اسلامی کیلنڈر کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔اس مہینے کی پہلی تاریخ ہمیں ایک ایسی عظیم ہستی کی یاد دلاتی ہے جن کے بارے میں حضرت اسماء اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنھما نے ناطق وحی حضرت محمد مصطفیﷺ کا قول نقل کیاہے: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا‘‘۔ آپ ﷺکے اس فرمان نے حضرت عمرؓ کے مقام ،اوصاف اور کمالات کو واضح فرمادیا۔ حضرت عمرؓ اس دور میں مسلمان ہوئے جب اسلام کو آ پ جیسے مردِ مجاہد کی ضرورت تھی ۔رسول اللہ ﷺ جب کفار کے مظالم اور مسلمانوں کی بے بسی کو دیکھتے تو آپ کا دل مغموم ہوجاتا ۔حضرت عبد اللہ بن مسعود ،حضرت انس بن مالک اور حضرت ابو بکررضی اللہ عنھم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی کہ اے اللہ ! اسلام کو عمر بن خطاب یا عمر و بن ہشام کے ذریعے تقویت دے ۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی دعا کو عمر بن خطاب کے حق میں قبول فرمالیا ۔آپ کے اسلام قبول کرنے سے اسلام کو تقویت حاصل ہوئی اور اسلام کے مخالفین کے اعصاب کمزور ہوئے ۔ امام طبرانی ؒنے حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ سے نقل کیا ہے کہ جب تک حضرت عمرؓ مسلمان نہیں ہوئے مسلمان چھپ چھپ کر نمازاداکرتے تھے ۔آپ کے قبول اسلام کے بعد پہلی مرتبہ مسلمانوں نے اعلانیہ بیت اللہ میں نمازادا کی۔حضرت عمرؓ قبول اسلام کے بعد نبی کریم ﷺ کے قریب ترین رفقاء میں شامل ہوگئے اور آپ کی آرزو ہوا کرتی کہ زیادہ سے زیادہ وقت رسو ل اللہ ﷺ کی خدمت میں گزاریں۔حضرت عمرؓمکہ مکرمہ میں مصائب ومشکلات کا سامنا کرنے والے مسلمانوں کے لیے مضبوط ڈھارس تھے ۔ جس سال حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنھا اور جناب ابو طالب کا انتقا ل ہوا تواس سا ل کونبی کریم ﷺ نے غم کا سال قراردیا لیکن اس حال میں بھی اللہ کی توحید کی علمبرداری کا فریضہ بطریق احسن انجام دیتے رہے۔آپ اللہ کی توحید کے پیغام کو لے کر طائف کی وادی میں گئے ۔رئوسائے طائف کے حکم پر طائف کے بازاری لڑکو ںنے نبی کریم ﷺ کو پتھروں کا نشانہ بنایا ۔آپ کاوجود اطہر کافروں کے پتھروں سے لہو رنگ ہوگیا ۔ جبریل امین پہاڑوںکے فرشتوں کے ہمراہ آئے اور عرض کی کہ اگر آپ حکم دیں تو طائف کی وادی کو دو پہاڑوں میں پیس کر رکھ دیا جائے ۔نبی کریم ﷺ نے بارگاہ رب العٰلمین میںعرض کی کہ اے اللہ ! میر ی قوم کے لوگوںکو ہدایت دے، یہ مجھے پہچانتے نہیں ۔حضرت رسول اللہ ﷺ گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنھا کی جدائی کا غم دو چند ہوگیا ۔ آج آپ کی دل جوئی کرنے والی غم خوار اور مونس بیوی موجود نہ تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے آپ کو سفر معراج پر بلالیا ۔ معراج کا سفر نبی کریم ﷺ کے ماد ی اور روحانی عروج کا سفر ہے جس میںآپﷺ نے بہت سی غیر معمولی چیزوں کا مشاہدہ کیا۔آپﷺ کو جنت او ر دوزخ بھی دکھائی گئی۔جنت میںآپ ﷺکو ایک خوب صورت محل نظر آیاجس کے بارے میں آپﷺ کو بتایا گیا کہ یہ قریش کے ایک نوجوان کا محل ہے، آپ نے اس نوجوان کا نام پوچھا تو آپﷺ کو بتایا گیا کہ یہ حضرت عمرؓ کا محل ہے ۔سفر معراج جہاں آپﷺ کی زندگی کا تاریخی اور مقدس باب ہے وہیں حضر ت عمرؓکے محل کا ذکر بھی شمع رسالت کے پروانے کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ جب کفار نے سر زمین مکہ کو مسلمانوں کے لیے تنگ کردیا تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ ہجرت کرنے کی اجازت دی۔حضرت عمرؓنے بھی ہجرت کی ۔ مکہ کے لوگوں نے جو حسد،تعصب،بغض اور عناد کی آگ میںجھلس رہے تھے،سرزمین مدینہ میں بھی مسلمانوں کا تعاقب کیا اورکئی جنگیں ان پر مسلط کیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان تما م جارحانہ اقدامات کا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ہمراہ بھر پور مقابلہ کیا ۔حضرت عمرؓ تمام غزوات میں حضر ت رسول ﷺ کے ساتھ شریک رہے ۔آپؓ ہر وقت فرمان رسول ﷺ پر لبیک کہنے کے لیے آمادہ و تیار رہتے ۔اگر کوئی شخص کسی وجہ سے دربار ِرسالت مآب کے آداب ملحوظ نہ رکھتا تو سیدنا عمرؓ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوجاتا ۔اگر آپ کا بس چلتا تواس پرانتہائی ردّ عمل کا اظہار کرنے کے لیے بھی تیار ہوجاتے ۔ حضرت عمرؓ کی نبی کریم ﷺ کے ساتھ دیرینہ اور والہانہ وابستگی کے اظہار کا یہ بھی ایک انداز تھا کہ آپ نے اپنی دختر محترم کو نبی پاک ﷺ کے حرم میں داخل فرمادیا اور آپ ہمیشہ اپنی عزیزبیٹی کو نبی کریم ﷺ کی خدمت کی تلقین کرتے تھے ۔ حضر ت عمرؓکو نبی کریم ﷺ سے والہانہ محبت تھی۔ایک دفعہ آپؓ نبی کریم ﷺکے حجرہ مبارک میںداخل ہوئے تو آپ کے مقدس بدن مبارک پر چٹائی کے نشانات دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے اور کہا کہ قیصر و کسریٰ کے پاس دنیا کا کتنا سازوسامان ہے مگر کائنات کے امام علیہ الصلوٰۃ والسلا م کتنی سادہ زندگی بسر کررہے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے حضرت عمرؓکی کیفیت دیکھ کران کو تسلی دی اور فرمایا کہ ان کے لیے دنیا کا سازوسامان ہے اور ہمارے لیے اخروی نعمتیں ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کی وفات کی خبر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے لیے بہت بڑا سانحہ تھا ۔ صحابہ آپ ﷺ کی جدائی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے؛ چنانچہ جب آپﷺ نے رحلت فرمائی تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جس نے کہا نبی کریم ﷺ رخصت ہوگئے ہیں تو میں اس کا سر اُڑا دوں گا ۔حضرت ابوبکرؓ کی پُراثر تقریر کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو تسلی ہوئی اور انہیں یقین حاصل ہوا کہ واقعی آپﷺ اپنے پروردگار کے پاس جا چکے ہیں ۔ حضرت رسو ل اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد حضرت عمرؓ حضرت ابوبکرؓ کے مشیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے۔ حضرت ابوبکرؓ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے خلافت کی ذمہ داریاں حضر ت عمرؓ کے سپر د کردیں جس پر بعض صحابہ نے آپ کی سخت گیری کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا توحضرت ابو بکرؓ نے کہا :جب مسلمانوں کی ذمہ داریوں کا بوجھ ان کے کاندھوں پر پڑے گا تو خودبخود نرم دل ہو جائیںگے؛چنانچہ جب خلافت کی ذمہ داری آپ کے کاندھو ں پر ڈالی گئی تو آپ نے رعایا کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد بنالیا ۔رعایا کی خبر گیر ی کے لیے گشت فرماتے،مستحق شہری کابیت المال سے وظیفہ مقرر فرماکر دنیا کو فلاحی ریاست کے تصور سے روشناس کیا۔اللہ کے دین کے لیے پیش قدمی کی توکسریٰ کے آتش کدے کو بجھا دیا ،قیصر کی ہیبت و حشمت کو خاک میں ملادیااوردنیا پر شریعت کا بول بالا فرمادیا ۔نبی کریمﷺ نے حیات مبارکہ میں خواب دیکھا تھا کہ جناب عمرؓ اسلام کے کھیت کو اچھی طرح سیراب کریں گے ۔ آپ نے اپنے اندازِسیاست سے رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کو پورا فرما دیا ۔حضرت عمرؓ شہادت کے طلبگا ر تھے اور مدینہ میں رہتے ہوئے بظاہر ایسا ممکن نہ تھا لیکن اللہ نے آپ کی خواہش کو پورا فرمادیا۔نما ز میں فیروز ابو لؤلؤ نامی مجوسی نے کاری وار کیاجس سے حضرت عمرؓجانبر نہ ہوسکے۔زخمی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے قریب دفن ہونے کی تمنا تھی جس کو ام المومنین حضر ت عائشہ رضی اللہ عنھانے قبول فرمالیا۔علم وحکمت اورسیاست کا یہ گوہرنایاب قیامت تک رسول اللہ ﷺ کی ہمراہی میں محو خواب ہوگیا۔حضرت عمرؓمسلمانوں کو خودداری،غیرت اور سادگی سے حکومت کرنے کا وہ فن سکھاگئے کہ اگر اس سے رہنمائی حاصل کی جائے توقیامت تک اہل اسلام کوکوئی مغلوب نہیںکرسکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved