تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     22-01-2025

امریکن عظمت کا خواب

ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد جو تقریر کی اسے سنتے ہوئے احساس ہوا کہ ہم انسان قدرت کی بنائی ہوئی ایک دلچسپ پروڈکٹ ہیں۔ اپنے بارے انسان ایسے ایسے گمان پال لیتا ہے کہ بعض اوقات حیرانی ہوتی ہے کہ انسان کس حد تک خود فریب ہو سکتا ہے۔ انسان کے بارے جتنا جانتے جائیں ہر دفعہ یہی لگتا ہے کہ ابھی بہت کم جان پائے ہیں۔
عرصہ ہوا ایک فلم دیکھی تھی‘ Lucy۔ یہ نئے تصور پر بنائی گئی فلم تھی۔ اس میں انسانی ذہن کی وسعتوں بارے مختلف تھیوریز بتائی گئی تھیں کہ انسان کا ذہن کس حد تک جا سکتا ہے اور کرشمے دکھا سکتا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ اس میں انسانی دماغ بارے جو سائنسی ڈیٹا شیئر کیا گیا تھا وہ کتنا مستند تھا اور کتنا فرضی یا تخیلاتی تھا لیکن جس انداز سے انسانی ذہن کو سکرین پر پیش کیا گیا تھا وہ کمال کا کام تھا۔ اس فلم کے مطابق اب تک انسانی ذہن صرف دس فیصد استعمال ہوا ہے۔ انسان کو اپنے ذہن کی بقیہ نوے فیصد کارستانیوں یا صلاحیتوں کا علم نہیں ہے۔ اب تک انسان سے زیادہ ذہنی صلاحیت جس نے استعمال کی ہے‘ وہ ڈولفن مچھلی ہے۔ اس فلم کے مطابق ڈولفن انسان سے زیادہ ذہین ہے۔ اب اندازہ کریں اگر انسان اپنے ذہن کا صرف دس فیصد حصہ استعمال کر کے ٹیکنالوجی اور ترقی کے اس معیار پر پہنچ گیا ہے تو باقی نوے فیصد میں کیا کچھ کر لے گا؟ یہ فکشنل فلم اس بقیہ نوے فیصد ذہنی صلاحیت کے بارے میں ہے۔ جب ایک لڑکی کی ذہنی صلاحیت پیٹ میں ایک ڈرگ کا پیکٹ پھٹ جانے کی وجہ سے ٹریگر ہو جاتی ہے‘ دس سے بیس اور تیس اور چالیس اور پھر سو فیصد تک جا پہنچتی ہے۔ اگرچہ ذہن کے اس دس فیصد استعمال کی تھیوری پر اعتراضات اور سوالات اٹھائے گئے لیکن فلم کو فلم کی طرح لینا چاہیے کہ وہ تفریح کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اکثر فلمیں انسانی خوابوں کو سامنے رکھ کر لکھی اور فلمائی جاتی ہیں۔ مطلب انسان جو دیکھنا‘ سوچنا یا بننا چاہتے ہیں ان خوابوں کو سکرین پر دکھایا جاتا ہے۔ اس فلم کی کامیابی کا اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ اس پر چار کروڑ ڈالرز کا خرچہ ہوا اور اس فلم نے باکس آفس پر گیارہ گنا سے بھی (46 کروڑ ڈالرز) کا بزنس کیا۔ میں خود یہ فلم دو تین دفعہ دیکھ چکا ہوں اور ہر دفعہ مجھے اس فلم نے انسانی ذہن کی وسعتوں بارے نئی آگاہی دی کہ ہم کہاں تک سوچ سکتے ہیں یا کہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔ ہماری ذہنی حدود کہاں تک ہیں اور انسان کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے۔
یہ فلم 2014ء میں بنائی گئی تھی‘ تب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا ہماری زندگیوں میں استعمال شروع نہیں ہوا تھا اور نہ عام لوگوں کو آگاہی تھی کہ یہ کس بلا کا نام ہے اور مستقبل میں یہ کیا کرتب دکھائے گی۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا تذکرہ ہم نے پچھلے سال میں زیادہ سننا شروع کیا جب اس کے فوائد اور نقصانات بارے باتیں ہونے لگیں کہ کیسے ایک انسان کی آواز میں وائس میسجز اس کے رشتہ داروں کو بھیجے جا سکتے ہیں اور انہیں پتا بھی نہ چلے کہ وہ اصلی ہیں یا مشین نے وہ وائس نوٹ ایجاد کیا ہے۔
چلیں وائس نوٹ کی بات سمجھ آتی ہے کہ آپ کی مختلف آوازوں کو ریکارڈ کرکے آپ کی اوریجنل کے قریب کی آواز پیدا کی جا سکتی ہے لیکن جب آپ کی جعلی وڈیو بھی اس ٹیکنالوجی سے بننا شروع ہو جائیں تو پھر آپ کیا کریں گے؟ اب تو ایسی ایپس بھی اس ٹیکنالوجی نے ایجاد کر دی ہیں کہ آپ ساکت تصویروں کو وڈیو میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اب وہ تصویر محض البم میں رکھی تصویر نہیں رہی بلکہ اسے چند لمحوں میں دوسری تصویر کے ساتھ وڈیو میں کنورٹ کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو کہیں سے بھی نہیں لگے گا کہ یہ ساکت تصویریں تھیں۔ وہ تصویریں اب ویڈیو کی شکل میں ایک دوسرے کے گلے بھی لگ سکتی ہیں‘ باتیں بھی کر سکتی ہیں‘ ہاتھ تھام سکتی ہیں‘ ایک دوسرے کو بوسہ بھی دے سکتی ہیں اور ہر قسم کی حرکت ہو سکتی ہے‘ جو بھی آپ ان سے کرانا چاہیں۔ اور یہ ذہن میں رکھیں کہ ابھی یہ اس ٹیکنالوجی کی شروعات ہے۔ ابھی یہ ٹیسٹ اور ٹرائل کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پچھلے دس برسوں میں جتنی سائنسی ترقی ہوئی ہے وہ شاید پچھلے دس ہزار سال میں بھی نہیں ہوئی ہو گی۔
خیر بات انسانی ذہن سے شروع ہوئی تھی کہ یہ کیا عجیب چیز ہے اور انسان خود کو دیوتا سمجھنے لگ جاتا ہے۔ اس کا ذہن اس کی شخصیت کو فریم کرتا ہے۔ اسے لگتا ہے وہ دوسروں سے افضل اور برتر ہے۔ چلیں خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنا بھی شاید انسانی جبلتوں میں سے ایک ہے۔ اپنے بارے ایسا سمجھنا کہ قدرت نے اسے فارغ لمحات میں بیٹھ کر تخلیق کیا تھا اور اسے کسی اہم مقصد کے لیے اس دنیا میں بھیجا گیا تھا کیونکہ وہ دوسروں سے بہت بہتر اور مختلف ہے۔
یہ بات آپ نے زندگی میں کئی دفعہ سنی ہو گی کہ مجھے خدا نے فلاں جگہ حادثے سے بچا لیا‘ تو مطلب مجھ سے خدا کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ اگر انسان ایسا خود نہ بھی سوچ رہا ہو تو بھی قریبی خوشامدی اسے ہر لمحے یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ خدا اس سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ انسانوں کی آٹھ ارب کی آبادی میں سے اس سے ہی اکیلے وہ کام لینا مقصود ہے۔ یوں وہ بندہ خود کو یقین دلا دیتا ہے کہ واقعی خدا اس سے بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ اور بعض دفعہ اسے خود سمجھ نہیں آرہی ہوتی کہ وہ کون سا بڑا کام ہے جو خدا نے اس سے لینا ہے۔ حتیٰ کہ اس کے قریبی لوگ‘ جنہوں نے اسے بانس پر چڑھایا ہوتا ہے کہ وہ کسی بڑے مقصد کے لیے پیدا ہوا ہے یا اس کی جان بچنے کی وجہ وہ بڑا مقصد ہے جو اس نے پورا کرنا ہے‘ انہیں بھی اس بڑے مقصد کا علم نہیں ہوتا۔ بس وہ سب اس انسان کی انا کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی بڑا کام تو خدا نے لینا ہے۔ یوں اس انسان کی نرگسیت پسندی آسمان کو چھونے لگتی ہے۔
اس کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو آپ امریکی صدر ٹرمپ کی حلف لیتے وقت کی تقریر سن لیں۔ اس تقریر کو غور سے سنیں تو وہ خود کو امریکہ کی ڈھائی سو سالہ جمہوری تاریخ کا سب سے بڑا صدر سمجھ رہا تھا۔ ابراہم لنکن اور جارج واشنگٹن تک اس کے سامنے کچھ نہیں۔ خدا نے دو قاتلانہ حملوں میں اگر جان بچائی اور پھر وہ دوسری دفعہ چار سال کے وقفے سے صدر بنا تو اس سے وہ کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ اب یہ وہ مِتھ ہے جس پر عام انسان فوراً ایمان لے آتا ہے کہ واقعی دیکھو یار گولی کان چھو کر گزر گئی۔ ماتھے پر بھی لگ سکتی تھی۔ اگر خدا نے بچا لیا تو مطلب واقعی کوئی بڑا کام لینا ہے اور یوں بڑی تعداد میں لوگ ایسے بندے کو مافوق الفطرت سمجھ لیتے ہیں۔ اس غیرمعمولی بندے کو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ یا تو وہ جس مذہب کا پیروکار ہے اسے Revive کر کے عظیم بنائے گا یا پھر اپنے ملک اور قوم کو عظیم تر بنائے گا۔
آپ انسانی تاریخ پڑھ لیں اکثر لوگ جنہوں نے انسانوں پر حکمرانی کی انہوں نے مذہب‘ قوم اور وطن کی برتری اور عظمت کا جھنڈا اٹھایا۔ مذہب اور وطن وہ دو چیزیں ہیں جن کے لیے عام انسان اپنی جان دینے پر تُل جاتا ہے اور جنہوں نے عوام پر حکمرانی کرنی ہو وہ ہمیشہ مذہب اور وطن کی عظمت کا نعرہ لگاتے ہیں اور کبھی مایوس بھی نہیں ہوتے۔ یقین نہیں آتا تو ٹرمپ کو دیکھ لیں جس نے پوری امریکی قوم کو عظیم بنانے کا نعرہ دے کر دو دفعہ صدارت جیت لی۔ امریکیوں نے ایک دفعہ بھی نہیں پوچھا کہ پہلے ہم کب عظمت کے مینار سے نیچے آ گئے تھے کہ دوبارہ اوپر چڑھنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ لیکن وہی بات کہ عام انسانی ذہن کو جو چیز اپیل کرتی ہے وہ دوسروں سے اعلیٰ‘ برتر‘ منفرد اور عظیم ہونے کا خبط ہے اور پھر ان عام انسانوں میں جو زیادہ ذہین اور چالاک ہوتے ہیں وہ انہیں عظمت کا خواب دکھا کر ان پر ہی حاکم بن بیٹھتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved