جس دن سے دنیا کے نقشے پر تقسیم اور حد بندیوں کا عمل شروع ہوا، ریاستوں کی سرحدیں متعین ہونا شروع ہوئیں‘ کسی کو گمان تک نہ تھا کہ کرۂ ارض پر ایک ایسی ریاست بھی وجود میں آ جائے گی جو خالصتاً اسلام کے نام پر قائم ہوگی‘ جسے اس خطے کے رہنے والے عوام اپنے فیصلے سے قائم کریں گے اور فیصلہ بھی ایسا کہ بڑے بڑے عالمی مفکرین اور سیاسی دانشوروں کو اس کے قیام کے وقت یقین آیا تھا نہ وہ آج اسے تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ بھلا کیسے تسلیم کر لیں‘ انہوں نے دو صدیاں یہ علم لوگوں کو پڑھا یا کہ قومیں رنگ ، نسل، زبان اور علاقے سے بنتی ہیں‘ لیکن یہ بے وقوف لوگ کہاں سے آ گئے جن کے دادا پردادا ایک، زبان ایک، جو بھنگڑا ایک طرح کا ڈالیں، ساگ ایک طرح کا کھائیں، دھوتی ایک جیسی پہنیں، ہیر ایک ساتھ گائیں، لیکن ’’پاگل پن‘‘ ایسا کہ ایک دوسرے کو بھائی نہیں کہتے۔ کیوں بھئی! یہ کیسے؟ تمہاری رگوں میں تو ایک ہی نسل یا برادری کا خون دوڑ رہا ہے۔ پوری ہٹ دھرمی سے کہتے ہیں‘ یہ اس لئے میرا بھائی نہیں کہ یہ لا الہ الا اللہ نہیں پڑھتا۔ بس دونوں میں یہ فرق ہے اور یہی سب سے بڑا فرق ہے۔ اسی فرق کی بنیاد پر دنیا بھر کے مفکرین کی چھاتی پر مونگ دلنے کے لیے وہ ریاست وجود میں آگئی جسے پاکستان کہتے ہیں۔ جس دن سے یہ مملکت وجود میں آئی، ایک طبقہ ایسا ہے جس کی گفتگو‘ خیالات‘ مضامین‘ شاعری اور افسانے اٹھا کر دیکھ لیں ان کا ایک ہی رونا ہے کہ یہ ملک بناہی غلط ہے اور اس کا قائم رہنا مشکل ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں حتیٰ کہ افغانستان جیسے پسماندہ ترین ملک میں بھی اس کے دانشور یہ تجزیہ پیش نہیں کرتے کہ یہ ملک نہیں رہے گا۔ افغانستان میں اکثریت پشتونوں کی ہے۔ ان کے علاوہ وہاں ازبک، تاجک ، ہزارہ اور دوسری قومیں آباد ہیں لیکن کسی اہل دانش کو خواب میں بھی افغانستان کے ٹوٹنے کا منظر دکھائی نہیں دیتا۔ میرے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے پڑھے لکھے طبقے کا بڑا حصہ اس ملک کے قیام کی اساس سے متنفر ہے جو بھیس بدل بدل کر اس کے قیام سے ہی اس کے ٹوٹنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اس طبقے کی ذہنی آبیاری انگریز حکومت کے سو سالہ اقتدار اور نظام تعلیم و حکومت نے کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس ملک کے قائدین آئین مرتب کرنے لگے تو انگریز کی وفادار بیوروکریسی اپنے سکہ بند قائد غلام محمد کی سر کردگی میں قرار داد مقاصد کا مسودہ لے کر سامنے آگئی جو ہو بہو بھارت کی قرار دادِ مقاصد کی نقل تھا۔ اسے پاکستان بنانے والے قائد ین نے مسترد کر دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہم نے اس ملک کے لیے جدوجہد کس لیے کی ہے۔ پھر برسوں یہ لا حاصل بحث ہوتی رہی کہ یہ ملک اسلام کے لئے نہیں مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ کیا مسلمان اور اسلام ایک دوسرے سے الگ حیثیت رکھتے ہیں؟ پاکستان کے قیام سے لے کر روس کے ٹوٹنے اور کمیونزم کا بت پاش پاش ہونے تک جہانِ دانش کے یہ شہوار اس ملک میں قومیت اور زبان و نسل کی بنیاد پر نفرت کے بت تراشتے رہے۔ پہلے مغربی پاکستان کو غاصب قرار دیا گیا اور مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو محروم۔ پھر پنجابی استعمار کا نعرہ اس زور شور سے لگایا گیا کہ باقی تمام صوبے مظلوم قومیتوں کے خود ساختہ حصار میں قید ہو گئے جس کی وجہ سے ملک میں امن، سکون اور اطمینان خواب ہو گیا۔ روس کے ٹوٹنے اور سامراجی غلبے کے بعدیہ تمام لوگ جن کے دلوں میں اس ملک کی اساس سے نفرت بھری ہوئی تھی زقند لگا کر سامراج کی گود میں جابیٹھے۔ بڑے بڑے کمیونسٹ، سوشلسٹ اور سامراج سے لڑنے والے دانشور آنِ واحد میں سیکولر اور لبرل ہوگئے۔ تمام عمر جمہوریت کو سرمایہ دارانہ نظام کی کٹھ پتلی سمجھ کر گالی دینے والے ایک دم جمہوریت پرست بن گئے۔ جو انسانی حقوق کی تنظیموں کو کمیو نزم کے خلاف مغربی سازش سمجھتے تھے وہ اس کے کرتا دھرتا بن بیٹھے اور جو لوگ این جی اوز اور سماجی خدمات کی تنظیموں کو انقلاب کے راستے کی رکاوٹ قرار دیتے تھے ان کے جذبات کے غبارے سے ہو انکل گئی۔ انہوں نے خود این جی اوز بنا لیں اور اس اتحاد کو سول سوسائٹی کا نام دے دیا۔ گویا اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں یہی چند ’’سول‘‘ (مہذب) اور باقی عام لوگ ’’نان سول‘‘ یعنی غیر مہذب اور پسماندہ ہیں۔ ان سب کا مقصد ایک ہے… پہلے تو دنیا میں ایسے ملک کا وجود ہی باقی نہیں رہنا چاہیے جس کی اساس اسلام ہو اور اگر باقی رہے تو اسے اس کی اساس سے اتنا دور کر دیا جائے کہ یہ ایک معمول کی عام سی قومی ریاست نظر آئے۔ ان سب کے گلے کی ہڈی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں دین اسلام سے محبت ہے۔ ان کے گلے کی پھانس پاکستان کا آئین ہے‘ آئین میں موجود قرارداد ِ مقاصد ہے، اسلامی دفعات ہیں اور قرآن و سنت جس کے قانون کا منبع ہے۔ یہاں ان لوگوں کی سوئی پھنس جاتی ہے ، راستہ نہیں ملتا، اس لیے کہ ا ن کے نزدیک کسی سیکولر ریاست میں مقننہ کا بنایا ہوا آئین سب سے بالا ہوتا ہے اور اس آئین کے تحت بنی ریاست میں فوج لاکھ چاہے اس میں درج مقاصد سے باہر نہیں نکل سکتی۔ مدتوں اس فوج کو ایک قومی فوج بنانے کی تگ دود ہوئی، لیکن مسلمان کو موت کی جانب صرف ایک ہی چیز مائل کر سکتی ہے اور وہ ہے جذبہ شہادت۔ وہ امر نہیں ہونا چاہتا، نشان حیدر یا کتابوں میں تذکرے نہیں چاہتا، زمین اور جائداد کا لالچ اسے موت کی آغوش میں مسکرانا نہیں سکھا سکتا۔ اسے تو بس شہادت کی موت اور اللہ کے حضور سرخروئی درکار ہے جو اسے صرف اللہ کے کلام اور محمد رسول اللہﷺ کے ارشادات سے ملتا ہے۔ آئین میں اسلام، عوام کے دلوں کی دھڑکن میں اسلام، فوج کے جذبہ جہاد میں اسلام… جائیں تو جائیں کہاں؟ یہاں یہ لوگ بند گلی میں آجاتے ہیں۔ پہلے وہ اسی صورت حال سے دوچار ہوتے تھے تو کمیونزم‘ روس اور مزدور کسان سیاست ا نہیں اپنی باطنی الجھن سے نکال لیتی تھی لیکن اب پھنستے ہیں تو امریکہ، دہشت گردی کے خلاف جنگ، انسانی حقوق کی بالادستی اور جمہوریت کا تسلسل انہیں باہر نکال لیتا ہے۔ ان کی خواہشات کے عین مطابق اکتوبر1999ء سے پرویز مشرف کی ’’ روشن خیال سیاست‘‘ نے اس ملک کے کوچہ و بازار میں جنگ کا سماں پیدا کر رکھا ہے۔ کتنی بڑی کامیابی ہے‘ ایسا ملک جس کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا‘ وہاں خون کی ندیاں بہتی ہیں، امن روٹھ جاتا ہے اور ان سب کو اپنا پرانا تبصرہ کرنے کا موقع مل جا تا ہے کہ یہ ملک نہیں رہ سکتا، یہ ٹوٹ جائے گا۔ان کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ امریکہ اور پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیاں مل کر ہراس آواز کا گلہ دبا دیں جس میں اسلام سے محبت کی رمق پائی جاتی ہو؛ چنانچہ وہ آج کے موجودہ ا تحاد کو غنیمت سمجھ رہے ہیں۔ تاریخ کی کہانیوں سے سبق تراشنے والے یہ دانشور اگر اپنے ہی مفکرین کی لکھی کتابوں کو غور سے پڑھ لیتے تو شاید اس روش پر نہ چلتے۔ ول ڈیورانٹ انہی کا ہم نوا دانشور اور مفکر تھا۔ اس کی کتاب ’ہیر وز آف ہسٹری‘ اٹھائیں، وہ پوری انسانی تاریخ کا نچوڑ چند فقروں میں بتاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب بھی کسی حکمران نے لوگوں کی معاشرتی اخلاقیات، سماجی چال ڈھال ا ور مذہبی خیالات کے برعکس زبردستی آزاد خیال، روشن خیال اور مصنوعی اخلاقیات نافذ کرنے کی کوشش کی تو وہ ملک لٹھ ماروں اور مسلح جدوجہد کرنے والوں کی آما جگاہ بن گیا اور پورا معاشرہ شدت کے ساتھ مذہبی ہو گیا۔ وہ اس ضمن میں روم کے بادشاہوں اور انگلینڈ کی ملکہ الز بتھ دوئم کی مثال دیتا ہے۔ میرے ملک میں بھی یہی ہوا۔ 2007ء کی جولائی میں جامعہ حفصہ کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے جنم لیا۔ ملک میں خود کش حملے ہونے لگے۔ یہ سمجھتے تھے کہ آواز دبا دی گئی، لیکن اقدار کے تحفظ اور انتقام نے مل کر وہ کھیل کھیلا کہ پناہ ملنا مشکل ہو گئی۔ معلوم نہیں کون انہیں سمجھاتا ہے کہ قائد مار دو تو کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ ایک عام سی سوچ کا آدمی بھی سمجھتا ہے کہ پھر انتقام جوانوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ اکبر بگٹی کو ختم کرنے کے بعد یہ سمجھتے تھے معاملہ ختم ہو جائے گا۔ نواب اکبر بگٹی جو بلوچوں میں سب سے متنازعہ شخص تھا، اس کی موت بلوچ علیحدہ پسند قیادت کے لیے ایک تحفہ بن گئی۔ آپ نے علیحدگی پسندوں کے ہاتھ میں لاش کا پرچم دے دیا۔ یہی کچھ نیک محمد اور پھر بیت اللہ محسود کے ساتھ ہوا۔ اس کے بعد حکیم اللہ محسود آیا تو اس نے امریکی سی آئی اے کو تاریخ ساز نقصان پہنچایا۔ سی آئی اے نے جب سے اپنا آپریشن شروع کیا ہے اس کے نوے افراد مارے گئے جن کو سی آئی اے ہیڈ کوارٹر میں داخلی لابی کے سامنے کی دیوار پر ستاروں کے ساتھ مزین کیا گیا ہے۔ ان نوے ستاروں میں بارہ وہ ہیں جو حکیم اللہ محسود کے ہاتھ سے مارے گئے۔ امریکہ اور ہمارے یہ دانشور اب بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ کمر ٹوٹ گئی‘ لیکن انہیں ایک دفعہ ول ڈیورانٹ دوبارہ پڑھ لینا چاہیے۔ انہوں نے خون گرمانے، جوش پیدا کرنے اور آرزو جوان رکھنے کے لیے طالبان کو ایک اور ’’شہید‘‘ تحفے میں دے دیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved