بابل کی دعائیں لیتی جا‘ جا تجھ کو سکھی سنسار ملے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے سسرال میں اتنا پیار ملے
بیتیں تیرے جیون کی گھڑیاں آرام کی ٹھنڈی چھاؤں میں
کانٹا بھی نہ چبھنے پائے کبھی میری لاڈلی تیرے پاؤں میں
اُس دوار سے بھی دکھ دور رہے جس دوار سے تیرا دوار ملے
بچپن میں بھارتی فلم 'نیل کمل‘ کا یہ گانا شادی کی ہر تقریب میں سننے میں آتا تھا‘ اور میں یہ گانا سننے والے سبھی لوگوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھتا تو سوچتا کہ یہ لوگ روتے کیوں ہیں؟ اگر یہ گانا اتنا ہی تکلیف دہ ہے کہ آنسو نکل آتے ہیں تو وہ یہ گانا سنتے ہی کیوں ہیں؟ آنسو برسانے کا باعث بننے کے باوجود شادی کی ہر تقریب میں اور بعد ازاں جب ویڈیو کیسٹس اور ویڈیو پلیئرز کا زمانہ آیا تو شادی کی تقریب پر مبنی ہر ویڈیو ریکارڈنگ کے پس پردہ یہی گانا چلایا جاتا تھا۔ جب کچھ بڑا ہوا اور شعور کی منزلیں طے کیں تو پتا چلا کہ یہ گانا دراصل ایک باپ کی اپنی بیٹی کے لیے دل کی انتہائی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعا ہے اور یہ کسی ایک باپ کی نہیں بلکہ ہر باپ کی اپنی بیٹی کے لیے دعا ہے۔
ہمارے ملک اور معاشرے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ والدین اپنے بیٹوں سے بیٹیوں کی نسبت زیادہ پیار کرتے اور ان کا ہر لحاظ سے زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ بات سبھی والدین پر صادق نہیں آتی۔ کچھ والدین ایسے بھی ہیں جو بیٹے ہوں یا بیٹیاں‘ سبھی کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتے اور سبھی کا ایک جیسا خیال رکھتے ہیں۔ ہمارے جیسے کچھ والدین ایسے بھی ہیں جو بیٹیوں کا بیٹوں کی نسبت اس لیے زیادہ خیال رکھتے ہیں کہ بیٹیوں نے ایک نہ ایک دن شادی کے بعد اپنے گھر چلے جانا ہوتا ہے اور وہ بیٹیوں کی اس گھر میں موجودگی کے ہر لمحے کا لطف اٹھاتے ہیں‘ ان کی فرمائشیں بیٹوں کی نسبت زیادہ پوری کرتے ہیں‘ ان کے ناز اٹھاتے ہیں اور ان کی باتوں سے محظوظ ہوتے ہیں‘ لطف اٹھاتے ہیں۔
والدین کا دل تو بڑا ہوتا ہی ہے‘ میرے خیال میں بیٹیوں کا دل والدین سے بھی بڑا ہوتا ہے جو اپنے آبائی گھر کو چھوڑ کر ایک نئے گھر میں چلی جاتی ہیں اور صرف چلی ہی نہیں جاتیں‘ وہاں کے حالات اور نئے گھر کے ماحول کے مطابق خود کو ڈھالتی اور ایڈجسٹ بھی کرتی ہیں۔ یہ یقینا آسان کام نہیں ہے۔ بیٹیاں اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی اپنے والدین کے گھر کو سنوارتی رہتی ہیں کہ یہ ان کا اصلی یا حقیقی گھر نہیں ہے بلکہ حقیقی گھر وہی ہے جہاں ان کی شادی ہوتی ہے۔ ایک بھرے پُرے گھر کو چھوڑ کر ایک نئے گھر میں جا کر ایک نئے ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنا بڑے دل کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ بیٹیوں کا دل والدین کے دلوں سے بھی بڑا ہوتا ہے۔
اب تو کچھ جدید زمانہ آ گیا ہے اور بچے بچیاں اپنی پسند کی شادی کرنے لگے ہیں‘ ذرا اس پرانے دور کی بیٹیوں کے بارے میں سوچئے جب بیٹیوں کی شادیاں انکی مرضی معلوم کیے بغیر طے کر دی جاتی تھیں اور پھر یہ نصیحت کی جاتی تھی کہ یہاں سے تمہاری ڈولی اٹھی ہے تو وہاں سے تمہارا جنازہ ہی اٹھنا چاہیے۔ بیٹیاں آج کی ہوں یا گزرے زمانوں کی‘ یقینا ان جیسا کوئی نہیں۔ والدین کا نعم البدل کوئی نہیں تو بیٹیوں کا بھی کوئی متبادل نہیں۔
اس زمینی حقیقت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اپنی اولاد کے لیے والدین سے بڑھ کر کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں ہوتا۔ اسی بات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ والدین کبھی اپنی اولاد کا برا نہیں چاہتے۔ سبھی اچھا اور مثبت سوچتے ہیں بلکہ نیشنل جیوگرافک چینل کے کچھ پروگراموں میں تو میں نے ایسے مناظر بھی دیکھے ہیں کہ والدین (جانور ہونے کے باوجود) اپنے بچوں کو بچانے کی خاطر اپنی زندگیوں کے نذرانے پیش کر دیتے ہیں۔ اس پر بابر اور ہمایوں کا واقعہ یاد آ گیا کہ ہمایوں جب شدید بیمار پڑ گیا تھا تو اس کے بادشاہ والد بابر نے اس کی موت کا صدمہ برداشت نہ کر سکنے کے پیشِ نظر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ ہوا یوں کہ بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کی چارپائی کے گرد سات چکر لگائے اور پروردگار عالم کے سامنے ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ اس کی زندگی اس کے بیٹے کو عطا کر دی جائے اور بیٹے کے سر پر منڈلانے والی موت کی نذر اسے یعنی بابر کو کر دیا جائے۔ دعا قبول ہوئی۔ جلد ہی ہمایوں بستر سے اٹھ کھڑا ہوا اور بابر شدید بیمار پڑ گیا‘ اور اسی بیماری میں دنیائے فانی سے رخصت ہو گیا۔ اولاد کی خاطر والد کی یہ قربانی تاریخ کا حصہ ہے۔
ابتدائی سطور میں جس گانے یا دعا کا ذکر کیا‘ اس میں بیک وقت دو جذبات موجزن نظر آتے ہیں۔ بیٹی کی شادی خانہ آبادی کی خوشی بھی اور اس کے بچھڑنے کا غم بھی اور کسی بھی جذبے کی شدت دوسرے سے کم نہیں ہے۔ شادی کی خوشی غالب آتی ہے تو والدین کے چہرے کی بشاشت دیکھنے والی ہوتی ہے اور بیٹی کے بچھڑنے کا غم زور مارے تو پھر انہی والدین کی دھاڑیں پتھروں کے بھی دل چیر دیتی ہیں۔
ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے میری بیٹی عائشہ کی صورت میں مجھے اپنی رحمت سے نوازا تھا۔ عائشہ جب ایک ننھے سے وجود کی صورت میں میرے پھیلے ہوئے ہاتھوں میں آئی تو جیسے میری دنیا ہی بدل گئی۔ میں مبہوت ہو کر اس ننھی پری کو دیکھتا ہی رہ گیا۔
میں نے پوچھا اسے کہ کون ہے تُو
ہنس کے بولی کہ میں ہوں تیرا پیار
میں ترے دل میں تھی ہمیشہ سے
گھر میں آئی ہوں آج پہلی بار
۔۔۔۔۔۔
اس کی باتوں میں شہد جیسی مٹھاس
اس کی سانسوں میں عطر کی مہکار
ہونٹ جیسے کہ بھیگے بھیگے گلاب
گال جیسے کہ دہکے دہکے انار
۔۔۔۔۔۔
اس کے آنے سے میرے آنگن میں
کھل اٹھے پھول گنگنائی بہار
دیکھ کر اس کو جی نہیں بھرتا
چاہے دیکھوں اسے ہزاروں بار
عائشہ نے ایک ایک دن‘ ایک ایک لمحہ میرے ساتھ‘ میرے سامنے گزارا۔ میں نے اسے بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کی منزلیں طے کرتے دیکھا۔ جانتا تھا کہ اسے ایک دن اپنا گھر بسانا ہے‘ اپنے پی کے نگر چلے جانا ہے‘ لیکن وقت اتنی تیزی سے گزر جائے گا اور جدائی کے لمحے اتنے جلدی آ جائیں گے‘ یہ کبھی نہ سوچا تھا۔ عائشہ کی شادی والے دن مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ لوگ بابل کی دعائیں والا گانا سن کر روتے کیوں ہیں۔ رہا ہی نہیں جاتا۔ جتنے بھی بند باندھیں آنسوؤں کا سیلاب آنکھوں کے ہر بند کو توڑ کر رخساروں پر بہہ ہی نکلتا ہے۔ اب جب اس کو رخصت کیا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ سب کچھ پلک جھپکنے میں ہی ہو گیا ہو۔ عائشہ بیٹی کی پیدائش سے لے کر اس کی رخصتی تک کے احساس کو لفظوں میں بیان کرنا شاید ممکن ہی نہیں۔ یہ ایک ایسا احساس ہے جس کو صرف ایک بیٹی کا باپ ہی محسوس کر سکتا ہے۔
عائشہ عمران اور محمد مہد سعادت اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رحمتوں کے سائے میں عافیت کے ساتھ خوش وخرم رکھے۔ سلامت رہیں۔ آمین یا رب العالمین
بابل کی دعائیں لیتی جا‘ جا تجھ کو سکھی سنسار ملے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved