آج کل وزیراعظم نواز شریف خود کو ’’ پائے ماندن نہ جائے رفتن‘‘ والی صورت حال سے دوچار پاتے ہوں گے۔ ٹھیک ایک ہفتہ پہلے اُن کی حکومت کی طرف سے اعلان سامنے آیا کہ 2008ء سے لے کر ا ب تک ہونے والے 317 ڈرون حملوں میں2,227 افرادہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوںمیں صرف67 شہری، باقی دہشت گرد تھے۔ تیس اکتوبر کو نیویارک ٹائمز نے یہ کہانی شائع کی تھی:’’ اب سے پہلے پاکستان کا موقف تھا کہ ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں کی تعداد400کے قریب ہے لیکن موجودہ تبدیل شدہ بیان کے مطابق حکومت ِ پاکستان شہری ہلاکتوں پر سی آئی اے کی بتائی ہوئی تعداد کی تصدیق کررہی ہے‘‘۔ دو دن بعد یکم نومبرکو تحریکِ طالبان پاکستان کا امیر حکیم اﷲ محسود امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔ اس کے ساتھ ہی نواز شریف کے وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے دہائی دینا شروع کردی کہ مذاکرات (جو ابھی شروع نہیںہوئے تھے) کو سبو تاژ کر دیا گیا ہے اور یہ کہ اب پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرِ ثانی کرے گا۔ مذہبی اور سیاسی رہنمائوں کی بڑی تعداد نے طالبان کمانڈر، جس کے ہاتھ ہزاروں نہتے شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے جوانوںکے خون سے رنگے ہوئے تھے، کی موت کا سوگ منایا۔ امریکی سفیر کودفترخارجہ طلب کرکے احتجاجی مراسلہ دیا گیا؛ تاہم ٹائمز لکھتا ہے:’’ پاکستان کے سول اور دفاعی افسروں کے غصیلے بیانات ایک طرف،میڈیا میں شائع ہونے والی کچھ خبریں ظاہر کرتی ہیں کہ ماضی یا حال کے رہنماڈرون حملوں پر امریکہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں‘‘۔ جب بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد اقتداران کے شوہر کو ملا تو اس سے ایک طرح امریکیوں کو اس خطے میں اپنی پالیسیوں پر عمل کرنے کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی گئی تھی۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ اُنھوںنے سابق امریکی سفیر این پیٹرسن سے کہا تھا کہ زرداری حکومت کو ڈرون حملوں پر کوئی اعتراض نہیںہے۔ اگست 2008 ء کو بھیجے گئے ایک کیبل پیغام میں گیلانی صاحب کے حوالے سے کہا گیا:’’اگر وہ درست افراد (یعنی انتہا پسندوں) کو نشانہ بناتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، ہم قومی اسمبلی میں اس پر احتجاج کریں گے اور پھر بھول جائیںگے‘‘۔ تو کیا ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ اب بھی حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت پر مگر مچھ کے آنسو بہارہے ہیں؟نواز حکومت پہلے ہی 2008ء سے لے کر اب تک ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو400سے کم کرکے67 تک لے آئی ہے۔ نواز شریف کی امریکہ آمد سے پہلے ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اعلان کیا تھا کہ گزشتہ دو برسوںکے دوران ڈرون حملوں میں انتیس شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔اس پرامریکی میڈیا نے اس اعلان کو نمایاں جگہ دی اور کہا کہ شہری ہلاکتو ں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے امریکہ کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ اب ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے:’’ اب انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت پاکستان اس معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرے‘‘۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران نوازشریف نے عمران خان کے برعکس ڈرون حملوں پر محتاط انداز اختیار کیا تھا۔ اُنھوں نے یہ دھمکی نہیں دی تھی کہ وہ پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے ڈرون گرانے کا حکم دیں گے۔ اُنھوںنے ہمسایہ ریاستوں۔۔۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ مصالحت کی بات کی تھی، شاید اس لیے کہ اُ س وقت ان کی نظر اہم ترین منصب پر لگی ہوئی تھی۔ اُنھوں نے اپنے پتے احتیاط ، دانائی اور ہوشیاری سے کھیلے۔ اُس وقت جو بھی صاحب ان کے خارجہ امور کے مشیر تھے، داد کے مستحق ہیں۔ پاکستا ن کے لیے یہ بات خوش آئند تھی کہ اوباما، من موہن اور کرزئی نے انتخابی مہم کے دوران نواز شریف کے لیے نیک تمنائوں کا اظہارکیا تھا ۔امریکی صدر نے پاکستان کی حمایت جاری رکھنے اورتوانائی کے بحران سے نکلنے میں مدد دینے کا وعد ہ کیا۔ ادھر حکومت پاکستان کو سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کرے۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ قیادت اتنے مشکل معاملات کے لیے خود کو تیار نہیں پاتی۔ انتخابی مہم کے دوران دکھائی گئی دانائی کو کس کی نظر لگ گئی؟ دوسری طرف عمران خان کو کسی نے احمقانہ مشوروں سے نواز رکھا ہے۔۔۔ ایک تو وہ ہمیشہ غصے میں رہا کریں اور دوسرے یہ اپنے ہمسایوں اور امریکہ، جو ان کے نزدیک ہمیشہ پاکستان کے خلاف سازش کرتے ہیں، کے خلاف بیانات کے ڈرون داغتے رہیں۔ یہ بات حیران کن ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف میں آصف احمد علی، خورشید قصوری اور شاہ محمود قریشی جیسے سابق وزرائے خارجہ شامل ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ پارٹی کے انہی اہم رہنمائوں نے عمران خان کو مشورہ دے رکھا ہو کہ وہ ایسے بیانات تواتر سے دیتے رہا کریں جن سے پاکستان کے مفاد کو ٹھیس پہنچے؟ یا پھر عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو عالمی برادری خصوصاً امریکہ کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ اپنے وسائل سے اپنا معاشی بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ یا پھر پاکستان صنعت اور ٹیکنالوجی میں باقی دنیا سے اتنا آگے ہے کہ تمام دنیا اس سے رہنمائی لیتی ہے۔ یا پھر پاکستان فوجی طور پر اتنا طاقتور ہے کہ اس کی پیشانی شکن آلود ہوتے ہی دنیا سہم جاتی ہے۔ ویسے خان صاحب بتائیں تو سہی کہ وہ پاکستان کو کیا سمجھتے ہیں؟ یہ بات حقیقت ہے کہ دیدہ و نادیدہ قوتیں، چاہے وہ ملکی ہوںیا غیر ملکی، پاکستانی انتخابات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یقیناً سب کو این آر او یاد ہوگا،کس طرح اس نے پاکستان کی سیاست کا رخ بدل دیا اور یہ معاہدہ غیر ملکی طاقتوں کی ایما پر طے پایا تھا۔۔۔ امریکہ کا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، برطانیہ کا فارن آفس اور ایک برادراسلامی ملک۔ اور یہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان قوتوںنے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اپنے لیے اس خطے میں مزید سہولت پیدا کرنا تھی۔اُس وقت تک غیر ملکی طاقتوںکو پرویز مشرف کی ’’حدود ‘‘ کا علم ہو چکا تھا کہ اب وہ اس سے زیادہ کام نہیں دے سکتے۔ان کی جگہ محترمہ کو لانے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا لیکن پھر ایک انہونی ہوگئی۔ اب نواز شریف کو ان تمام معروضات کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ وزارت عظمیٰ ایک تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف ہے۔ وہ پاکستان کو عالمی طاقتوںکے پاس گروی رکھ سکتے ہیںنہ ان کی کاسہ لیسی کر سکتے ہیں۔ اُنہیں ان غلطیوں کا بھی احساس ہونا چاہیے جو ان سے پہلے ادوار میں سرزد ہوئی تھیں۔ سب کو یاد ہے کہ اُس وقت اقربا پروری کا دور دورہ تھا۔ میاں صاحب کو خوشامدی افراد نے گھیر رکھا تھا۔ اُنہیں دیکھنا ہو گاکہ اس مرتبہ پھر کہیں ایسا تو نہیںہورہا۔ پاکستان اس وقت سنگین مسائل کا شکار ہے۔ اسے دانا اور صاحب ِ بصیرت قیادت کی ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved