تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     06-11-2013

سیاسی جماعتوں کی اہمیت

مقامی سطح پر سیاسی جماعتوں کی عدم موجودگی کو پوری دنیا میں جمہوری قدروں کے فروغ کے منافی سمجھا جاتا ہے کیونکہ جمہوریت عوام میںہی جڑیں رکھتی ہے اور اگر عوامی سطح پر سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کا موقع نہ ملے تو جمہوری روایات کو استحکام نصیب نہیںہوگا۔ تمام دنیا، خاص طور پر مغربی ممالک میں سیاسی جماعتیں عوامی سطح پر ہونے والی سیاسی فعالیت سے ہی نشوونما پا کر پروان چڑھی ہیں۔اب وہ تمام دنیا میںجدید جمہوری سیاست کی روح ِ رواں کا درجہ رکھتی ہیں۔ ہماری تاریخ میں سیاسی جماعتوں کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، ان کے قائدین کی کردار کشی کی گئی ہے اور اُنہیں مختلف بہانوں سے انتخابی عمل سے دور رکھا گیا ہے۔ہمارے ہاں فوجی آمروں نے غیر جماعتی انتخابات کا بھی تجربہ کیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں جمہوریت کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ یہ ہے کہ انتخابی عمل میں شخصیت پرستی کی بجائے سیاسی جماعت اور اس کے نظریات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ووٹ دیے جائیں۔ ہمارا زرعی، ذات پات کے نظام پر مبنی معاشرہ اور قبائلی ڈھانچہ ہمیں جماعتوں کی بجائے ایسی شخصیات، جنہیں سماج میں حیثیت حاصل ہو، کے ساتھ وابستہ ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ ہماری نمائندگی کرنے اور سماجی اثر رکھنے کی وجہ سے اپنے علاقے کا طاقت کا مہرہ بن جاتا ہے۔ کچھ افراد اور خاندان نوآبادیاتی نظام سے لے کر آج تک سیاسی طاقت رکھتے ہیں۔ اب چاہے مارشل لا ء ہو یا جمہوری حکومتیں، ایسی شخصیات ہی سیاسی منظر نامے پر ابھرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جماعتی نظام کمزور رہا ہے۔ہمارے ملک میں فوجی آمروں نے بھی سیاسی جماعتوں کو جان بوجھ کر پنپنے کا موقع نہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج آزادی کے چھیاسٹھ سال بعد بھی ہم حقیقی جمہوری قدروں سے دور ہیں۔ دراصل شخصیت کا اثر مقامی سطح سے شروع ہوکر قومی سطح تک جاتا ہے۔ اس نے سارے سیاسی نظام کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طاقتور شخصیات کی موجودگی میں سیاسی جماعتوں کو توانا کیسے کیا جاسکے کہ وہ مقامی اور قومی سطح پر سراٹھانے والے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کی سکت رکھتی ہوں؟ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو نچلی سطح سے فروغ پانے کا موقع دیا جائے۔ چنانچہ مقامی حکومتوںکے انتخابات کو سیاسی بنیادوں پر کرائے جانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہیںہوتا تو پھر صوبائی اور قومی سطح پر جمہوریت صرف ایک مذاق ہی ہوگا۔ اس مرتبہ ہونے والے مقامی حکومتوںکے انتخابات کو غیر سیاسی بنیادوں پر کرائے جانے کا منصوبہ بن چکا ہے۔ ہم اس سے پہلے بھی اپنی تاریخ میں ایسی حماقتوںکو دیکھتے رہے ہیں اور پھر اس کے منفی اثرات تمام جمہوری نظام پر مرتب ہوتے ہوئے بھی دیکھے ہیں۔ یقینا سیاسی جماعتوں کے بغیربھی افراد منتخب ہوکر حکومت بنا سکتے ہیں، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے افرادایوان میں موجود ایک ہجوم سے مختلف نہیںہوتے‘ ان کی سوچ میں ارتکاز اور کردار میں ڈسپلن کا فقدان ہوتا ہے کیونکہ وہ محض اپنے حسب نسب کے بل بوتے پر ووٹ لے کر آئے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایسے افراد سے جمہوری روایات کی پاسداری کی توقع عبث ہوتی ہے۔ ہمارے تلخ تجربات بتاتے ہیں کہ غیر جماعتی انتخابات دراصل افراد، نہ کہ پارٹی تصورات ، کو سامنے لاکر مہروں کی طرح استعمال کرنے کی سازش ہوتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں، چاہے وہ حکومت میںہوں یا اپوزیشن میں، خود جمہوری رویہ اپنانے سے گریزاں رہتی ہیں۔ وہ پارٹی میں انتخابات نہیںکراتیں ۔ زیادہ تر سیاسی جماعتیں ماضی یا حال کی کچھ شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ ان حالات میں سیاسی شعور کا فروغ ایک خواب کے سوا کچھ نہیں ہے۔شخصیت پرستی کے سحر کو توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی سطح پر عوام کو نمائندگی دی جائے اور ایسے کرتے ہوئے وہ اپنی شخصیت کی بجائے کسی سیاسی جماعت کی شناخت استعمال کریں۔ اس طرح لوگ ایک سیاسی جماعت، نہ کہ کچھ افراد، کو ووٹ دیں گے اور پھر وہ اس کی کارکردگی کی بنیاد پر اس کا محاسبہ کرسکیں گے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک طاقتور شخصیت ہر قسم کے محاسبے کے خوف سے آزاد ہوتی ہے۔ اگر ہم گراس روٹ لیول سے سیاسی نظام کی ابتداکریں تو سیاسی عمل میں ذات، برادری اور قبائلی وابستگی کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے۔ اگر ایسا نہیںہوتا ہے تو پھر سیاسی عمل ایک ہی چکر میں گرفتار رہے گا۔ یہ تاب وتوانائی حاصل نہیںکرسکے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved