کل بروز پیر سے دنیا ایک نئے دور‘ ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے جا رہی ہے۔ ماضی قریب کے حالات و واقعات‘ پالیسیاں اور بیانات اس امر کی نشاندہی اور پیشگوئی کر رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 20 جنوری کو امریکہ کے 47ویں صدر کے طور پر حلف اٹھانے کے بعد کی دنیا ایک نئی دنیا ہو گی‘ موجودہ دنیا سے بالکل الگ‘ کیونکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی نئی ٹرم میں وہ تمام کام اور اقدامات کرنا چاہتے ہیں جو پچھلی ٹرم میں ہونے سے رہ گئے تھے۔ یہ اقدامات امریکہ کے داخلی امور کے حوالے سے ہوں گے اور بین الاقوامی صورت حال کے تناظر میں بھی۔ ٹرمپ نے ابھی امریکہ کے صدر کا حلف نہیں اٹھایا‘ یعنی وہ اپنے عہدے پر ابھی مقرر نہیں ہوئے‘ اس کے باوجود پوری دنیا میں سیاسی حوالوں سے ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بطور امریکی صدر حلف اٹھانے کے بعد کی دنیا کیسی ہونے جا رہی ہے۔
میرا خیال ہے ڈونلڈ ٹرمپ کا پچھلا دور جارحانہ پالیسیوں پر مبنی دورِ حکومت تھا لیکن نیا دورِ حکومت اس سے بھی زیادہ جارحانہ محسوس ہوتا ہے۔ امریکی جریدے فارن پالیسی میں سیاسی امور کے ماہرین نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد خارجہ پالیسی پر انتہا پسندوں کے غلبے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ مذکورہ امریکی جریدے میں شائع شدہ مضمون میں لکھا گیا کہ ٹرمپ کی پہلی مدت میں قومی سلامتی کے لیے کئی سیاسی تقرریاں تین حصوں پر مشتمل تھیں۔ سب سے بڑا حصہ ماہرین‘ دوسرا تجربہ کار سینئر حکام جیسے مک ماسٹر اور جان بولٹن جبکہ تیسرا چھوٹا مگر اثرورسوخ رکھنے والا گروپ تھا۔ یہ گروپ ٹرمپ کی خواہشات کو کسی نتائج کی پروا کیے بغیر پورا کرنے کی کوشش کرتا تھا‘ یہ تیسرا گروپ ہی تھا جس نے افغانستان سے فوری طور پر نکلنے جیسے فیصلے جلدی میں لینے کی کوشش کی۔ جریدے نے لکھا کہ ٹرمپ کے دوسرے دور میں اس گروپ کا اثرورسوخ پچھلے دور سے بھی زیادہ ہو گا اور موجودہ پالیسی سازی میں اس انتہا پسند گروپ کی بالا دستی ہو گی۔ یہ دھڑا اعتدال پسند آوازوں کو دبانے اور سویلین اور فوجی رینکس میں جن افرادکو ڈیپ سٹیٹ کے نمائندوں کے طور پر دیکھتے ہیں‘ ان کو نکالنے کی کوشش کرے گا۔ یہ حکومتی مشینری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالفین اور ناقدین کے خلاف بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
تازہ خبر یہ ہے کہ اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق جنگ بندی کا عمل تین مراحل پر مشتمل ہو گا۔ پہلے مرحلے میں 33اسرائیلی اور تقریباًدو ہزار فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے‘ اور اسرائیلی فوج غزہ کے شہری علاقوں اور رفح بارڈر سے پیچھے ہٹے گی۔ دوسرے مرحلے میں مزید قیدیوں کی رہائی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ تیسرے مرحلے میں غزہ کی تعمیرِ نو اور انتظامی امور کے معاملات طے کیے جائیں گے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کا جو معاہدہ ہوا ہے اس کے پیچھے ڈونلڈ ٹرمپ کا ہاتھ ہے۔ ادھر امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے مل کر کام کیا۔ مطلب یہ کہ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی غزہ میں جنگ بندی کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ جنگ بندی کے معاہدے کا کریڈٹ جو بھی لے یہ سوال اپنی جگہ قائم رہے گا کہ جو معاہدہ جنوری 2025ء کے وسط میں ہوا وہ اکتوبر 2023ء میں غزہ کی جنگ شروع ہونے کے فوری بعد کیوں نہیں کرایا گیا؟ کیوں 46 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینیوں کے قتلِ عام کا تماشا دیکھا گیا؟ کیوں غزہ کے تاخت و تاراج ہونے پر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا؟
ٹرمپ کے دوسرے دور میں پورے مشرقِ وسطیٰ کے منظرنامے کا اندازہ لگایا جائے تو یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ٹرمپ نے حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنایا تو معاملات اس سے آگے نہیں بڑھیں گے‘ جہاں تک پہنچ چکے ہیں‘ لیکن امریکہ ایران تعلقات کے حوالے سے یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حال ہی میں امریکی تنظیم United Against Nuclear Iran(UNI) نے ایک جامع منصوبہ جاری کیا ہے جس میں ٹرمپ انتظامیہ کی نئی مدت کے پہلے 100دنوں کے دوران ایران کے بارے میں امریکی پالیسی کو از سر نو تشکیل دینے کی سفارشات شامل ہیں۔ سفارشات میں سے چند یہ ہیں: اقوام متحدہ کے ذریعے بین الاقوامی پابندیاں دوبارہ لگانے کے طریقہ کار کو فعال کرنا‘ ایران سے ایٹمی پروگرام میں ''زیرو افزودگی یا ری پروسیسنگ‘‘ کی پالیسی پر عمل کرنے کا مطالبہ‘ تہران پر دباؤ ڈالنے کے لیے اتحادیوں اور بین الاقوامی شراکت داروں کے تعاون سے ایک اتحاد تشکیل دینا‘ ایرانی عوام کی مدد کے لیے ''ڈیموکریسی فنڈ‘‘ بنانے کے لیے ایرانی اثاثوں کو ضبط اور ری ڈائریکٹ کرنا‘ تہران امریکی شہروں کو نقصان پہنچائے تو ایرانی پاسداران انقلاب اور وزارتِ انٹیلی جنس کی تنصیبات کے خلاف فوجی حملے کرنا وغیرہ۔ آئندہ مہینوں میں امریکہ ایران تعلقات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں‘ اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ ٹرمپ یو این آئی جیسی تنظیموں کے پروپیگنڈا میں کتنا آتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ ابھی مسندِ اقتدار پر بیٹھے نہیں لیکن ان کے بیانات ان کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بہت سی چیزیں آشکار کرتے جا رہے ہیں۔ سطور بالا میں مَیں نے لکھا کہ ایران کو چھوڑ کر ٹرمپ مشرقِ وسطیٰ میں امن چاہیں گے۔ میرے یہ مؤقف اپنانے کے پیچھے ڈونلڈ ٹرمپ کے تین بیانات‘ پالیسیاں یا منصوبے ہیں۔ پہلا: نو منتخب امریکی صدر نے کینیڈا کی سرحد کو 'مصنوعی‘ قرار دیتے ہوئے کئی بار اس بات کا ذکر کیا کہ کینیڈا امریکہ کی 51ویں ریاست بن سکتا ہے۔ دوسرا: ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ حکومت کے دوران 2019ء میں گرین لینڈ کو خریدنے کی بات کی تھی۔ اب ایک بار پھر گرین لینڈ کو خریدنے یا اس پر قبضہ کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ وجہ ہے اس جزیرے کی دفاعی اہمیت۔ گرین لینڈ خود مختار ملک ڈنمارک کی مملکت کا حصہ ہے اور بحرِ منجمد شمالی اور بحرِ اوقیانوس کے درمیان واقع ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ تیسرا: ڈونلڈ ٹرمپ نے پاناما کینال کا کنٹرول ایک بار پھر امریکہ کے ہاتھوں میں لینے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ پاناما کینال لاطینی امریکہ کے ملک پاناما میں واقع ایک سمندری گزرگاہ ہے جس کے ذریعے بحری جہاز بحر اوقیانوس اور بحرالکاہل کے مابین سفر کر سکتے ہیں۔ اس نہر کی تعمیر سے علاقے میں جہاز رانی اور بالواسطہ تجارت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے کیونکہ اس سے قبل بحری جہاز براعظم جنوبی امریکہ کے گرد چکر لگا کر بحرالکاہل میں داخل ہوتے تھے۔ یہ ایک لمبا اور کٹھن سفر تھا۔ پاناما کینال کی تعمیر سے 22500 کلومیٹر کا طویل بحری سفر سمٹ کر 9500 کلومیٹر ہو گیا۔ 1999ء میں امریکہ نے اس نہر کا مکمل کنٹرول پاناما کے حوالے کر دیا تھا لیکن اب سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر ٹرمپ اس اہم بحری گزرگاہ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاناما کینال ہمارے ملک کے لیے اہم ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اگر داخلی سطح پر امیگرنٹس کے معاملے اور خارجہ محاذ پر کینیڈا‘ پاناما کینال اور گرین لینڈ کے مسئلے میں الجھے رہے تو دنیا کے باقی معاملات سے ان کی توجہ یقینی طور پر ہٹے گی۔ اسی بنیاد پر میں نے خیال ظاہر کیا کہ ٹرمپ مشرقِ وسطیٰ میں امن چاہیں گے تاکہ اپنے خطے کے معاملات پر توجہ دے سکیں۔ (جاری )
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved