاں سے ڈھاکہ ایئر پورٹ پہنچے۔ ان حالات کے پیشِ نظر صدر ایوب خان کو لامحالہ شیخ مجیب الرحمن کے خلاف درج مقدمات واپس لینا پڑے۔ لیکن عمران خان کے حوالے سے حکومت یا ریاست کو ایسی کسی صورتحال کا سامنا نہیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے جو مطالبات رکھے گئے ہیں‘ ان کی منظوری کی صورت میں حکومت کو سیاسی اسیروں کی ضمانت میں رخنہ ڈالنے سے باز رہنا ہو گا۔
ایک توجہ طلب بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے مطالبات میں اب فروری 2024ء کے انتخابات میں دھاندلی کے تناظر میں نئے انتخابات کا مطالبہ شامل نہیں۔ پی ٹی آئی خاص حکمتِ عملی کے تحت اس مطالبے سے پیچھے ہٹی ہے۔ اب وہ یہ معاملہ ایوان پارلیمنٹ میں پُر زور طریقے سے اٹھانے کی خواہاں ہے۔ دوسری جانب شنید ہے کہ مقتدرہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں جس کی بڑی وجہ اُن برادر اور دوست ممالک کا حکومت پر عدم اطمینان ہے جنہوں نے یہاں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ اس لیے پاکستان کے دوست ممالک یہاں سیاسی استحکام کے خواہاں ہیں تاکہ پاکستان اپنے اندرونی بحرانوں پر قابو پا کر باوقار انداز میں آگے بڑھ سکے۔ اس لیے مقتدر حلقے بھی حکومت اور اپوزیشن مذاکرات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین جاری مذاکرات کی ناکامی کو سیاسی نظام کی ناکامی سمجھاجائے گا‘ اس لیے فریقین کو سیاسی نظام کو ناکام ہونے سے بچانے کے لیے سنجیدگی سے آگے بڑھنا ہو گا۔ سیاسی نظام کی ناکامی کا نتیجہ کسی ایسے غیر سیاسی نظامِ حکومت کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے جسے سپریم کورٹ کی حمایت حاصل ہو۔
مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں تحریک انصاف سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان پہلے سے کر چکی ہے جس میں اوورسیز پاکستانیوں سے پاکستان ڈالر نہ بھیجنے کی درخواست بھی کی گئی ہے۔ ترسیلاتِ زر کے حوالے سے حکومتی حلقوں کا یہ مؤقف ہے کہ اوورسیز پاکستانی یہ پیسے اپنے گھروں کے اخراجات چلانے کے لیے بھجواتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر ملکی معیشت کا پہیہ رواں رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی سالانہ تیس ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم پاکستان بھیجتے ہیں‘ اگر وہ یہ ترسیلات نہ بھیجیں یا اس کے لیے حوالہ؍ ہنڈی کا غیرقانونی راستہ اختیار کریں تو اس سے ملکی معیشت کو جھٹکا لگ سکتا ہے۔ حکومت پہلے ہی نظامِ مملکت چلانے کے لیے دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر انحصار کرتی ہے‘ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی کی صورت میں اس کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے ڈالروں کی بلاتعطل ترسیل اور اس میں اضافے کے لیے ملک میں سیاسی استحکام ازحد ضروری ہے۔ دوسری جانب بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی ملک میں سیاسی استحکام ناگزیر ہے جو اپوزیشن اور حکومت کے مابین کامیاب مذاکرات کی صورت میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد عناصر کو افغانستان سے ملنے والی معاونت اب پوشیدہ نہیں رہی تاہم اس مسئلے کا حل افغانستان کا تجارتی بائیکاٹ نہیں ہے۔ تجارتی بائیکاٹ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو پاکستان کے دشمن عناصر کی مزید معاونت کا جواز فراہم کرے گا۔ پاکستان بھارت کے ساتھ تو تجارتی بائیکاٹ کر سکتا ہے لیکن افغانستان کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ ممکن نہیں۔ اگر تجارت کے قانونی راستے بند کیے گئے تو اس سے سمگلنگ کو مزید فروغ ملے گا جو ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ یہ مسئلہ افہام و تفہیم اور دانشمندی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر ملکی معیشت کی بات کی جائے تو ناقدین اور بعض معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے 2025ء کے لیے جو اُڑان پاکستان پروگرام لانچ کیا ہے‘ اس کی اُڑان صرف ہوا میں ہے‘ زمینی حقائق سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس طرح کے پروگرام اُس وقت شروع کیے جاتے ہیں جب معیشت مستحکم ہو جبکہ ہم ابھی تک آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے محتاج ہیں۔ اُڑان پروگرام جیسے غیر حقیقی اہداف کے بجائے صدر ایوب خان کے پنج سالہ منصوبوں کی بنیاد پر ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ صدر ایوب خان نے جب اکتوبر 1958ء میں عنانِ حکومت سنبھالی تھی تو ڈالر پونے چار روپے کا تھا اور مارچ 1969ء میں ان کے حکومت چھوڑنے تک ڈالر پونے چار روپے سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔ موجودہ حکومت بھی محدود اہداف کے پنج سالہ منصوبوں کے ذریعے ملک کو معاشی استحکام کی جانب گامزن کر سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved