بچپن میں ہوش سنبھالا تو اُسے سفید لباس میں ایک مخصوص طرز کی پگڑی اور گلے میں رنگین کپڑے کے تعویذوں کو لٹکائے اپنے گھر آتے جاتے دیکھا کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ وہ تین تعویذ حجم میں بڑے ہوتے گئے کہ اس پر چڑھائے گئے کپڑے کو بھی مبارک خیال کرتے تھے۔ یہ وہ تعویذ تھے جو خواجہ غلام فرید کی اولاد میں سے ان کے پیر نے انہیں عنایت کیے تھے۔ چڑھی تہہ بوسیدہ ہو جاتی تو نئی اس پر لپیٹ کر سی لیتے۔ ان بڑے تعویذوں کے ساتھ جہاں بھی جاتے وہ نمایاں نظر آتے‘ مگر وہ ہر لحاظ سے ایک منفرد درویش تھے۔ شاید ہی زندگی میں ایسا کوئی شخص ابھی تک دیکھا ہو اور کئی سال کی رفاقت کسی سے رہی ہو۔ اوائل میں اُن کا نام معلوم نہیں تھا۔ میری والدہ محترمہ اور والد بزرگوار انہیں ''استاد‘‘ کہہ کر پکارتے اور وسیع تر علاقے کے دیگر لوگوں میں وہ استاد شریفن کے نام سے جانے جاتے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کا نام شریف محمد تھا۔ استاد اس لیے کہ اپنے علاقے میں روزانہ دور دراز جنگلوں میں آبادیوں اور چھوٹے چھوٹے دیہات میں جا کر بچوں اور بڑوں کو کلام پاک پڑھایا کرتے تھے۔ ہمارے بزرگ ان کے شاگردوں میں سے تھے۔ اس زمانے میں شاید ہی کوئی ایسی برادری ہو یا گائوں‘ جہاں استاد شریفن کے شاگرد نہ ہوں‘ ان میں مرد اور خواتین دونوں شامل تھے۔ جس محبت اور خلوص سے وہ گھروں میں جا کر درس دیتے اس سے پہلے یا بعد میں کوئی ایسا شخص میں نے نہیں دیکھا۔ کئی دفعہ خیال آیا کہ آج کل کی نسل سے اپنے آبائی علاقے میں نئے لوگوں سے کبھی پوچھیں کہ آپ استاد شریفن کے بارے میں جانتے ہیں‘ مگر یہ سوچ کر ارادہ ترک کر دیا کہ آج کے نفسا نفسی کے دور اور مادیت پرستی کے رش میں ایسے درویشوں کو کس نے یاد رکھا ہے۔ کئی انسانوں کی طرح جنہیں میں مختلف ملکوں میں ملا اور جو ایک گہرا تاثر چھوڑ گئے‘ استاد شریفن کا تصور بھی ان کی طرح اپنی یادداشت میں اکثر ابھرتا رہتا ہے۔
انہوں نے کبھی شادی کی اور نہ کنبہ پالا۔ اوائل جوانی میں تصوف اور درویشی کی راہ پر چل نکل اور کوٹ مٹھن کے خواجگان کے حلقہ بگوش ہوئے۔ بعد میں معلوم ہو کہ اپنا ایک بھائی تھا جو حافظ قرآن اور آبائی مدرسے میں معلم تھے لیکن استاد کبھی ان کے پاس نہ رہے۔ وہ کسی جگہ ٹکتے نہیں تھے‘ مگر یہ بھی ہوا کہ کسی شاگرد کے پاس کئی کئی ماہ یا کئی سال ایک جھونپڑی بنا کر ٹھکانہ بنا لیا۔ ہر سال ربیع الاول میں اپنے شاگردوں سے چندہ اکٹھا کرکے ہمارے تب کے گائو ں سے ایک آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر‘ جہاں ان کا اکثر جھونپڑی میں قیام ہوتا‘ ایک واعظانہ مجلس کا اہتمام ہوتا اور گڑ والے چاول حاضرین میں تقسیم ہوتے۔ پچپن میں وعظ کرنے والے ایک حافظ کا نام نقشہ تو یاد ہے کہ وہ نابینا تھے مگر ان کی تقریر کے بجائے ہمارا دھیان میٹھے چاول کی دیگ کی طرف ہوتا تھا۔ جنگلوں میں اتنے دور افتادہ علاقے میں شادی بیاہ اور خیرات کی دیگیں اور دیہاتی میلوں کی رونقیں ابھی تک اپنی یادوں میں خوشبو کی طرف کبھی کبھار مہک اٹھتی ہیں۔ استاد شریفن ہر جمعہ کی صبح اپنی جھونپڑی سے نکلتے اور تقریباً پچیس کلومیٹر پیدل سفر طے کرکے دربار خواجہ غلام فرید پر نماز پڑھتے۔ رات وہیں بسر کرکے اگلے دن شاگردوں کے کسی گائوں میں چلے جاتے۔
ہم نقل مکانی کر کے کہیں اور چلے گئے اور استاد شریفن بھی دربار کے لنگر اور اس کے انتظامی امور کے لیے مستقل طور وہیں رہائش پذیر ہو گئے۔ کئی سالوں تک وہ لنگر تیار کرنے اور بانٹنے کی حد اور اس کے ساتھ جڑے انتظامی امور تک محدود ہو گئے۔ دن کے وقت زیادہ تر دربار پر رہتے اور دیوانِ فرید کی شرح بیان کرتے اور درویشوں اور بزرگوں کے حالاتِ زندگی سناتے‘ اور تصوف کی روشنی اپنے حلقۂ درویشاں میں پھیلاتے۔ ابھی ایوب خان کا زمانہ نہیں آیا تھا اور محکمہ اوقاف کا کوئی وجود نہیں تھا۔ دربار‘ ان کی آمدنی اور وسائل خواجگان خاندان کے تصرف میں تھے اور انہوں نے ہی لنگر کا انتظام استاد شریفن کے سپرد کیا ہوا تھا۔ محکمہ اوقاف نے چند سال بعد درباروں کا کنٹرول سنبھالا تو پرانے درویشوں کو مزارات کی انتظامیہ سے دستبردار کر دیا گیا اور نوکر شاہی نے انتظام سنبھال لیا۔ یہ وہ سال تھے جب میں ساتویں یا آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ استاد صاحب خود بھی ضعیف ہو چکے تھے مگر صحت مند اور چاق وچوبند تھے اور روزانہ کئی دیہات کا چکر پیدل لگاتے اور اپنے پرانے شاگردوں سے ملتے۔ شام کو ہمارے گھر واپس آ جاتے جو اَب اُن کا مستقل ٹھکانہ ہو چکا تھا۔ ہماری والدہ محترمہ اُن کے کھانے کا انتظام کرتیں‘ کپڑے دھوتیں اور ہر طرح کا خیال رکھتیں۔ میں اُن کے قریب ہی رہتا تھا اور مجھے جب فارغ دیکھتے تو کچھ روحانیت کی باتیں کرتے۔ دیوان فرید‘ جو انہوں نے تقریباً حفظ کیا ہوا تھا‘ میں سے کافیوں کے چیدہ چیدہ اشعار پڑھتے اور خواجہ صاحب کے پیغام کے اَسرار ورموز مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے۔ میں اُن کا ایک طرح کا چیلا بن گیا تھا۔ ان کی باتیں غور سے سنتا‘ کافی کا کوئی بند سمجھ نہ بھی آتا تو سر ہلاتا رہتا اور وہ ایک عجیب سی وارفتگی اور سرشاری کے عالم میں شعر پڑھتے‘ مگر زبان سے کہیں زیادہ اُن کے بازو اور جسم حرکت کرتے‘ آنکھیں کھلی ہوتیں اور بعض اوقات مستی کے عالم میں کھڑے ہو جاتے۔ گھر سے باہر بازار میں چلے جاتے اور دن کا ایک حصہ وہاں گزارتے۔ کسی سے کوئی بات نہ کرتے‘ بازار میں کاغذ کا کوئی ٹکرا نظر آتا تو اٹھاتے‘ آنکھوں سے لگاتے اور ہر ٹکرے کو شام کو گھر لا کر بحفاظت کہیں رکھ دیتے۔ لوگ ان کی حرکت پر ہنستے اور کوئی پوچھ لیتا کہ اخباروں کے بوسیدے ٹکرے کیوں چنتے رہتے ہو تو کہتے کہ آپ کو کیا پتا‘ کہیں ان پر اسمِ محمدؐ لکھا ہوا ہو۔
آٹھویں کے بعد ہائی سکول کے لیے گھر چھوڑنا پڑا۔ کہیں دور چلا گیا تو ہماری اُن سے قربت کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ کبھی واپس آتا تو ہم دونوں کی مجلس شروع ہو جاتی اور کافی عرصہ تک قائم رہتی۔ رات کو اُٹھ کر نماز پڑھتے تھے۔ رات کو کبھی انہیں کھانا کھاتے نہ دیکھا۔ شاید کبھی کبھار کھا بھی لیتے مگر زیادہ تر صرف دودھ پیتے اور رات کو کئی بار اُٹھ کر گھونٹ گھونٹ پینے کا سلسلہ جاری رہتا۔ صبح ہوتے ہی ہماری اماں تازہ روٹی‘ تازہ مکھن کے ساتھ استاد کی خدمت میں پیش کرتیں۔ کچھ دودھ کے گھونٹ لیتے‘ اور پھر سارا دن بازار میں کاغذ کے ٹکرے اکٹھے کرتے رہتے۔ آخری دم تک ہمارے گھر رہے‘ اور یہ اعزاز ہمیں ہی ملا کہ اُس درویش نے آخری سانس ہماری چار دیواری کے اندر ہی پورا کیا۔ میں تعلیم کے سلسلے میں کہیں دور تھا‘ اُن کا آخری دیدار نہ کر سکا۔ بعد میں یہ سُن کر مجھے عجیب لگا کہ جونہی ان کی روح قفسِ عنصری سے رخصت ہوئی‘ ان کی میت اُن کے رشتے دار لینے کے لیے آ گئے اور ایک پرانے قبرستان میں دفنا دیا۔ کچھ کتابیں انہوں نے مجھے پڑھنے کی تاکید کی تھی۔ ملائوں سے ان کو بیر تھا۔ نماز ان کی اقتدا میں پڑھنے کے بجائے گھر پر ہی پڑھنا بہتر سمجھتے تھے۔ ہر وقت تسبیح پڑھتے اور دین کے علاوہ انہیں کبھی کوئی اور بات کرتے نہ سنا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved