فارس کے مقابلے پر صحابہ کرامؓ کی جنگیں بہت اہم ہیں۔ قادسیہ کی فتح ایک بہت بڑا انقلاب تھا۔ مدائن قادسیہ سے قریب تھا اور آس پاس کے علاقوں سے وہاں فوجیں پہنچ رہی تھیں جو مسلسل مدائن سے قادسیہ کی طرف روانہ کی جارہی تھیں۔ اللہ اپنے بندوں کو بے یارومددگار نہیں چھوڑتا۔ حضرت سعدؓ کے بھتیجے اور نہایت ہی بہادر مجاہد حضرت ہاشم بن عتبہؓ بھی شام کے علاقے سے قادسیہ کی طرف روانہ ہوچکے تھے اور وہ عین اُس وقت میدان میں پہنچے جب دوسرے روز کا معرکہ جوبن پر تھا۔ مسلمانوں کے حوصلے ان کی آمد سے بلند ہوئے اور فارسی مایوس ہونے لگے۔ جنگ کا یہ دوسرا دن تھا‘ جسے ''یوم الاغواث‘‘ کہا جاتا ہے‘ اُس دن دوہزار مسلمانوں نے اللہ کی راہ میں جانوں کے نذرانے پیش کیے اور جنت مقیم ہوگئے جبکہ ان کے مدمقابل آتش پرستوں کے دس ہزار سے زیادہ جنگجو جان کی بازی ہار کر واصلِ جہنم ہوئے۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اپنے بالا خانے سے جنگ کا منظر پوری توجہ اور مکمل یکسوئی کیساتھ دیکھ رہے تھے اور حسبِ حال ہدایات بھی لکھ لکھ کر بھیج رہے تھے۔ انہوں نے ایک جنگجو کو دیکھا جس نے اپنے سر اور منہ پر چادر کا پلو لپیٹ رکھا تھا۔ وہ دشمن کی صفوں کی طرف گھوڑا دوڑاتے ہوئے تیز رفتاری سے آگے بڑھا۔ وہ جس جانب گیا دشمن کی صفیں الٹ دیں۔ وہ ایسا جنگجو تھا کہ کبھی دائیں کنارے پر دشمن کو تہِ تیغ کرتا ہوا نظر آتا اور کبھی لڑتے لڑتے بائیں جانب کے آخری کنارے پر پہنچ جاتا۔ مسلمان مجاہدین سمجھ رہے تھے کہ یہ اللہ کی طرف سے کوئی فرشتہ ہماری مدد کیلئے آگیا ہے۔ حضرت سعدؓ حیران ہورہے تھے کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے گھوڑا انہی کا ہے‘ مگر یہ جنگجو کون ہے؟ اس کا کروفر ابومحجن ثقفی جیسا تھا مگر وہ تو بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے اسی مکان کے ایک کونے میں مقید تھے۔ بہرحال اس شام کو اندھیرا چھا جانے پر اہلِ فارس زخم چاٹتے ہوئے اپنی قیام گاہوں کی طرف پلٹے اور مسلمان بھی اپنے شہدا کی لاشیں اٹھاتے ہوئے زخمی دلوں کے ساتھ خیموں میں واپس آئے۔
ابومحجن ثقفی بنوثقیف کا ایک قابلِ فخر سپوت تھا۔ شاعر بھی اعلیٰ درجے کاتھا اور جنگجو بھی بے مثال ۔ مگر ایک خامی تھی کہ وہ شراب کا عادی تھا اور اپنے اشعار میں بھی شراب کا تذکرہ کیے بغیر نہیں رہ پاتا تھا۔ اس کی شراب نوشی کی وجہ سے حضرت سعدؓ نے اسے قید کردیا تھا اور اس پر حد بھی جاری کی تھی۔ جنگ کے دوران ابومحجن ثقفیؓ نے پہلے دن بھی اپنی کوٹھڑی کے سوراخوں سے جنگ کا منظر دیکھا تو جہاد سے محرومی پر دردناک اشعار کہے۔ دوسرے دن تو اس کی کیفیت ناقابلِ بیان ہوگئی۔ وہ بسمل کی طرح تڑپ اور رو رہا تھا۔ حضرت سعدؓ کی اہلیہ حضرت سلمیٰؓ گھر کے کام کاج کے دوران اس کمرے کی جانب گئیں تو ابومحجنؓ نے انتہائی دردناک شعر کہے۔ ان کے اشعار سیرت کی کم وبیش تمام کتابوں میں نقل ہوئے ہیں۔ امام عزالدین بن الاثیر الجزری نے اپنی معرکہ آرا کتاب 'اسد الغابۃ‘ میں چند اشعار لکھے ہیں‘ جن کی تاثیر دل میں اُتر جاتی ہے۔
ترجمہ: کیا یہ بات مجھے غم زدہ کرنے کیلئے کافی نہیں کہ شاہ سوار اپنے نیزے لہراتے ہوئے جنگ کا حق ادا کررہے ہیں اور میں یہاں بیڑیوں میں جکڑا پڑا ہوں۔
میں کھڑا ہونا چاہوں تو لوہے کی زنجیریں مجھے کھڑا نہیں ہونے دیتیں۔ یہ بیڑیاں مجھے میدانِ جنگ میں جانے سے روک لیتی ہیں۔ جن کو مدد کیلئے پکارتا ہوں وہ بہرے بن جاتے ہیں۔
وہ کیا دور تھا جب میرے پاس مال ودولت کی بھی کثرت تھی اور میرے گرد ونواح بہت سے بھائی بند اور اعزہ موجود تھے۔ وہ سب میرا ساتھ چھوڑ گئے‘ اب میں اکیلا ہوں اور کوئی میرا پرسانِ حال نہیں۔
فیصلہ کن جنگ زوروں پر ہے اور ہماری محرومی کہ ہمیں اس میں شمولیت سے روک دیا گیا ہے۔ آج کے دن دوسرے لوگ عظیم الشان کارنامے سرانجام دے رہے ہیں اور میرا اس میں کوئی حصہ نہیں۔
میں اللہ کے نام پر عہد کرتا ہوں اور میں اس عہد میں کبھی خیانت نہیں کروں گا۔ (اے سلمیٰ) اگر تُو میری بیڑیاں کھول دے تو میں ہرگز جام وساغر اور شراب کے قریب نہ جاؤں گا۔
حضرت سلمیٰؓ کے سامنے ابومحجنؓ نے یہ اشعار ایسی حالت میں کہے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ انہوں نے کہا میری بہن سلمیٰ! خدا کیلئے مجھے جہاد میں شریک ہونے کیلئے آزاد کردیں۔ اگر میں شہید ہوگیا تو بہتر اور اگر زندہ رہا تو میرا عہد ہے کہ میں فوراً واپس آکر بیڑیاں پہن لوں گا۔ حضرت سلمیٰؓ نے حضرت سعدؓ کے ڈر کی وجہ سے معذرت کرلی تو ابومحجنؓ نے ایک بار پھر کئی دردانگیز اشعار کہے۔ یہ اشعار سن کر حضرت سلمیٰؓ سوچ میں پڑ گئیں۔ آخر انہوں نے ابومحجنؓ کے وعدے پر اعتبار کرتے ہوئے ان کو رہا کردیا اور حضرت سعد کے ہتھیار اور ان کا سفید گھوڑا بھی ان کو دے دیا۔ یوں ابومحجنؓ اپنے سر اور چہرے پر کپڑا لپیٹ کر گھوڑا دوڑاتے ہوئے میدانِ جہاد میں کود پڑے۔ ان کے حملہ کرنے کا انداز حضرت سعدؓ ہی کی طرح تھا۔ شام کو جب معرکہ کارزار ختم ہوا تو حضرت ابومحجن ثقفیؓ نے وعدہ ایفا کرتے ہوئے جلدی سے واپس آکر خود کو مقید کرلیا۔ شام کو حضرت سعدؓ بالاخانے سے نیچے اترے اور اپنی بیوی سے اس نامعلوم مجاہد کا تذکرہ کیا اور اس کی تحسین کی۔ حضرت سلمیٰؓ نے اس بات سے حوصلہ پاکر بتا دیا کہ یہ ابومحجن ثقفی تھا جس کو میں نے اس کے دردناک اشعار سن کر آزاد کردیا تھا۔
حضرت سعدؓ نے جب یہ سنا تو فرمایا: ایسے مجاہد کو بیڑیاں پہنانا مناسب نہیں۔ پھر آپ نے ابومحجنؓ کو اپنے پاس بلایا اور اس سے کہا: ابومحجن! خدا کی قسم تیری جاں فروشی کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ میں تجھ جیسے مجاہد کو قید میں نہیں رکھ سکتا۔ پھر آپ نے اس کی بیڑیاں اتار دیں۔ جونہی وہ رہا ہوئے‘ انہوں نے دست بستہ عرض کیا: اے امیر! مجھ پر حد لگتی رہی‘ مگر میری بدقسمتی کہ اس کا خوف مجھ سے شراب نوشی نہ چھڑا سکا۔ خدا کی قسم آج میں عہد کرتا ہوں کہ خوفِ خدا کے تحت آئندہ کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔ ابومحجنؓ نے اس عہد کو بعد ازاں خلوص اور پابندی کے ساتھ نبھایا۔ سبحان اللہ کیا حقیقی انقلاب ہے!
جنگ کے تیسرے دن کو 'یوم العماس‘ کہا جاتا ہے۔ اس روز بھی علی الصبح دونوں فوجیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور گھمسان کا رن پڑا۔ آج ابومحجنؓ اپنے ہتھیاروں کے ساتھ جہاد میں شریک تھے۔ حضرت سعدؓ کی کاوش تھی کہ آج جنگ کا فیصلہ ہوجائے۔ انہوں نے مجاہدین کے حوصلے بڑھانے کیلئے انہیں بہت اچھے اور مختصر پیغامات ارسال کیے‘ جس میں ان کی بہادری اور کارناموں کی تحسین بھی فرمائی۔ اہلِ فارس نے بڑھ چڑھ کر حملے کیے‘ مگر مسلمانوں کا جذبہ ان کے سامنے فصیل بن گیا۔ فارسی لشکر میں دو ہاتھی‘ ایک سفید اور ایک چتکبرا قوی ہیکل اور ہاتھیوں کے سالار تھے۔ بنوتمیم کی ذمہ داری لگی کہ وہ سفید ہاتھی کو گھیرے میں لے کر اس کی آنکھیں اور سونڈ کاٹیں‘ جبکہ بنواسد کے جانبازوں کو چتکبرے ہاتھی کے بارے میں یہی پیغام دیا گیا۔ حضرت قعقاع بن عمرو تمیمیؓ اور عاصم بن عمروؓ نے سفید ہاتھی کی سونڈ کاٹی تو وہ بلبلاتا ہوا اپنی فوج کو روند کر پیچھے کی طرف بھاگا۔
اسی طرح بنواسد کے دونوجوانوں عمار اور عبید نے دوسرے ہاتھی کی آنکھیں بے کار کردیں۔ وہ بھی اسی طرح پیچھے کی طرف بھاگا۔ ان دونوں ہاتھیوں کو دیکھ کر باقی ہاتھی بھی پیچھے کی طرف بھاگنے لگے اور اپنی ہی فوج کو کچلنے لگے۔ مجاہدین نے اپنی صفوں کو مزید منظم کیا اور فیصلہ کن کارروائی کرنے کیلئے تندوتیز حملے کیے۔ اس کے ساتھ تکبیر کے نعروں سے میدان گونج اٹھا۔ آخر ایرانی پہلوان رستم کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا اور وہ ذلت ناک شکست کھا کر میدان سے بھاگا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved