تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     10-02-2025

منفرد علمی روایت

خیرات کے میٹھے چاولوں کا تو آپ نے سنا ہوگا۔ ان سے کسے انکار ہو سکتا ہے؟ اگر موقع ملے تو ہم درویش لوگ بھی مستفید ہونے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ اس وقت تو خیراتی کتابوں سے ابھی کچھ دیر پہلے فیضیاب ہونے کا موقع ملا ہے‘ جس کے بارے میں پہلے کبھی نہ تصور تھا اور نہ ہی مشاہدے میں ایسی کوئی جگہ تھی جہاں سے مفت میں کتابیں مل سکتی ہوں۔ کاش ہمارے ملک میں بھی ہم کچھ ایسا کر سکتے۔ برطانیہ کی بات ہی کچھ اور ہے‘ اور لندن تو دنیا کے شہروں‘ تہذیب کی رنگا رنگی اور گہری تاریخ اور علم کی دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ آج پہلی صبح اور دن کا آغاز ایک نواحی علاقے میں ہوا تو ہمارے میزبانوں نے قریب ہی ایک بازار میں کافی پینے اور کتابوں کی دکانوں میں کچھ وقت گزارنے کی تجویز چائے کے کپ کے ساتھ سامنے رکھی تو انکار کی کہاں گنجائش ہو سکتی تھی۔ ہم تو یہاں آئے ہی مغرب کی زندگی کے پرانے دنوں کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے ہیں۔ کافی اور کتابوں کی دکانیں اب ہرے بھرے‘ پھیلتے پھولتے ہمارے اپنے ملک میں کم تو نہیں‘ بس یوں سمجھیں کہ دنیا کے اس خطے اور سمندر پار نئی دنیا کے ایک بڑے اور دنیا کے طاقتور ترین ملک‘ جسے آپ امریکہ کہتے ہیں‘ کے ثقافتی اور علمی ماحول سے ہمارا رشتہ زندگی کے اُس حصے سے ہے جب انسان گہرا اثر قبول کرتا ہے۔ ہمارا یہاں آنا کبھی کبھار ہوتا ہے‘ بعض اوقات کئی سالوں بعد‘ اور ہر مرتبہ نیت بھی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ محدود وقت یہاں رہا جائے‘ تو ہم کتابوں کی دکانوں اور کتب خانوں میں دن کا کچھ حصہ گزارنے کو اولیت دیتے ہیں۔ باقی ہمارے کوئی اور کیا کام ہو سکتے ہیں۔
ارادہ یہ کرکے نکلا کہ مہاراجہ دلیپ سنگھ کے بارے میں سنا ہے کہ ایک تازہ کتاب چند سال پہلے شائع ہوئی ہے‘ اُسے تلاش کیا جائے۔ ابھی تک کچھ تھوڑا بہت مہاراجہ کے بارے میں ملا ہے‘ حاصل کیا ہے‘ مگر پنجاب کی المیائی تاریخ اور اس المیائی مہاراجہ کے بارے میں مزید پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ ''کوہ نور‘‘ میں ولیم ڈالرمپل اور انیتا آنند نے‘ اگرچہ ان کا فوکس اس ہیرے کی تاریخ سے ہے‘ دلیپ سنگھ کی زندگی کا مختصر تعارف کرایا ہے۔ کچھ سال پہلے ان کے بارے میں ہمارے سرحد پار کے اور سمندر پار بسنے والے پنجابیوں نے ایک فلم '' بلیک پرنس‘‘ بنائی تھی جس کے کچھ حصے دیکھے اورکچھ جذبات بھرے گانے سنے لیکن نہ جانے کیوں ان کی کہانی میں اتنی گہری دلچسپی ایک مدت سے رہی ہے۔ اس چھوٹے سے بازار میں پنجاب اور دلیپ سنگھ پر تو کچھ نہ ملا مگر ایک ایسا کتاب گھر دیکھنے کا موقع ملا جو ایک منفرد نوعیت کا ہے۔ میزبان نے گھر سے رخصت ہوتے وقت بتایا تھا کہ کوئی بھی کسی دن ایک وقت میں یہاں سے تین تک مفت کتابیں حاصل کر سکتا ہے۔ اگر آپ اپنا پورا کنبہ بھی لے جائیں تو آپ میں سے ہر ایک تین کتابیں منتظمین کو دکھا کر اور اجازت لے کر اپنے بیگ میں ڈال کر اپنی راہ لے سکتا ہے۔ جب ہم خیرات کے میٹھے چاولوں کو نہیں چھوڑ سکتے تو اس موقع کو ہم کیوں جانے دیتے۔ یہ کتاب گھر عین بازار کے وسط میں تھا اور دیگر دکانوں کی طرح کتابوں کی الماریوں سے سجا ہوا تھا۔ ہر صنف کی کتابیں الگ اور بہت سلیقے سے مختلف حصوں میں سجائی دکھائی دیں۔ چرچل کی لکھی چار جلدوں پر ''انگریز لوگوں کی تاریخ‘‘ کا پہلا والیم نظر آیا تو ہمارا ہاتھ نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر جا پڑا۔ رڈ یارڈ کپلنگ کا کلاسیکل ناول ''کِم‘‘ جو ہمارے چھوٹے سے کتب خانے میں تھا مگر کافی عرصہ سے نظر نہیں آیا‘ تو یہاں لٹریچر کی الماریوں میں دکھائی دیا۔ مگر ساتھ ہی خیال آیا کہ اپنا پرانا ایڈیشن ہی واپس جا کر تلاش کریں گے۔
کتابیں دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ یہ مفت کتابوں کا نظام کس طرح چلتا ہے؟ اس دنیا میں کسی سے بات کرنے کے لیے آداب کچھ اس طرح ہیں کہ پہلے ہم کہتے ہیں معاف کرنا اور پھر اگلی بات۔ ہم مہاراجہ رنجیت سنگھ کی طرح سوال پر سوال کرکے انگریزوں کو بوکھلاہٹ کا شکار کرنے یہاں ولایت نہیں آئے تھے۔ مگر ہمیں ایک دو سوالوں میں ہی جواب مل گیا۔ اور جو بات ہم اس دنیا کی کچھ روایات کے متعلق پہلے سے جانتے ہیں اس کی ایک اور گرہ ہمارے لیے کھل گئی۔ ظاہر ہے کہ کتابیں مفت مل رہی ہیں تو کوئی مفت اس کتاب گھر کو دے بھی رہا ہے۔ پوچھا کہ اوسطاً ہر روز‘ ہفتے‘ ہر مہینے کتنی کتابیں لوگ عطیے میں اس کتاب گھر کو دے جاتے ہیں؟ تو خاتون نے کہا کہ کچھ معلوم نہیں۔ ہم مہاراجہ رنجیت سنگھ تو نہیں ہو سکتے مگراس کی دھرتی سے تعلق ضرور ہے۔ کئی اور سوال داغے تو معلوم ہوا وہ خاتون بھی دیگر کارکنوں کی طرح تنخواہ نہیں لیتی‘ رضاکارانہ طور پر کام کرتی ہے۔ پھر خیال آیا کہ ظاہر ہے کہ اس علاقے سے ہے تو اس کی تاریخ کے بارے میں بھی کچھ معلوم کریں۔ معلوم تھا کہ چارلس ڈکنز‘ جس کا ناول ''میئر آف دی کاسٹر برج‘‘ جامعہ پنجاب میں پڑھا تھا‘ اس مضافاتی علاقے میں آوارہ گردی کرتے اکثر دیکھا جاتا تھا۔ خاتون نے یہ بتا کر مزید حیران کردیا کہ وہ یہاں رضا کارانہ طور پر کام کرنے بہت دور سے آتی ہے‘ اس لیے اسے اس بابت کچھ معلوم نہیں۔ اُسے یاد آیا کہ اس صبح کوئی شخص 150کتابیں عطیہ کرگیا ہے۔ اس طرح ہر روز لوگ کتابیں دے جاتے ہیں۔ وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ شاید دینے والے زیادہ ہیں‘ لینے والے کم مگر ہر روز بڑی تعداد میں لوگ اُدھر کا رخ کرتے ہیں۔ کوئی کتاب پسند آجائے تو لے بھی جاتے ہیں۔ ویسے تو بڑی تعداد میں کتابوں کو دیکھنا بذاتِ خود ایک طمانیت بخش تجربہ ہوتا ہے۔
ایسے مفت کتاب گھر اس ملک کے ہر شہر بلکہ چھوٹے قصبوں میں بھی موجود ہیں۔ کتب بینی اور کتاب خانوں کا ایک منفرد ثقافتی رنگ ہے۔ اپنے ملک کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا کہ ہم پہلے ہی بہت کچھ کہہ چکے ہیں اور کہتے بھی رہتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے بڑے شہروں میں کتابوں کی دکانوں میں اضافہ ہوا ہے‘ کتاب میلے بھی بہت اہتمام سے منعقد ہوتے ہیں اور پہلے سے کہیں زیادہ کتابیں لکھی اور پڑھی جارہی ہیں۔ پرانی کتابوں کی دکانوں سے ہماری کچھ زیادہ ہی دلچسپی ہے کہ جومحدود ذخیرہ ہے‘ وہ زیادہ تر وہیں سے ہی خریدکیا ہے اور ان میں ایسی کتب بھی شامل ہیں جو اَب برطانیہ اور امریکہ میں بھی شاید دستیاب نہ ہوں۔
شاید کبھی ہم بھی کوئی ایسا معاشرہ تشکیل دے پائیں جہاں ایک دوسرے کی قدر‘ عزت و احترام اور اعتماد اتنا ہو کہ ہم اپنے زائد از ضرورت کپڑے‘ جوتے‘ گھر کے برتن‘ فرنیچر اور کتابیں جو ہم پڑھ چکے اور جن کی اب ہمیں ضرورت نہیں‘ ایسے کتاب گھر اور خیراتی دکانیں بنا کر ان کے حوالے کریں تاکہ دوسرے‘ اور زیادہ ضرورت مند لوگ ان سے مستفید ہوں۔ یہاں جسے ہم مغربی دنیا کہتے ہیں‘ اس کا معاشرہ وہ نہیں جس کے بارے میں ہمارے ہاں اکثر طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں۔ یہاں کے حکمران طبقات‘ ریاستوں اور حکومتوں کی بات کچھ اور ہے‘ جس کے بظاہر اثرات ہم اپنی سامراجی غلامی اور آج کل جنگوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی فلاحی کاموں میں کسی سے کم نہیں۔ مگر اسے بہتر سمت‘ بہتر ترجیحات اور بہتر تنظیم کی ضرورت ہے‘ جس کا ہدف اعلیٰ معیار کے خیراتی تعلیمی اداروں‘ سائنس اور تحقیقاتی مراکز اور نئی نسل کو ٹیکنالوجی کی تربیت ہو۔ ضرورت کتب بینی کا شعار اپنانے اور اس شوق کو نئی نسل تک منتقل کرنے کی ہے۔ جب یہ ذوق پیدا ہوگا تو کتابیں بھی میسر آ جائیں گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved