حجاب تو نہ تھا مگر شاید ہم لوگ ہی حجاب میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ سات اکتوبر2023ء سے چند ہفتے قبل بھارت میں دنیا کی بڑی معیشتوں کا ایک اجلاس ہوا تھا‘ جسے G20 کہا جاتا ہے۔ اس اجلاس کی اہم بات وہ اعلان تھا جس میں کہا گیا کہ دنیا کو تجارتی طور پر جوڑا جائے گا‘ ممبئی کو سمندر کے ذریعے دبئی سے ملایا جائے گا‘ وہاں سے ایک سڑک بنائی جائے گی جس کو اسرائیل سے گزار کر حائفہ شہر کی بندرگاہ سے ملایا جائے گا۔ یوں مشرقِ وسطیٰ کی تجارتی راہداری کے ایک سرے پر بھارت ہوگا کہ سمندر میں کیپسول بچھے گا‘ اس میں ٹرالے چلیں گے‘ وہ دبئی اور پھر وہاں سے اسرائیل تک جائیں گے یعنی اس کا آخری سرا اسرائیل ہوگا۔ اس طرح ہنود ویہود کی معاشی ترقی آسمان کو چھونے لگ جائے گی۔ اس کے لیے غزہ کی آبادی کو یہاں سے بھگانے کا پروگرام تھا۔ اس علاقے کو کھنڈر بنانا مقصود تھا تاکہ اس علاقے کو خالی کرا کے پھر یہاں دنیا کا خوبصورت ترین معاشی حب بنایا جائے۔ حماس کو اس منصوبے کی خبر تھی لہٰذا عشروں سے جاری جنگ تیز ترین ہو گئی۔ راقم نے 'دنیا اخبار‘ کے انہی صفحات پر تب مذکورہ سازش کو بے نقاب کیا تھا۔ اسرائیل اور امریکہ سمجھتے تھے اور بھارت کو بھی یقین تھا کہ دو‘ تین ہفتوں میں غزہ کا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ حماس جنگ بندی پر مجبور ہو کر ہتھیار ڈال دے گی اور اسی بہانے اسرائیل کو غزہ پر اپنی مرضی کا قبضہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔ ان کا خیال تھا کہ آتش و آہن اور برستے بارود کی ہولناکی 20 لاکھ اہلِ غزہ کو اردن اور مصر میں بھاگنے پر مجبور کر دے گی مگر یہ جنگ بڑھتی چلی گئی۔ شہری آبادی کے اندھا دھند قتل نے اسرائیل کو دنیا بھر میں بدنام‘ سفاک اور درندگی کا بے رحم ملک ثابت کردیا۔ اس پر نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے ایک کاغذ لہرایا اور دنیا بھر کو مشرق وسطیٰ کا نقشہ دکھایا کہ ہم درمیان سے سڑک نکال کر دنیا کو معاشی ترقی اور ''رحمت‘ ‘کی جانب لے جانا چاہتے ہیں مگر غزہ والے اس منصوبے کو روک کر ''لعنت‘‘ کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
نیتن یاہو نے جسے لعنت کہا‘ اگر وہ منصوبہ فلسطینیوں اور اہلِ غزہ کی خود مختار ریاست سے گزرتا‘ ان کی رضامندی سے گزرتا تو تب تو یہ رحمت ہوتا۔یہ منصوبہ قابلِ رحمت تب ہوتا جب سب کے لیے باعثِ رحمت ہوتا۔ نیتن یاہو کے لیے یہ حقیقتاً باعثِ لعنت تھا کہ اسے اہلِ غزہ کی لاشوں پر بنانے کا پروگرام تھا۔ حماس کی قربانیوں نے فی الوقت اس منصوبے کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا کیونکہ عارضی جنگ بندی میں جب قیدیوں کا تبادلہ ہوا تو لاکھوں فلسطینی واپس شمالی غزہ پہنچ گئے۔ گو کہ ان کے پاس رہنے کو ٹھکانہ اور سر چھپانے کو چھت نہیں ہے مگر وہ پھر بھی اپنا علاقہ چھوڑنے پر رضامند نہیں ہیں۔ حماس کی جانب سے اسرائیل کے چھوڑے گئے بیشتر قیدی فوجی تھے‘ جبکہ فلسطین کے لگ بھگ سبھی قیدی عام شہری تھے۔ دنیا نے دیکھا کہ فلسطینی قیدی اسرائیل کی جیلوں میں ظلم کے ستائے ہوئے تھے‘ ان کی داستانیں ہر آنکھ کو اشکبار کر رہی تھیں ان کی خستہ حالی ان پر ڈھائے گئے مظالم کو کھول کر بیان کر رہی تھی جبکہ اسرائیل کی فوجی خواتین صحت مند تھیں‘ اچھے پروٹوکول میں تھیں‘ وہ حماس کے لوگوں کی مہمان نوازی اور ان کے بلند اخلاقی رویوں کی تعریف کر رہی تھیں۔ ان مناظر نے اہلِ عالم کو بتا دیا کہ رحمت کے مناظر کہاں تھے اور وحشت کے مناظر کہاں تھے۔ قیدیوں کے رہائی کے وقت فلسطینی بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ مزید برآں! حماس کی اتھارٹی نے غزہ کے مختلف مقامات پر رہائی پوائنٹس بنائے۔ کوئی یحییٰ سنوار کے گھر کے سامنے تھا تو کوئی محمد ضیف کے گھر کے سامنے تھا اور کوئی اسماعیل ہنیہ کے گھر کے سامنے۔ ان گھروں کے مکین شہید ہو چکے ہیں یا زخمی ہیں۔ گھروں کے سربراہوں کے بڑے بڑے بینرز آویزاں تھے‘ جن پر ان کی تصاویر تھیں‘ ان بینرز پر فلسطین کی آزادی کے نعرے درج تھے۔ ان بینرز کے سامنے جب اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا گیا تو بہت سارے پیغامات دنیا تک پہنچا دیے گئے۔ پیغام یہ تھا کہ سارا غزہ کھنڈرات میں بدل گیا ہے۔ پیغام یہ تھا کہ حماس کے وردی پوش جوانوں کی نگرانی میں اسرائیلی قیدی رہا ہو رہے ہیں تو سوا سال کی جنگ کے بعد بھی مزاحمتی لوگوں کی کمی نہیں ہوئی۔ پیغام یہ تھا کہ غزہ پر اسرائیل کا دعویٰ غلط ہے۔ پیغام یہ تھا کہ قرآن کے پیغام کے مطابق یہ مقدس اور متبرک سرزمین ہے‘ اس کا کوئی نعم البدل نہیں لہٰذا ہم اپنی زمین نہیں چھوڑیں گے۔
ان پیغامات کے بعد نیتن یاہو کو فوراً وائٹ ہائوس بلایا گیا۔ صدر ٹرمپ نے صدارت کے بعد جس پہلے غیر ملکی سربراہ سے ملاقات کی وہ نیتن یاہو ہے۔ اس ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے محسوس کیا کہ اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ لہٰذا امریکہ کو اب کھل کر سامنے آنا پڑے گا۔ یوں اپنی تاریخ میں امریکہ جو ثالث بنا کرتا تھا‘ حقوقِ انسانی کا نقاب پہن رکھا تھا‘ امن کا حجاب چہرے پر لٹکا رکھا تھا‘ اس نقاب اور حجاب کو صدر ٹرمپ نے خود ہی اتار پھینکا۔ عالمی میڈیا کے سامنے واضح الفاظ میں کہا کہ امریکہ غزہ میں اپنی فوج اتار سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا کہ اسرائیل جن مقاصد کے لیے لڑ رہا تھا‘ وہ ہمارے مقاصد نہیں یعنی وہ کامیاب نہیں ہو سکا تو یہ کامیابی ہم حاصل کریں گے‘ اور کامرانی کی ٹرافی نیتن یاہو کی خدمت میں پیش کریں گے۔ قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں وہ ادارہ جو سالہا سال سے اہلِ فلسطین کے حقوق کی پاسبانی کرتا تھا‘ ان کی بہبود کے لیے ایک بڑی رقم خرچ کرتا تھا‘ مہاجرین کی آباد کاری کے لیے اہم کردار ادا کرتا تھا‘ صدر ٹرمپ نے اس ادارے کو بھی ختم کردیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے جو نقاب اتارے ہیں‘ اس اقدام سے عالمی امن کو زبردست نقصان ہوگا۔ صدر ٹرمپ تو عالمی سطح پر جنگیں بند کرانے آئے تھے‘ وہ امن والی دنیا بنانے کا نعرہ لے کر آئے تھے۔ اہلِ امریکہ کو انہوں نے پیغام دیا تھا کہ ہمارا پیسہ عالمی جنگوں پر خرچ ہو رہا ہے‘ امریکی لوگ اعلیٰ زندگی کی آسائشوں سے محروم کیے جا رہے ہیں‘ لہٰذا مجھے ووٹ دو‘ میں جنگیں بند کرائوں گا۔ امریکی عوام نے انہیں ووٹ دیے اور کامیاب کرایا۔ اب جناب ٹرمپ وائٹ ہائوس میں داخل ہو چکے۔ یو کرین کی جنگ جاری ہے۔ غزہ میں انہوں نے امریکی فوج بھیجنے کا عندیہ دیا ہے اور اگر یہ عندیہ اور اشارہ حقیقت بن کر سامنے آتا ہے تو اللہ نہ کرے‘ مشرقِ وسطیٰ ایک نئی جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آنا شروع ہو جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں امریکہ کو چین سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ چین جنگوں میں نہیں جاتا‘ کاروبار میں جاتا ہے۔ کاروبار کے لیے امن کا ماحول ناگزیر ہے۔ قرآنِ مجید نے ہم اہلِ اسلام سمیت پوری انسانیت کو سورۃ القریش میں پہلے ہی بتلا رکھا ہے کہ خوف سے امن ملے گا تو بہت سی معاشی راہداریاں چلیں گی‘ خوشحالیاں ملیں گی۔ یاد رہے! زمینی گلوب کے ماتھے پر لکھا ہوا صاف نظر آ رہا ہے کہ امریکہ کے حکمران جنگوں سے پیچھے ہٹ کر امن کی طرف نہ آئے‘ اہلِ امریکہ کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کی طرف نہ پلٹے‘ اہلِ فلسطین کو ان کا حق لوٹانے کی جانب نہ آئے‘ اہلِ کشمیر کو ان کا حق دلوائے بغیر بھارت کی سپورٹ سے رک نہ پائے توپُرامن انسانیت کے لیے یہ بڑا المیہ ہوگا۔ مہذب دنیا کے لیے ایک دھچکا ہوگا۔ میں اس سلوگن کے ساتھ اختتام کر رہا ہوں کہ ''پُرامن گلوب زندہ باد‘ خوشحال لوگ پائندہ باد‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved