تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     27-01-2025

بلاسود قرضے‘ قانون سازی اور ایف بی آر

وزیراعلی پنجاب آج کل کافی متحرک دکھائی دے رہی ہیں۔ پنجاب کے وسائل دیگر صوبوں سے زیادہ ہیں یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے تقریباً تمام وزرائے اعلیٰ دیگر صوبوں کی نسبت بہتر کارکردگی دکھاتے رہے ہیں۔ شہباز شریف صاحب نے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران جو کامیابیاں سمیٹیں وہ ہر آنے والے وزیراعلیٰ کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔ شہباز شریف کے بعد اگر کسی نے پنجاب میں صحت‘ تعمیرات اور امن عامہ کے حوالے سے مثال قائم کی تو وہ محسن نقوی تھے۔ پرویز الٰہی کے دور میں بھی بہت کام ہوئے اور اب مریم نواز بھی کوشش کررہی ہیں۔ پنجاب میں پہلے دو سو یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والوں کو قسطوں پر سولر پینل دیے گئے اور اب کاروبار کیلئے دس لاکھ سے تین کروڑ روپے تک قرض دینے کی سکیم لانچ کی گئی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ منصوبہ ملکی معاشی ترقی میں کوئی مثبت کردار ادا کر سکے گا یا اس سے صرف سیاسی فائدہ ہی ہو گا؟ ماضی پہ نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ پاکستان بننے سے لے کر آج تک عوام کو دیے گئے قرضوں کے منصوبوں نے ملکی معاشی حالت نہیں بدلی۔ شہباز شریف جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو انہوں نے بھی بلاسود قرضوں کی سکیم کا اعلان کیا تھا۔ 2022ء میں بطور وزیراعظم بھی انہوں نے بلاسود قرضوں کا ایک منصوبہ شروع کیا۔ اس سے قبل 2009ء میں پیپلز پارٹی حکومت میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بلاسود قرضوں کی سکیم لانچ کی‘ 2014ء میں وزیراعظم نواز شریف نے بھی بلاسود قرض دیے‘ لیکن ان قرضوں سے ملکی معیشت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ جتنی سکیمیں ملک میں آسان قرضوں کی لانچ ہو چکی ہیں اب تک تو ملک میں معاشی انقلاب آ جانا چاہیے تھا لیکن ایسا ہے نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ قرضوں کا مقصد عوام کی مالی حالت بہتر کرنا نہیں بلکہ سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح کے قرضوں کی تقسیم بھی سیاسی مفادات کے تحت ہوتی ہے۔ میرٹ سے زیادہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی سفارشیں کام آتی ہیں۔ نوے کی دہائی میں نواز شریف نے پیلی ٹیکسی سکیم لانچ کی تھی جس میں مرسیڈیز بھی ٹیکسی کے طور پر دی گئی۔ ان مہنگی گاڑیوں کو کوڑیوں کے بھاؤ خرید کر بعد ازاں مہنگے داموں بیچا گیا۔ اس سکیم سے اصل فائدہ سیاستدانوں نے اٹھایا۔ قرض چونکہ سرکاری بینکوں کے ذریعے دیے جاتے ہیں اس لیے ان بینکوں سے قرض منظور کرانے کے لیے فائلوں کو ''پہیے‘‘ لگانے اور سفارش کا رجحان بہت پرانا ہے۔ خصوصی طور پر کاروبار کے نام پر جو قرض دیے جاتے ہیں ان کی تصدیق اور فائل مکمل کرنے کیلئے ملی بھگت کے معاملات عام ہیں۔ بڑے گروپس یا کاروبار جو قرض لیتے ہیں ان کی واپسی پر سوالیہ نشان رہتا ہے۔ ایسے قرضوں سے نہ تو ملک کو کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی چھوٹے یا درمیانے کاروبار بڑھتے ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں سرکاری بینکوں کی جانب سے صلاحیت یا ہنر کی بنیاد پر قرض دیے جانے کا نظام مؤثر نہیں ہے۔ اگر یہ کام نجی بینکوں کے سپرد کر دیا جائے اور انہیں اُن اصولوں کے مطابق قرض دینے کی سہولت دی جائے جو نجی بینکوں میں رائج ہیں تو حقداروں کو قرض ملنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ جن ممالک میں قرض سیاسی بنیادوں کے بجائے معاشی اصولوں کے تحت دیے جاتے ہیں وہاں چھوٹے کاروباروں کے ملٹی نیشنل کمپنیوں میں تبدیل ہونے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں لیکن پاکستان میں آج تک ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آ سکی کہ درمیانے درجے کا کاروبار کرنے والوں نے چھوٹے سرکاری قرضوں کی سکیم سے قومی یا بین الاقوامی سطح کی کوئی کامیاب کمپنی بنا لی ہو۔ ان حالات کے پیش نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب کی نئی قرض سکیم کے معاشی اثرات بھی ماضی کی قرض سکیموں کے اثرات سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گے‘ کیونکہ اس مرتبہ بھی پرانی سکیموں کو ہی نئے نام سے ری لانچ کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں اشرافیہ کے فائدے کیلئے قانون بنانے اور اسے تبدیل کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اب حکومت نے امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کنٹرول بل 2023 میں بڑی تبدیلی کر دی ہے‘ جس کے مطابق کابینہ کے کچھ اختیارات وزیر تجارت کو سونپ دیے گئے ہیں۔ اب وزیر تجارت کابینہ کی منظوری کے بغیر ہی ایسی اشیا کی درآمد یا برآمد کی اجازت دے سکتے ہیں جن پر پابندی ہو۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس قانون میں تبدیلی کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ ایسی کون سی اشیا ہیں جن کی درآمدات یا برآمدات کی منظوری کابینہ سے لینا دشوار ہے؟ کیا کسی مخصوص طبقے کو فائدہ پہنچانے کیلئے یہ قانون تبدیل کیا گیا ہے؟ اطلاعات ہیں کہ لگژری گاڑیاں منگوانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ درآمدات کے شعبے میں ایک ٹرانزیکشن سے ہی اربوں روپے کی ہیرا پھیرا کی جا سکتی ہے۔ سابق صدر عارف علوی کے سامنے جب یہ بل پیش ہوا تو انہوں نے یہ اعتراض لگا کر اسے مسترد کر دیا تھا کہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں‘ لیکن اب اس کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اپوزیشن سے گزارش ہے کہ وہ محض خان صاحب کی رہائی کے لیے بھاگ دوڑ نہ کرے بلکہ ایسے متنازع قوانین کا معاملہ بھی اٹھائے۔ اپوزیشن کو حکومتی وزرا پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کا مینڈیٹ ملتا ہے۔ اب تو پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ بھی اپوزیشن کو مل گئی ہے‘ لہٰذا حکومت پر کڑی نظر رکھی جائے تاکہ کوئی وزیر اختیارات کا غلط استعمال نہ کر سکے۔
دوسری جانب حکومت وزرا اور اپنے اتحادیوں کیلئے ڈویلپمنٹ فنڈز جاری کرنے میں تیزی دکھا رہی ہے۔ جولائی تا مارچ 2025ء تک تقریباً 29 ارب روپے کے فنڈز جاری کیے جا سکتے تھے مگر جنوری میں ہی 48 ارب روپے سے زائد کے فنڈ جاری کیے جا چکے ہیں۔ اپوزیشن بھی شاید ایسے ایشوز پر آواز اٹھانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ غالباً وہ عوامی پیسے کی حفاظت کو اپنا فرض نہیں سمجھتی۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت جو کچھ کر رہی ہے اس میں اپوزیشن کی رضامندی شامل ہے۔ اپوزیشن نے حکومت کے ساتھ ہاتھ ملا کر اپنی تنخواہیں 200 فیصد تک بڑھا لی ہیں۔ اگرچہ پارلیمنٹ کے بیشتر ممبر امیر ترین طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک ایک حلقے کے الیکشن پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں‘ سوال یہ ہے کہ چند لاکھ روپے تنخواہ بڑھانے سے ان کو کیا ملے گا؟ اگر اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کے بجائے اسی رقم سے غریب طبقے کو ریلیف فراہم کر دیا جاتا تو ان کی زندگیوں پر بہت بڑا فرق پڑ سکتا تھا۔
چند روز قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ایف بی آر افسران کیلئے گاڑیوں کی خریداری ٹیکس اہداف پورے ہونے سے مشروط کرنے کی ہدایت کی تھی مگر چیئرمین ایف بی آر نے اعتراض کے باوجود گاڑیاں خریدنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایک طرف ایف بی آر ٹیکس اہداف حاصل نہیں کر پا رہا تو دوسری جانب حکومت کی اتحادی جماعتیں ایف بی آر کی جانب سے نان فائلرز پر لگائی گئی پابندیوں پر اعتراضات اٹھا رہی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ہر فیصلے یا پالیسی کے نتائج فوراً سامنے نہیں آتے۔ اگر کوئی پالیسی بنائی گئی ہے تو اس سے مثبت نتائج حاصل کرنے کیلئے اس پر کچھ عرصہ تک قائم رہنا ضروری ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس نے ایف بی آر کو متنبہ کیا ہے کہ کالا دھن رکھنے والوں پر زیادہ پابندیاں لگانے سے منی لانڈرنگ میں اضافہ ہو سکتا ہے مگر حکومت نے یہ تجاویز ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ جب بھی کالا دھن رکھنے والوں کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگتا ہے تو قانون سازوں کے دلوں میں کالا دھن رکھنے والوں کیلئے ہمدردیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ یہی رویہ معیشت کو دستاویزی بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ایف بی آر پر دباؤ بڑھانے کے بجائے پیسہ ہنڈی کے ذریعے باہر لے جانے والوں پر شکنجہ کسنے پر زور دینا چاہیے۔ قانون سازی کا فائدہ اسی وقت ہو گا جب کالا دھن باہر لے جانے والوں کا راستہ روکا جائے گا۔ اگر انہیں نہ روکا گیا تو چاہے کتنے ہی قانون بنا لیں‘ کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved