پیٹرن بالکل ایک ہی ہے‘ توسیع پسندی کسی ریاست میں عوام کے خلاف ہو یا عالمی طاقت کے زیر دست اور کمزور خطوں میں۔ اگرمقامی مثال لیں تو لینڈ مافیا کی سٹریٹجی ہم سب کے سامنے ہے۔ کسی مین روڈ پر تھوڑی سی زمین خریدو اور پھر پرائیویٹ کمپنیوں کے گارڈ رکھ لو‘ ملکیت والی زمین کا انتقال کرواؤ‘ شاملات دیہہ‘ آبی گزرگاہیں‘ قبرستان‘ وقف املاک‘ مہاجرین کے رقبے پر بزورِ طاقت بلڈوزر چلاؤ اور قبضہ کرتے جاؤ۔ اپنے پٹواری بھرتی کرو‘ تحصیلدار خود کھنچے چلے آئیں گے۔ عوامی مفاد کے قانونی نام پر علاقوں کے علاقے کا لینڈ ایکیوزیشن کی دفعہ چار والا غیرقانونی نوٹیفکیشن کروا لو۔ نہ کوئی مقامی بچے گا نہ زرعی زمین باقی رہے گی اور نہ ہی کوئی رکاوٹ سامنے ٹھہرے گی۔ عملی طور پر غزہ کی صدر ٹرمپ والی مثال ہمارے لیے ہرگز اجنبی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ لینڈ مافیا کی بستیاں ایسی خوش بخت ہیں جہاں بجلی جاتی نہیں اور ان کے مقابلے میں ہماری بستیاں ایسی جنم جلی ہیں جہاں بجلی آتی نہیں۔ ہمارے 77سالہ قبضہ در قبضہ کے اس سفر میں دو قومی نظریہ کہیں دور پیچھے رہ گیا اور مشرقی پاکستان ٹوٹ جانے کے بعد مغرب کی جانب دو پاکستان بن گئے۔ ایک غربت کا جزیرہ ہے جبکہ دوسرا امیروں کا عشرت کدہ۔ غربت کی چکی میں عمر بھر پِسنے والے ماچس کی ڈبی سے لے کر قبر کی کھدائی تک ٹیکس بھرتے رہتے ہیں لیکن عشرت کدوں کے باسی آئی ایم ایف کے قرضوں اور غریبوں کے ٹیکسوں کو کھا جانے والے اس ناجائز دولت کی طاقت کا ڈسپلے کرتے نہیں تھک رہے۔
دوسری جانب نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ For Saleوالے بیان سے کچھ خوفناک حقائق کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ایسے حقائق جنہیں 57مسلم ریاستوں کے منیجرز کبوتروں کی ڈار کی طرح آنکھیں بند کرکے سمجھتے ہیں شِکرا شکار نہیں کرے گا۔ آئیے وہ اشارے شناخت کرنے کے لیے آنکھیں کھول کر دیکھیں جو صدر ٹرمپ کی غزہ بارے تقریر سے صاف نظر آرہے ہیں۔
ٹرمپ غزہ تقریر کا پہلا اشارہ: جو لوگ مشرقِ وسطیٰ کو ہلکی سی گہرائی میں بھی فالو کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ پچھلے اڑھائی سال سے نیتن یاہو کے ساتھ اسرائیلی حکومت میں شریکِ اقتدار پارٹیاں کھل کر مطالبہ کر رہی تھیں کہ غزہ کی پٹی کو تھرڈ پارٹی‘ یعنی امریکہ کے حوالے کر دیا جائے‘ جس کا سادہ مطلب یہ تھا کہ بین الاقوامی قانون میں درج سب سے بڑے عالمی جرم Ethnic cleansingکے ذریعے غزہ کے باسیوں کو مصر‘ اُردن اور عراق وغیرہ میں دھکیل دیا جائے تاکہ غزہ کے اصل مالکوں کی جگہ دنیا کا یہ خوبصورت ترین کوسٹل علاقہ اس خطے کی ری کنسٹرکشن اور ری ہیبلی ٹیشن کے نام پر امریکہ کے قبضے میں چلا جائے۔ عین اسی طرح کی ایک مثال ایشیا میں پہلے سے موجود ہے۔ یہ ہے ہزاروں جزیروں پر مشتمل ملک موریشیس کا جزیرہ ڈیگو گاریشیا ‘ جو بحرِ ہند کے وسط میں بھارت اور سری لنکا کے جنوبی ساحلوں سے ایک ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ 60کلومیٹر طویل اور آٹھ کلو میٹر عریض ڈیگو گاریشیا کا جزیرہ 16ویں صدی میں پرتگیزی جہاز رانوں نے دریافت کیا تھا۔ 18ویں صدی میں فرانسیسی استعمار نے اس پر قبضہ کیا۔ نپولینی جنگوں کے بعد 1814ء سے 1965ء تک یہ موریشیس کا حصہ تھا‘ جسے سیلف گورننس کالونی قرار دیا گیا۔ 1965ء میں تاجِ برطانیہ نے یہ جزیرہ تین ملین پاؤنڈ کے عوض خرید کر وہاں انگلش‘ امریکن مشترکہ ایئر بیس بنا لیا۔ اب ذرا باب المندب والے بین الاقوامی سمندروں میں امریکی اور مغربی جہازوں پر یمن کے حوثی حریت پسندوں کے ہاتھوں نہ رکنے والے حملے ذہن میں لائیں۔ آپ کو صاف پتا چلے گا کہ غزہ کی زمین کو خریدنے کا بیہودہ‘ غیر قانونی‘ غیرانسانی اور غیر تاریخی منصوبہ صرف اکیلے امریکہ کا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی غزہ ڈیگو گاریشیا نہیں‘ نہ ہی فلسطینی مسلمان تر نوالہ ہیں۔ مگر بدقسمتی سے مسلم حکمرانوں کی بڑی غالب اکثریت ذہنی طور پر مغرب سے مرعوب اور مغلوب ہے۔
ٹرمپ غزہ تقریر کا دوسرا اشارہ: یہ کس طرح ممکن ہے کہ بغیر کسی ماسٹر پلان کے نیتن یاہو کو ساری دنیا کا قیمتی ترین اسلحہ اور گولا بارود مفت میں غزہ پر برسانے کے لیے گفٹ کیا جائے۔ کل 41کلومیٹر لمبی‘ 12کلومیٹر چوڑی پٹی اور 141مربع میل پر مشتمل رقبے کے لیے مغرب کی بنیا صفت ریاستیں اربوں کھربوں ڈالر مفت میں لٹا دیں۔ غزہ کی پٹی کی اصل اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ غزہ بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل کے کنارے واقع ہے۔ بیت المقدس سے محض 78کلو میٹر کے فاصلے پر۔ غزہ کی پٹی اور ڈیگو گاریشیا کے محل وقوع کا موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ ڈیگو گاریشیا سمندری پانیوں کے ویرانے میں ہے جس کے مقابلے میں غزہ کی پٹی بلیک گولڈ رکھنے والے ممالک کے مرکز میں واقع ہے۔ اسی لیے امریکہ نے Abraham Accord (ابراہم معاہدہ)کے ذریعے دراصل مشرقِ وسطیٰ میں فال آف سلطنت عثمانیہ دوم کا نظریہ پیش کیا۔ جس طرح سلطنتِ عثمانیہ کو سیدھی ٹیڑھی لکیروں کے ذریعے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کیا گیا عین اسی طرح ابراہم معاہدہ ان ریاستوں کو ایک بار پھر توسیع پسندی کی آگ میں جھونکنا چاہتا ہے۔ مغربی استعمار نے مڈل ایسٹ میں پہلا پنجہ ملک اسرائیل کے آغاز کے ذریعے گاڑا تھا اب وہی طاقتیں دوسرا پنجہ ابراہم معاہدے کے ذریعے گاڑنا چاہ رہی ہیں۔
اسی دوران دو اہم واقعات اور ہوئے ہیں۔ پہلا نیتن یاہوکی تقریر‘ جس میں اس کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے پاس بہت بڑا رقبہ خالی پڑا ہے۔ سعودیہ اپنی سرزمین پر فلسطین قائم کر لے۔ دوسرا غزہ پر ٹرمپ کی تقریر کے خلاف عالمی احتجاج ہے جس میں اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری سمیت انٹرنیشنل لاء کے ادارے اس اعلان کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک بھی اس میں شامل ہیں۔ اقوامِ متحدہ بول پڑا لیکن رابطہ عالم اسلامی‘ عرب لیگ اور مسلم ممالک کی سربراہی کانفرنس خوابِ خرگوش میں ہے۔ ذرا تصور کریں اگر غزہ بِک گیا تو پھر بچے گا کون؟
ادھر بلاؤں پہ جو مسکرا سکے وہ آئے
جو تاج و تخت پہ ٹھوکر لگا سکے وہ آئے
جو آسمان کو نیچا دکھا سکے وہ آئے
جو اپنے آپ سے آنکھیں لڑاسکے وہ آئے
ردائے زر کا نہیں‘ جو کفن کا شیدا ہو
ادھر وہ آئے جو دارورسن کا شیدا ہو
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved