رسولِ رحمتﷺ کے سچے وعدے: حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو فاتح ایران ہونے کے ساتھ اور بھی کئی اعزاز حاصل تھے۔ احد کے میدان میں جب آنحضورﷺ کا دفاع کرتے ہوئے آپؓ دشمن پر تیر چلا رہے تھے تو رسول کریمﷺ نے فرمایا تھا: ''اے سعد! دشمن پر تیر چلاتے جائو‘ میرے ماں باپ تم پر قربان‘‘۔ تمام صحابہ حضرت سعدؓ پر ہمیشہ رشک کیا کرتے تھے۔ اب اپنی فوج کی مسلسل کامیابیوں سے یقینا انہیں بے انتہا مسرت ہوتی۔ آنحضورﷺ کا دور اور آپﷺ کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات وواقعات بھی یاد آتے‘ بالخصوص مکہ میں اپنی بیماری کے دوران آنحضورﷺ کے ارشادات تو مسلسل یاد آتے۔ آپﷺ نے اس موقع پر فرمایا تھا: ''اے سعد! اللہ ایک قوم کو تمہارے ذریعے سربلند فرمائے گا اور ایک قوم کو ذلیل ورسوا کر دے گا‘‘۔
فرعون کی تباہی کا جو نقشہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں پیش فرمایا‘ اس دور کے فرعون کسریٰ کے اوپر وہ پوری طرح منطبق ہو رہا تھا۔ آپؓ نے سورۃ الدخان کی یہ آیات بار بار پڑھیں: ''کتنے ہی باغ اور چشمے اور کھیت اور شان دار محل تھے جو وہ چھوڑ گئے۔ کتنے ہی عیش کے سروسامان‘ جن میں وہ مزے کر رہے تھے‘ ان کے پیچھے رہ گئے۔ یہ ہوا ان کا انجام اور ہم نے دوسروں کو ان چیزوں کا وارث بنا دیا۔ پھر نہ آسمان ان پر رویا اور نہ زمین اور ذرا سی مہلت بھی ان کو نہ دی گئی۔ (الدخان: 25 تا 29)
کثرت مال و زَر: بہرہ شیر اور مدائن سے اتنی دولت ملی کہ اس کی مجموعی مالیت ایک ارب دینار سے زیادہ تھی۔ دینار سونے کا بہت قیمتی سکہ تھا۔ گویا یہ دولت مدینہ کی اسلامی ریاست کو مکمل فلاحی ریاست بنانے کے لیے کافی تھی۔ حضرت سعدؓ نے بیت المال کا پانچواں حصہ الگ کرکے باقی دولت مجاہدین اور شہدا (کے خاندانوں) میں تقسیم کر دی۔ یہ مجاہدین معاشرے کے متمول ترین اور مخیر لوگوں میں شامل ہو گئے۔ اس مالِ غنیمت میں دیگر سامان کے علاوہ شاہی محل میں سجائے گئے سونے کے گھوڑے اور ان کے سوار‘ ان پر لگے ہوئے قیمتی ہیرے اور جواہرات‘ سنہری اونٹ اور ان کے سوار‘ سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کے بھرے ہوئے صندوق بھی تھے۔ کسریٰ کی مرصع تلواریں‘ زرہیں‘ خود اور دیگر سامانِ حرب وضرب‘ ملکہ اور شہزادیوں کے قیمتی لباس اور چادریں بھی‘ جن پر ہیرے جواہرات سے مرصع کشیدہ کاری کی گئی تھی‘ مسلمانوں کے قبضے میں آگئیں۔ حضرت سعدؓ نے سونے سے بنے تمام جانوروں اور انسانی مجسموں کو توڑنے کا حکم دیا۔ ان مجسموں کو توڑا گیا تو ان کے اندر سے بھی قیمتی ہیرے‘ زمرد اور جواہرات برآمد ہوئے۔ مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ کئی سو اونٹوں پر لاد کر مدینہ بھیجا گیا۔
بے مثال دیانت وامانت: کمال کی بات یہ ہے کہ مجاہدین اور مالِ غنیمت لے جانے والے کارکنان میں سے قیمتی سے قیمتی چیز بھی کسی نے آگے پیچھے نہیں کی اور اگر سوئی بھی کسی کو ملی تو اس نے لا کر مالِ غنیمت کے ڈھیر پر رکھ دی۔ مالِ غنیمت میں کسریٰ کے سونے کے گنگن بھی تھے‘ جن کے بارے میں حضور اکرمﷺ نے سفر ہجرت کے دوران پیش گوئی فرماتے ہوئے سراقہ بن مالکؓ سے کہا تھا کہ تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ کے سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ سچ ہے: ''وہ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتے‘ یہ تو ایک وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے‘‘ (النجم: 3 تا 4)
تشکر کے آنسو: اب تک مدینہ میں آنے والے اموالِ غنیمت میں کسریٰ کا خزانہ سب سے بڑی دولت تھی۔ حضرت سعدؓ نے اس سارے مال ومتاع کی فہرست بھی دربارِ خلافت میں بھیجی تھی۔ جب بیت المال کے ذمہ داران نے سامان چیک کیا تو ایک چیز کی بھی کمی بیشی نہ تھی، حتیٰ کہ سوئی تک برآمد ہوئی۔ جب حضرت عمر فاروقؓ اور ان کی مجلس شوریٰ کو یہ رپورٹ دی گئی تو امیر المومنینؓ کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آگئے۔ صحابہ نے عرض کیا: امیرالمومنین! یہ خوشی کا موقع ہے‘ آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں آ گئے۔ آپؓ نے فرمایا: میرے بھائیو تم جانتے ہو کہ ہم کیسے لوگ تھے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہمارا بڑے سے بڑا آدمی بھی بے ضمیر ہو جایا کرتا تھا۔ اب اتنا لمبا سفر اور اتنے معمولی کارندے‘ اتنی قیمتی اشیا اور دولت‘ مگر کسی نے ایک سوئی بھی آگے پیچھے نہیں کی۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: امیر المومنین! حکمران اپنی رعایا کے اوپر ایک چھت کی مانند ہوتا ہے۔ چھت صاف ستھری ہو تو پرنالہ صاف پانی نیچے لاتا ہے۔ چھت گندی ہو تو بارش کا نازل ہونے والا ستھرا پانی بھی گدلا ہو جاتا ہے۔ پرنالہ چھت کے مطابق نتائج دیتا ہے۔ امیر المومنین! حکمران اگر منصف اور دیانت دار ہو تو اس کی رعایا اور کارندے بددیانتی نہیں کر سکتے۔ آپ جیسے حکمران کی حکومت میں کوئی بھی بددیانتی کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ یہ تھا صحابہ کرام کا مقامِ دیانت وامانت اور باہمی تعلق اور اعتماد!
آج ہمارے مسلم معاشرے میں جو کرپشن پھیلی ہوئی ہے‘ اس میں اوپر سے لے کر نیچے تک سب ملوث ہیں۔ اگر حکام بددیانت نہ ہوں تو نیچے کے عملے اور کارندوں کو کرپشن سے باز رکھا جا سکتا ہے۔ جب حاکم اس حمام میں ننگے ہوں تو گویا چھت گندی ہے اور چھت گندی ہو گی تو ہر پرنالہ نیچے گندا پانی لائے گا۔ اسلام نے جو عدل وانصاف کا نظام قائم کیا‘ وہ آج غیر مسلم ممالک میں کسی حد تک اختیار کر لیا گیا ہے مگر بدقسمتی سے اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں اس کا نام ونشان نہیں ملتا۔ اس پر ہر شخص کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ حضرت علیؓ کے ہر قول میں حکمت کے قیمتی موتی ملتے ہیں۔ آپؓ کا مندرجہ بالا قول تاریخ انسانی کا زریں باب کہلا سکتا ہے۔
حضرت عمرؓ نے ملکہ ایران کی قیمتی چادر دیکھی تو پوچھا کہ یہ کس کو دی جائے؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ آپؓ اپنی بیٹی یا اہلیہ کو دے دیں۔ آپؓ نے فرمایا: ان میں سے کسی کا بھی اس پر حق نہیں ہے۔ پھر فرمایا کہ آئو یہ اس خاتون کی خدمت میں پیش کریں جو اس کی حق دار ہے۔ اس کے بعد آپؓ صحابہ کے ساتھ حضرت امِ عمارہؓ کے گھر گئے اور یہ چادر ان کی خدمت میں پیش کی۔ اس موقع پر آپؓ کی آنکھوں میں آنسو تھے اور دیگر صحابہ بھی اشک بار تھے۔ آپؓ نے فرمایا: اے ام عمارہ! میدان اُحد میں آپ نے رسول اللہﷺ کی حفاظت اور دفاع کے لیے جو عظیم کارنامے سر انجام دیے وہ فراموش نہیں کیے جا سکتے۔ آج میں نے بہت سوچا کہ دنیا کی قیمتی ترین چادر کس خاتون کی خدمت میں پیش کروں تو سوائے آپ کے میرے ذہن میں کوئی نام نہیں آیا۔ آپ ہی اس کی مستحق ہیں اور میں بصد ادب یہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ یہ ہے عدلِ فاروقی!
مزید فتوحات: حضرت سعدؓ نے مدائن کی فتح کے بعد آس پاس کے تمام شہروں اور علاقوں پر فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیے۔ مدائن کی فتح کے بعد کہیں بھی بہت بڑی مزاحمت ہونے کا امکان ختم ہو گیا تھا۔ بہت تھوڑے عرصے میں فارس کے مشہور شہروں جلولا‘ تکریت‘ موصل‘ ہیت‘ الانبار اور ماسبذان کے علاقے فتح ہو گئے۔ ان میں سے بعض شہر اب عراق میں واقع ہیں۔ حلوان جو آج کل ترکیہ میں واقع ہے‘ اس وقت سلطنت فارس کا حصہ تھا۔ یہیں پر یزدگرد اپنے اہلِ وعیال کے ساتھ مقیم ہوا تھا۔ جب اسے اطلاع ملی کہ اسلامی فوجیں اس طرف آ رہی ہیں تو وہ وہاں سے بھاگ کر خوزستان کی طرف‘ خاقان کے پاس جانا چاہتا تھا‘ مگر وہاں جانے سے پہلے ہی کسمپرسی کی حالت میں راستے میں قتل ہو گیا۔ اب پورے ایران اور ترکستان وکردستان کے بیشتر علاقوں پر اسلامی سلطنت کا جھنڈا لہرانے لگا تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved