تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     05-02-2025

کُجھ شہر دے لوک وی ظالم سن … (3)

سوشل میڈیا اب اپنی طاقت دکھا رہا تھا۔ اُس وقت کی عسکری قیادت‘ جس کو 2016ء میں مدتِ ملازمت میں توسیع چاہیے تھی‘ وہ بھی ایکٹو ہو چکی تھی۔ keyboard warriors بھرتی کیے جا رہے تھے جنہیں جواب دینے کیلئے وزیراعظم ہاؤس سے بھی سوشل میڈیا استعمال ہو رہا تھا۔ جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم ہاؤس کے درمیان ڈان لیکس کے ایشو پر سخت اختلافات شروع ہو چکے تھے۔ وہ لوگ جو وزیراعظم ہاؤس اور مقتدرہ کے قریب تھے ان کا ماننا تھا کہ دونوں کے درمیان جو غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں اس کی وجہ وزیراعظم ہاؤس کا سوشل میڈیا سیل ہے۔ مقتدر حلقوں کو شکایت تھی کہ وزیراعظم ہاؤس میں قائم سوشل میڈیا سیل ان کو ذاتی طور پر نشانہ بنا رہا ہے۔ کچھ فون کالز بھی ٹریس ہوئیں جن میں جنرل راحیل شریف کا ایک نِک نیم بھی رکھا ہوا تھا۔ وزیراعظم ہاؤس کے مکین سمجھتے تھے کہ عمران خان کے اسلام آباد دھرنے کے پیچھے بھی کچھ جنرلز تھے جنہیں جنرل راحیل شریف کی اشیرباد حاصل تھی۔ اس لیے ڈی چوک دھرنے کے دوران وزیراعظم کے خلاف جو گالی گلوچ ہوتی رہی وہ اس کا ذمہ دار جرنیلوں کو سمجھتے تھے۔
کچھ جنرلز کی فون کالز بھی ٹیپ کی گئیں جو وزیراعظم کو دی گئیں۔ اس وقت کے وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے بی بی سی کو انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ عمران خان کے دھرنے کے پیچھے کچھ فوجی افسران ہیں جس کی اُن کے پاس ریکارڈنگ موجود ہے۔ اس انٹرویو پر شدید ردِعمل آیا اور مشاہد اللہ‘ جو بیرونِ ملک دورے پر تھے‘ ان سے وہیں سے استعفیٰ لیا گیا۔ مشاہد اللہ سے جان بوجھ کر یہ بیان دلوایا گیا تاکہ اُن افسران کو علم ہو کہ سب کچھ حکومت کے علم میں ہے۔ جب اس پرردِعمل آیا تو مشاہد اللہ خان کو کہا گیا کہ استعفیٰ دے دیں‘ آپ کو کچھ عرصہ بعد دوبارہ وزیر بنا دیں گے۔
اس دوران جب ڈان لیکس آئیں تو جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم ہاؤس کی سوشل میڈیا ٹیم کے درمیان لڑائی عروج پر پہنچ گئی۔ سوشل میڈیا نیا محاذ بن چکا تھا۔ اس جنگ میں نوجوان ریکروٹ کیے جارہے تھے جنہیں پیسے مل رہے تھے۔دوسری جانب عمران خان اور عسکری قیادت کی سوشل میڈیا ٹیم نے وزیراعظم ہاؤس کو ٹارگٹ کیا اور وزیراعظم ہاؤس کے سوشل میڈیا سیل نے جوابی حملہ کیا ۔ یوں سوشل میڈیا پر جنگ لڑی جا رہی تھی۔ اس موقع پر یہ سوچا گیا کہ سوشل میڈیا پر حکومت‘ مریم نواز اور نواز شریف کے خلاف جو کمپین چل رہی ہے اس کا حل سوشل میڈیا ٹیموں کی علاوہ قانون سازی بھی ہے۔ یوں پہلی دفعہ ایف آئی اے کو سائبر لاز کے تحت اختیارات دینے کا فیصلہ ہوا اور پھر پیکا قانون کا ڈرافٹ تیار کیا گیا۔ اس قانون کے تحت جیل اور جرمانے کی سزائیں رکھی گئیں۔ یہ قانون پہلی دفعہ آ رہا تھا جس نے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا تھا‘ عمران خان کی جماعت نے احتجاج شروع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قوانین ان کے پارٹی ورکرز کو نشانہ بنانے کیلئے لائے جا رہے ہیں۔ مریم نواز اس معاملے میں یکسو تھیں کہ سوشل میڈیا پر جو حکومت اور ان کے خاندان کے بارے لکھا اور بولا جارہا ہے اس کا حل یہی ہے کہ ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ یوں یہ ڈرافٹ بل کابینہ سے منظور کرا کے پارلیمنٹ بھیجا گیا ‘وہاں جس آئی ٹی کمیٹی نے اس کی منظوری دی اس کے چیئرمین کیپٹن (ر) صفدر تھے۔ یوں اس بل کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا جو اَب نئے بل کے ساتھ کیا گیا۔ میڈیا ہاؤسز‘ سول سوسائٹی اور اپوزیشن شور کرتے رہ گئے کہ اس پر نظر ثانی کریں‘ عدالتی نظام کو بہتر بنا کر ہتکِ عزت کے تحت عدالتوں میں جلدی فیصلے کرائیں‘ دنیا بھر کے دیگر ملکوں میں ایسے قوانین نہیں ہیں تو پاکستان میں کیوں؟ اس اقدام کو آزادیٔ اظہارِ رائے پر حملہ قرار دیا گیا۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر پی ٹی آئی نے دباؤ بڑھایا تاکہ یہ قانون پاس نہ ہو سکے۔ شام کو میڈیا اور ٹی وی شوز پر بھی اس قانون کے خلاف پروگرام ہونا شروع ہو گئے۔ احتجاج بڑھتا گیا لیکن حکومت نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ وہ اس ایشو پر لچک نہیں دکھائے گی اور یہ قانون بن کر رہے گا۔ بالآخر تمام مخالفت کے باوجود قانون بن گیا۔ عمران خان کو فکر لاحق ہو گئی کہ یہ قانون ان کی سوشل ٹیمز اور حامیوں کے خلاف استعمال ہو گا جنہیں نیا نیا سوشل میڈیا کی آزادی کا چسکا لگا تھا۔ جو چاہتے‘ پوسٹ کر سکتے تھے۔ اب انہیں کسی ٹی وی رپورٹر یا اخبار کی ضرورت نہ تھی جہاں وہ اپنا فیڈ بیک دینے کے محتاج تھے۔ اب وہ فیس بک یا ٹویٹر پر ایک اکاؤنٹ بنا کر اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتے تھے۔ بات بھڑاس نکالنے کی حد تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا لیکن یہاں بات سیاسی مخالفوں کے خلاف غلیظ قسم کے ٹرینڈز چلانے تک پہنچ گئی تھی۔ ایک عام آدمی جس کا کبھی سپاہی کو دیکھ کر سانس سوکھ جاتا تھااب اس نے ملک کے وزیراعظم‘ وزرا‘ بیوروکریٹس اور صحافیوں کو کھلے عام گالیاں دینا شروع کر دیں۔ اسے ایسی آزادی کبھی نہ ملی تھی کہ وہ ٹویٹر پر وزیراعظم یا دیگر طاقتور لوگوں کو گالیاں دے اور ان کی فوٹو شاپ تصویروں پر انہیں ٹیگ کرے یا ان کے خلاف ٹرینڈز چلائے۔ مریم نواز کی ایف آئی اے کے ذریعے سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کی یہ کوششیں ناکام ہو رہی تھیں۔ انہوں نے اس دوران سوشل میڈیا ورکرز کنونشن بھی منعقد کرایا تاکہ اپنی حمایت میں سوشل میڈیا نوجوان اکٹھے کر سکیں جو عمران خان اور مقتدرہ کے تیار کردہ کی بورڈ واریئرز کا مقابلہ کریں‘ لیکن مریم نواز اور ان کا سیل بہت لیٹ ہو چکا تھا۔ انہیں بہت دیر بعد احساس ہوا کہ یہ غیر روایتی فورم ان کی حکومت اور سیاست کو لے ڈوبے گا۔ اس فورم پر انہوں نے زیادہ سرمایہ کاری بھی نہیں کی تھی۔مریم نواز کے کیمپ میں جو لوگ تھے وہ زیادہ تر سوشل میڈیا سے ناواقف تھے‘ لہٰذا جوابی حکمت عملی تیار نہیں کر سکتے تھے۔ اگر وہ کچھ جواب دیتے بھی تو خان کے حامی انہیں گالیاں دیتے۔ دھیرے دھیرے نواز شریف اور مریم نواز سوشل میڈیا جنگ ہارتے چلے گئے۔ وہ حکومت میں ہونے کی وجہ سے پہلے ہی Disadvantaged پوزیشن میں تھے ‘ اوپر سے بیڈ گورننس نے بیڑہ غرق کر دیا تھا۔ جو نقصان اب تک تیس چالیس برسوں کی سیاست اور سیاسی حریف شریف خاندان کو نہ پہنچا سکے تھے وہ سوشل میڈیا نے پہنچا دیا اور عمران خان اس کے ذریعے مقبول ہو کر پاور میں آ گئے۔
مریم نواز کو سوشل میڈیا اور سیاسی محاذ پر شکست ہو چکی تھی۔ وہ گری ضرور تھیں لیکن انہوں نے اب سوشل میڈیا کو سمجھ اور سیکھ لیا تھا۔ وہ بھی عمران خان کے ساتھ وہی سلوک کرنے کو تیار تھیں جو اُن کے ساتھ ہوا ۔ مریم نواز اور ان کے حامی سوشل میڈیا صارفین نے عمران خان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو خان صاحب کے حامی شریف خاندان کے ساتھ کر تے تھے۔ بشریٰ صاحبہ سے شادی کے بعد خان کے مخالفین کو نیا ٹارگٹ مل گیا۔ جو ذاتی حملے مریم نواز پر ہوتے تھے ‘ بشریٰ صاحبہ پر ہونے لگے ۔ سکور ایسے سیٹل ہوا کہ خان صاحب کی چیخیں نکل گئیں۔ ایک دن ناراض ہو کر اس وقت کے ڈی جی ایف ائی اے کو خان نے پندرہ لوگوں کی فہرست بھیجی جس میں چند اینکرز بھی تھے کہ ان کے خلاف سائبر کرائمز نہیں بلکہ دہشت گردی کے تحت پرچے دیں کیونکہ وہ بشریٰ بی بی کو سوشل میڈیا پر ٹارگٹ کر رہے تھے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے وہ نام پڑھے اور حیران ہوئے اور وزیراعظم سے مل کر معاملہ ڈسکس کرنے کا فیصلہ کیا مگر بات بہت بڑھ چکی تھی۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved