امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیتے ہوئے‘ ان کی امریکہ مخالف خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔اسی روز یعنی 4 نومبر کو شہید کی تنظیم‘ٹی ۔ٹی۔ پی نے ‘ پاکستان کو امریکی غلام قرار دیتے ہوئے مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔ بی بی سی کی اسی خبر میں شہید کی پارٹی نے پاک فوج کے خلاف بڑے سخت الفاظ استعمال کئے اورخاکم بدہن اسے ’’مرتد اور ناپاک‘‘ تک قرار دے دیا۔ امریکہ کی ایک مستند نیوز اور انٹیلی جنس ایجنسی ’’سٹریٹ فار‘‘ نے 4 نومبر ہی کو خبر دی ہے کہ حکیم اللہ شہید کی جماعت نے‘ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو خطے میں امریکہ کی مدد کے جرم میں‘ ہدف بنانے کا اعلان کیا ہے۔ موجودہ جماعت اسلامی کے قائدین بڑی کوششوں کے بعد‘ اس دور کو بھلانے کی کوشش کرتے ہیں‘ جب اس جماعت کے بزرگ لیڈروں نے‘ پاکستان کو ’’ناپاکستان‘‘ اور قائداعظمؒ کو ’’کافر اعظم‘‘ قرار دیا تھا۔ جہاد کشمیر کوناجائز کہا تھا اور پاکستانی فوج میں بھرتی کے خلاف مہم چلائی تھی۔ نوجوان نسل‘ ان سارے کارناموں کو فراموش کر کے‘ اپنی سوچ کے مطابق پاکستان کو ذہنی طور پر قبول کر چکی ہے اور ایسی باتیں کرنے سے گریز کیا جاتا ہے‘ جن میں پاکستان دشمنی کا عنصر پایا جاتا ہو یا پاکستانی عوام کے خلاف بغض دکھائی دیتا ہو۔ جماعت کے موجودہ امیر سید منور حسن نے ایک بار پھر پاکستانی عوام کا خون بہانے والے ایک گروہ کے سربراہ کی ہلاکت پر‘ اسے شہید قرار دے دیا اور سید صاحب کے فرمان کے مطابق ہزاروں پاکستانی بے گناہوں کو بموں سے اُڑانے اور سینکڑوں پُرامن شہریوں کو اغوا کر کے‘ تاوان وصول کرنے والے شخص کو‘ اس لئے شہید قرار دے دیا کہ وہ امریکہ کی مخالفت کرتے ہوئے ‘ اس کے ہاتھوں مارا گیا۔ یہ فتویٰ پڑھ کر پاک فوج کے شہیدوں کی بیوائوں‘ ان کے سوگوار والدین اور یتیم بچوں کے کلیجے میں ضرور ٹھنڈک پڑ گئی ہو گی کہ حکیم اللہ نے جام شہادت نوش کر لیا۔ میں جماعت کے کارکنوں اور لیڈروں کے لئے یہ دعا نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ ان کے کلیجے میں بھی اسی طرح کی ٹھنڈک ڈالے۔ میں گناہگار ہی سہی‘ بہرحال ایک مسلمان ہوں۔ سید منور حسن کے محبوب مجاہد‘ حکیم اللہ شہیدنے پاکستان کے خلاف اپنے مقدس جہاد میں ‘ جتنے بھی پاکستانی شہریوں کو اذیت ناک موت سے دوچار کیا ہے‘ وہ سب کے سب کلمہ گو اور بیگناہ مسلمان تھے۔ انہیں مسجدوں میں بموں سے اڑایا گیا۔ طالبات کی بسیں دھماکوں سے اڑائی گئیں۔ ہسپتالوں میںپڑے مریضوں کے جسموں کے پرخچے بارود سے اڑائے گئے۔ سینکڑوں سکول کھنڈرات میں بدل دیئے گئے۔ عورتوں کے لئے حصول علم کا حق منوانے کی خاطر جدوجہد کرنے والی ایک معصوم بچی‘ ملالہ پر گولیاں چلوائیں اور کم از کم چار پانچ ہزار پاکستانی مسلمانوں کی جانیں لیں۔ یہ شاندار کارنامے انجام دینے کے بعد سید منور حسن کے دل میں‘ حکیم اللہ کے لئے محبت پیدا ہو گئی ہو گی۔ اسی لئے انہوں نے ڈرون سے مرنے والے حکیم اللہ کو شہید قرار دے دیا اور جتنے مسلمانوں کو اس شخص نے بے رحمی سے ہلاک کیا تھا‘ ان سب کا خون اسے معاف کر دیا گیا۔ یہ میں نے اپنی طرف سے نہیں لکھا۔ سید صاحب نے خود فرمایا ہے کہ ’’حکیم اللہ نے جہاد کیا تھا اور افغانستان کے اندر اسلام دشمنوں کے خلاف لڑتا رہا۔‘‘ گویا ہزاروں پاکستانی مسلمانوں کا خون اتنا سستا اور حقیر ہے کہ پانچ چھ امریکیوں کو مارنے کے بعد‘ معاف ہو جاتا ہے۔ سیدصاحب نے ‘ الطاف حسین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے فرمایاکہ ’’وہ لندن میں بیٹھ کر بیان داغ دیتے ہیں۔ الطاف حسین کو چاہیے کہ وہ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں اور اسلام کے متعلق صحیح گفتگو کریں۔‘‘ الطاف حسین کا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے صرف ایک سوال اٹھایا تھا اور وہ یہ کہ ’’کیا مساجد میں مسلمانوں کو مارنے والے کو شہید قرار دیا جا سکتا ہے؟‘‘ جماعت اسلامی کے سربراہ یقینی طور پر قرآن و حدیث کا پورا علم رکھتے ہیں۔ مگر انہوں نے حکیم اللہ کو شہید قرار دینے کا جو فتویٰ صادر فرمایا‘ اس میں قرآن و حدیث کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ محض ایک دلیل دی گئی ہے کہ اس نے افغانستان میں چند امریکیوں کو مار دیا تھا۔ حیرت مولانا سمیع الحق کے بیان پر ہوئی ۔ جس میں انہوں نے فرمایا کہ ’’اللہ بہتر جانتا ہے‘ حکیم اللہ ہلاک ہوا یا شہید؟‘‘ جنرل حمید گل بھی افغان جہاد میں ممتاز خدمات انجام دے چکے ہیں۔ لیکن جب ان سے سید منور حسن کے فتوے پر رائے مانگی گئی‘ تو انہوں نے کسی عالم دین کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔بہرحال وہ ایک فوجی ہیںاور انہیں اپنے ساتھی افسروں اور جوانوں اور عام پاکستانی مسلمانوں کی شہادتوں کا خیال آ گیا‘ جو حکیم اللہ کے حکم پر شہید کئے گئے۔ میں فرائض کی انجام دہی کے دوران جان دینے والے فوجیوں اور بے گناہ مسلمانوں کی شہادتوں کے ذمہ دار شخص کو محض اس لئے شہادت کا درجہ نہیں دے سکتا کہ اس نے چار پانچ امریکی مار دیئے تھے۔ مولانا سمیع الحق کا تذبذب باعث تعجب ہے۔ مگر قارئین کو میری یہ بات یاد ہو گی کہ وہ دہشت گرد ہوں‘ مذہبی جماعتوں کے لیڈر ہوں‘ مدرسوں کے طلبا ہوں یا دائیں بازو کی جماعتیں ہوں‘ اصل میں سب کے سب ایک ہی منزل کے مسافر ہیں اور منزل ہے پاکستان کی ریاست پر قبضہ۔ جو آخر کار القاعدہ کے سربراہ کی تقلید پر منتج ہو گا۔ یعنی جب یہ لوگ اقتدار پر قابض ہو جائیں گے‘ تو پاکستان کی سرحدیں بے معنی ہو جائیں گی اور ہمارے ملک کو دنیا کے تمام مسلمانوں کا وطن قرار دے دیا جائے گا۔ ہمارے ایٹمی اثاثے تمام عالم اسلام کی ملکیت قرار پائیںگے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ القاعدہ کے نظریات کے مطابق وہ تمام مسلمان کافروں میں شمار ہوں گے‘ جو ان کے مسلک سے اختلاف کریں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ القاعدہ کے لیڈرجیسے ایمن الظواہری‘ سید منور حسن کو بھی مسلمان سمجھتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ ان کی اکثریت تکفیریوں پر مشتمل ہے اور وہ تمام مسالک کے پاکستانیوں کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے۔ اگر وہ کسی بھی مسلک کو اپنا اتحادی بناتے ہیں‘ تو وہ محض حربی ضروریات کے تحت ہوتا ہے۔ دل سے اسے کافر ہی مانا جائے گا اب حکیم اللہ شہید کے پیروکاروں کے پالیسی بیانات بھی ملاحظہ فرما لیں۔ انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کسی طرح کے مذاکرات نہیں کریں گے۔ پاکستان کی منتخب قیادت کے بارے میں‘ جو کچھ انہوں نے ارشاد کیا‘ اس کا حوالہ میں اوپر دے چکا ہوں۔ انہوں نے بھی حکیم اللہ شہید کے نظریات کے مطابق پاک فوج کو خاکم بدہن مرتد اور ناپاک قرار دیا ہے۔ مناسب تو یہی ہوتا کہ سید صاحب سرزمین پاک‘ شمالی وزیرستان میں جا کر حکیم اللہ شہید کے مزارمبارک پر دعا کرتے اور ممکن ہوتا تو جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکنوں کو بھی ساتھ لے جاتے۔ مجھے یقین ہے کہ سید صاحب ایسا نہیں کریں گے۔ خدانخواستہ ایسا کر بیٹھے‘ تو حکیم اللہ شہید کے پیروکار ‘ انہیں بھی کافر پاکستانی قرار دے کر درجہ شہادت پر فائز نہ کر دیں۔ کیونکہ القاعدہ کے مقلدین سے کچھ بعید نہیں۔ مجھے نہیں معلوم پاکستان کے وہ سارے سیاستدان‘ جنہوں نے اے پی سی کی مشترکہ قرارداد پاس کی‘ طالبان سے کس بنیاد پر مذاکرات کی امید رکھتے ہیں؟ اور کس وجہ سے ارباب اقتدار یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کر چکے تھے اور تین علما پر مشتمل ایک وفد‘ حکیم اللہ شہید سے ملاقات کرنے شمالی وزیرستان جا رہا تھا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ وفد کو دورہ ملتوی کرنا پڑا‘ ورنہ اگر حکومت پاکستان کی نمائندگی کرنے والا ایک وفد‘ حکیم اللہ محسود کے ڈیرے پر حاضری دے بیٹھتا‘ تو قبائلی روایات کے مطابق یہ سمجھ لیا جاتا کہ حکومت پاکستان نے شکست تسلیم کر لی ہے۔ اس کے بعد توحکیم اللہ ‘وفد کے سامنے شکست کی دستاویز رکھ کردستخط کرنے کا حکم دے سکتا تھا۔ مجھے حیرت ہے کہ اتنے نازک اور حساس معاملے پر اعلیٰ درجے کے حکومتی عہدیدارکیسی سمجھداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ جن تین نمائندوں کو حکیم اللہ کے پاس جانے کے لئے نامزد کرنے کا دعویٰ کیا گیا‘ ان میں ایک محترم شخصیت سے میری بھی نیازمندی ہے اور انہیں حکیم اللہ محسود کی شہادت کے دن تک علم نہیں تھا کہ انہیں باقاعدہ نامزد کیا جا چکا ہے۔ آنے والے چند روز میں پتہ چل جائے گا کہ مذاکرات کے لئے بے تاب پاکستانی قائدین کے دلوں میں‘ دہشت گردوں سے محبت کے جو چشمے پھوٹ رہے ہیں‘ دوسری طرف سے ان کا جواب کیا آتا ہے؟ اللہ تعالیٰ طالبان سے محبت کرنے والے مذاکراتی پاکستانیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ آج مولانا فضل الرحمن نے فرمایا: ’’امریکہ کسی کتے کو بھی مارے گا تو میں اسے شہید کہوں گا‘‘۔ کاش امریکہ اپنے سارے کتوں کو ’’شہید‘‘ کردے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved