تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     11-01-2025

یادِ رفتگان

میں 1951ء میں گورنمنٹ کالج جھنگ اور 1952ء میں اسلامیہ کالج گوجرانوالہ سے ہوتا ہوا 1953ء میں گورنمنٹ کالج لائل پور پہنچا تو وہاں لائل پور (اب فیصل آباد) کی معروف کاروباری‘ ادبی اور سماجی شخصیت ناصر آغا‘ (جو عمر بھر کینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے) اور اُن کے بھائی آغا انفال‘ اقبال فیروز‘مشتاق باجوہ (سابق پرنسپل)‘ محمد اکبر‘ (بعد ازاں سول سروس میں بڑے افسر بنے)‘ ڈاکٹر فتح محمد (ممتاز ماہر معیشت)‘ محمد یعقوب (سابق گورنر سٹیٹ بینک)‘ خالد غیاث احمد‘ خالد سرفراز‘ (زاہد سرفراز کے برادرِ اکبر)‘ میاں محمد اشرف (میاں محمد اظہر کے بڑے بھائی)‘ ڈاکٹر منیر احمد اور ڈاکٹر فرحت محمود (سابق پروفیسر) جیسے افراد میرے ہم جماعت بنے اور 1955ء تک ہم اکٹھے پڑھتے رہے۔ 1955ء میں مَیں مرے کالج سیالکوٹ میں داخل ہوا اور 1956ء میں وہاں سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ میرے ابا جی مرحوم محکمہ صحت میں ڈاکٹر تھے اور ہسپتالوں کے انچارج۔ اُن کے اپنے افسرانِ بالا سے تعلقات کشیدہ رہتے تھے‘ لہٰذا بطور سزا ہر سال ان کا ایک سے دوسرے شہر تبادلہ کر دیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے روایتی تعلیم چھ ہائی سکولوں اور چھ کالجوں میں مکمل کی اور اس طرح ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔
مندرجہ بالا ہم جماعتوں اور دوستوں میں سے آغا انفال اور محمد اکبر کئی سال پہلے وفات پا چکے۔ 30 نومبر کو خالد غیاث بھی ہم سے جدا ہو گئے اور 72 سال پرانا رشتہ آناً فاناً ٹوٹ گیا۔ میں نے ایم اے کرنے کے بعد لائل پور میونسپل کالج میں دو برس پڑھایا اور پھر 1967ء تک پانچ سال لاہور میں ملازمت کی‘ جس میں ایچیسن کالج میں ہائر کیمبرج کے تین طلبہ کو پڑھانا بھی شامل ہے۔ اس کے بعد میں برطانیہ چلا آیا۔ اس دوران خالد غیاث سے چائے خانوں میں اکثر ملاقات ہو جاتی تھی۔ وہ اُن دنوں ملازمت کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ 1966ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کا ادارہ قائم ہوا تو خالد غیاث کی گویا لاٹری نکل آئی۔ اس ادارے میں ان کا سفر ایک چھوٹے درجے کی ملازمت سے شروع ہوا اور ترقی کرتے کرتے وہ پی ٹی وی کے چوٹی کے افسر بن گئے۔ میں ہر سال دو تین مرتبہ پاکستان جاتا تو روزنامہ دنیا کے مرحوم چیف ایڈیٹر نذیر ناجی صاحب‘ جن کو میں لائل پور کے زمانے سے جانتا تھا‘ ازراہ عنایت ہمیشہ مجھے جم خانہ میں کافی پینے یا کھانا کھانے کی دعوت دیتے تھے۔ خالد غیاث وہاں اپنے دوستوں کی محفل میں بیٹھا ملتا۔ مدہم اور سریلی آواز میں بولنے والا شخص۔ ہر موضوع پر بات کرنے والا خوش گفتار انسان۔ خوش اخلاق‘ خوش لباس‘ خوش کردار۔ ساری عمر وہ خوش رہا اور خوشیاں بکھیرتا رہا۔ پاکستان آرٹس کونسل کے ساتھ بھی اُس کی عمر بھر کی وابستگی تھی۔ وہ پاکستانی‘ خصوصاً پنجابی تہذیب کا ایک زندہ مرقع تھا۔ میری وطن عزیز سے 57 سالہ دوری کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ میں اپنے ہم جماعتوں کا جُزوقتی دوست بن گیا۔ ہر سال صرف چند گھنٹوں کی ملاقات اور باقی سال ان کے خواب دیکھنے میں گزرتے رہے۔ خالد غیاث کے چہرے پر ایک سدا بہار مسکراہٹ رہتی تھی۔ اگر میرا حافظہ مجھے دھوکا نہیں دے رہا تو ایم اے (اکنامکس) میں اُس کی ایک قریبی رشتہ دار (غالباً نگہت نام تھا) بھی پڑھتی تھیں۔ میں اس کالم کے ذریعے اُن تک اپنی تعزیت پہنچانا چاہتا ہوں۔ میں احسان مند ہوں اُن کرم فرماؤں خصوصاً جنرل (ر) سکندر شامی‘ نینا شامی‘ نگہت نسیم‘ کامران لاشاری‘ ڈاکٹر عامر خان اور ندیم عالم کا جنہوں نے خالد کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا اور میرے مرحوم دوست کو بجا طور پر خراجِ عقیدت پیش کیا۔ خالد ساری عمر غیر شادی شدہ رہا۔ اُس کے دوست احباب ہی اس کے اہلِ خانہ کا درجہ رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ خالد کو اپنی رحمتوں سے نوازے۔ اک مسافر کی راہ تمام ہوئی۔
دوسری ممتاز شخصیت جو ہم سے 25 دسمبر 2024ء کو ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئی وہ بپسی سدھوا (Bapsi Sidhwa) تھی۔ 1938ء میں کراچی میں پیدا ہوئیں اور لاہور میں پلی بڑھیں۔ کنیئرڈ کالج سے 1957ء میں گریجوایشن کی۔ اُن کا تعلق زرتشت (پارسی) مذہب سے تھا۔ 19برس کی عمر میں ان کی شادی ہوئی اور تین بچوں کی ماں بن کر وہ مصنفہ بنیں۔ دوسری شادی کے بعد‘ 60برس کی عمر میں انہوں نے چار کمال کے ناول لکھے۔ شہرت اُنہیں Ice Candy Man لکھنے پر ملی۔ 1998ء میں ایک بڑے فلم ساز (دیپ لتا) نے ان کے اس ناول کو Earth نامی فلم میں ڈھالا‘ جس میں عامر خان نے مرکزی کردار ادا کیا۔ مگر میرے نزدیک اُن کا شاہکار ناولThe Crow Eater ہے۔ حکومت پاکستان نے انہیں 1991ء میں سب سے بڑے سول ایوارڈ‘ ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ 2017ء میں اُنہیں عالمی شہرت کا اطالوی Mondello Prize ملا۔ بپسی کو لاہور سے گہری محبت تھی۔ کوئی بیس برس قبل لندن میں ایک بین الاقوامی کتاب میلے پر میری ان سے مختصر ملاقات ہوئی جس میں اُن کی گفتگو لاہور سے ان کی حسین یادوں کی وابستگی سے شروع ہوئی اور اُسی پر ختم ہوئی۔ 2022ء میں اُن کی زندگی پر ایک بہت اچھی دستاویزی فلم بنائی گئی۔ وہ تہذیب و شائستگی اور اچھے آداب کا بہترین نمونہ تھیں۔ ان کے چہرے سے ہی ذہانت‘ فہم وشعور‘ عقل ودانش اور غور وفکر ٹپکتے تھے۔ اُن کی وفات امریکی ریاست ٹیکساس میں ہوئی۔ معلوم نہیں پردیس میں ان کے پسماندگان کی تعداد کتنی تھی۔ اگر مجھے پسماندگان کا پتا معلوم ہوتا تو میں ضرور انہیں پھول بھیجتا۔ البتہ میں نے ایک پھول اپنی لائبریری میں اُن کے ناولوں کے مجموعہ پر رکھ دیا ہے۔ مجھے دور اُفق سے ایک خوبصورت آواز سنائی دی۔ ''میں پیدا کراچی میں ہوئی اور جوان لاہور میں۔ میرا بیٹا مجھ سے جدا ہو کر بمبئی میں رہنے لگا۔ میں واہگہ اکثر اس امید پر جاتی تھی کہ شاید وہ ملنے آ جائے تو میں اُسے اپنے ساتھ لے آئوں مگر وہ کبھی نہ آیا۔ میری دونوں شادیاں میرے لیے خوشی اور سکون کا باعث نہ بن سکیں۔ میں نے اپنے ناولوں میں انسانی دکھ کے موضوع پر لکھا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ میں زندگی میں خود دکھی رہی‘‘۔
تیسری اور آخری شخصیت بھارت کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ ہیں۔ وہ چکوال میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ وہ دس برس بھارت کے وزیراعظم رہے۔ اسی دوران وہ برطانیہ کے سرکاری دورے پر آئے تو رائل انسٹیٹیوٹ نے انہیں پاک بھارت تعلقات پر تقریر کرنے کیلئے بلایا۔ میں اس ادارے کا 40برس سے رکن ہوں‘ اس لیے مجھے منتظمین نے صفِ اوّل میں بٹھایا۔ میرا سوال کشمیر کے بارے میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ جلدیا بدیر‘ کشمیری اپنا حق خودارادیت منوا کر رہیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر آپ انسانی تاریخ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ بڑے سے بڑا پیچیدہ اور الجھا ہوا مسئلہ بھی سو سال کے اندر حل ہو گیا۔ آپ انتظار کر لیں‘ مسئلہ کشمیر کا حل بھی آپ سب دیکھ لیں گے۔ چائے کے وقفہ میں مَیں نے اپنا تعارف کرایا تو چکوال سے میری واقفیت اور جوہر آباد (ضلع خوشاب) سے چکوال کی ہمسائیگی کا سُن کر وہ خوش ہوئے اور میرا ہاتھ بڑی محبت سے تھام لیا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے دنیا کی دو اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں (آکسفورڈ اور کیمبرج) سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سیاستدان نہیں بلکہ ٹیکنوکریٹ تھے۔ الیکشن کانگریس نے جیتا لیکن سونیا گاندھی نے کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں وزیراعظم نامزد کر دیا اور اُنہوں نے اپنی وزارتِ عظمیٰ میں بھارت کی کایا پلٹ دی۔ اُنہوں نے بھارت کو ترقی کے جس رستے پر چلایا‘ وہ آج تک اُس پر گامزن ہے۔ سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ایک خاموش‘ گمنام اور انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ ان کی بیوی ہر ہفتہ رکشہ میں بیٹھ کر مارکیٹ جاتی اور دکانداروں سے لڑ جھگڑ کر سامان کی قیمت کم کراتی۔ یہ بات دہلی کے اس دکاندار نے خود میری بیوی کو بتائی تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved