اتنے تھوڑے وقت میں اتنا سفر تبھی ممکن ہو سکتا ہے کہ آپ کے ساتھ بھی کوئی آپ ہی کی طرح کی بے چین روح ہو اور طاہر علوی کی شکل میں مجھے اپنی طرح کا ایک سیلانی میسر تھا۔ طاہر علوی میرا برسوں پرانا دوست ہے مگر لگتا ایسا ہے کہ ہم جنم جنم سے دوست ہیں اور اس کی بنیادی وجہ شاید ہمارے اندر پائی جانے والی مشترکہ مسافر طبیعت ہے۔ مغرب میں ایسا دوست مشکل ہی سے ملتا ہے جو آپ کیلئے اپنی ساری مصروفیات تیاگ دے اور سا را دن آپ کا رانجھا راضی کرنے کیلئے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا رہے۔ طاہر علوی ایسا ہی نادر شخص ہے۔
کیلگری میں اس مسافر کے ملتان والے دوست اور برادرِ بزرگ اعجاز احمد (حال مقیم اٹلانٹا) کا بھتیجا اور ہمارا ملتانی برخوردار طارق سلیم بھی رہتا ہے۔ طارق سلیم ا س سے پہلے فورٹ میک مرے میں رہتا تھا اور ہر مرتبہ شکار کا سیزن شروع ہونے پر یاد دہانی کراتا تھا مگر اس برفستان میں جانے کا کوئی سبب ہی نہ بن سکا۔ جنگلوں کی کٹائی اور لکڑی کے کاروبار سے وابستگی کے طفیل اس کا زیادہ وقت جنگلوں کے آس پاس ہی گزرتا تھا جو میرے شوق کو بڑھانے کیلئے کافی تھا مگر کسی نہ کسی وجہ سے کام پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا‘ حتیٰ کہ وہ فورٹ میک مرے چھوڑ کر ادھر کیلگری آ گیا۔ مجھے کیلگری میں دیکھ کر اس کی حسِ شکارپھر عود پڑی اور کہنے لگا کہ گو کہ غیرملکیوں کیلئے شکار کی اجازت کا سیزن گزر چکا مگر آپ میرے دوستوں کے ساتھ برٹش کولمبیا میں اوپر شمال کی طرف جا کر ایلک یا کیرا بو کے شکار میں ہمراہی بن سکتے ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ پرسوں میری واپسی ہے اور فی الوقت ادھر جانا ممکن نہیں۔ اگر کیرابومائیگریشن کا سیزن ہوتا تو ممکن ہے میں ایک دو دن کیلئے کسی نہ کسی طرح وقت نکال لیتا مگر انکی خزاں کی مائیگریشن کا وقت گزر چکا تھا اور بہار کی مائیگریشن کا سیزن شروع ہونے میں تین ماہ باقی ہیں۔
کیرابو دراصل رینڈیئر کا جنگلی بھائی ہے۔ رینڈیئر برفانی علاقوں کے لوگوں کا امرت دھارا قسم کا کثیر الفوائد پالتو جانور ہے۔ یہ بار برداری کے کام آتا ہے‘ سلیج (برف گاڑی) کھینچتا ہے اور دودھ دیتا ہے۔ اس کا گوشت کھانے اور کھال پہننے کے کام آتی ہے۔ کیرابو اسی جانور کی جنگلوں میں پائی جانے والی ایک قسم ہے جو قد میں رینڈیئر سے بڑی جسامت کا مالک ہے۔ کیرابو شمالی امریکہ میں کینیڈا اور الاسکا کے علاوہ گرین لینڈ میں پائے جاتے ہیں۔ کیرابو مائیگریشن دنیا میں کسی جانور کی سب سے لمبے فاصلے والی سالانہ ہجرت ہے جو وہ سال میں دو بار کرتے ہیں۔ بہار کی ہجرت اپریل سے جون کے درمیان ہوتی ہے جو سرد علاقوں سے نسبتاً گرم علاقوں کی چراگاہوں کی جانب ہوتی ہے اور خزاں کی ہجرت جو اگست سے اکتوبر کے درمیان ہوتی ہے‘ اس میں وہ نسبتاً گرم علاقوں کی چراگاہوں سے واپس اپنے آبائی سرد علاقوں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ کینیڈا اور الاسکا میں کیرابو کی کئی آبادیاں ہیں جنہیں Herd یعنی گلہ کہا جاتا ہے۔ تاہم ان میں دو تین گلے بڑے مشہور ہیں۔ ایک گلہ پارکوپائن ہرڈ ہے۔ یہ کیرابوز کا کبھی سب سے بڑا گلہ تھا اور اس کی تعداد دو سے ڈھائی لاکھ کے درمیان تھی مگر آج کل اس کی تعداد کم ہو کر تقریباً دو لاکھ اٹھارہ ہزارہو گئی ہے۔ فی الوقت کیرابو کا سب سے بڑا گلہ ویسٹرن آرکٹک ہرڈ ہے جس کی تعداد دو لاکھ چوالیس ہزار کے قریب ہے۔ تیسرا بڑا ہرڈ بیرن گرائونڈ ہرڈ کہلاتا ہے۔ کبھی اس کی تعداد لاکھوں میں تھی مگر موسمی تبدیلیوں اور ان کے علاقوں میں انسانی سرگرمیوں کے باعث اب اس کی تعداد کافی کم ہو چکی ہے۔ کسی زمانے میں باتھرسٹ کیرابو ہرڈ کی تعداد ساڑھے چار لاکھ سے بھی زیادہ تھی مگر یہ کم ہوتی ہوتی 2021ء میں دس ہزار سے بھی کم ہو گئی۔کیرابو کی سب سے طویل سالانہ ہجرت پارکوپائن ہرڈ کرتا ہے‘ جو الاسکا سے شروع ہو کر کینیڈا کے صوبے یوکون میں ختم ہوتی ہے اور پھر واپس الاسکا کی جانب سے شروع ہوتی ہے۔ یہ سفر 2400 کلومیٹر پر مشتمل ہے اور کسی خشکی والے جانور کی دنیا میں سب سے لمبی سالانہ ہجرت سمجھی جاتی ہے۔ پارکوپائن کیرابو ہرڈ کسی جی پی ایس یا گوگل کی مدد کے بغیر صدیوں سے اپنے اس طے شدہ راستے پر گامزن ہیں اور جب تک انہیں اس دھرتی پر آزادی سے گھومنے کی سہولت میسر ہے اسی طرح اپنی جبلت کے زور پر اس سالانہ ہجرت میں مصروف رہیں گے۔ اس مسافر کے دل میں جہاں کیرابو مائیگریشن دیکھنے کی خواہش مچل رہی ہے اسی طرح افریقہ میں ہونے والی وائلڈ بیسٹ اور ان کے ہمراہ زیبرے و بعض دیگر چوپائیوں کی گریٹ مائیگریشن اپنی نوعیت کی دنیا کی سب سے بڑی تعداد میں ہونیوالی سالانہ ہجرت ہے۔
جنوری سے مارچ کے دوران تنزانیہ کے جنوبی سیرنگیٹی کے سرسبز میدانوں میں موجود وائلڈ بیسٹ لاکھوں بچوں کو جنم دیتے ہیں اور پھر بارشوں کے اختتام پر چراگاہوں میں سبزے کی کمی کے پیش نظر اپریل اور مئی میں مغربی سیرنگیٹی اور دریائے گرومیٹی کی جانب سفر شروع کرتے ہیں۔ جون اور جولائی میں جانوروں کے اس عظیم جم غفیر کا سب سے مشکل‘ ڈرامائی اور تباہ کن مرحلہ شروع ہوتا ہے جب لاکھوں کی تعداد میں وائلڈ بیسٹ مگرمچھوں سے بھرے ہوئے دریائے گرومیٹی اور دریائے ماراکو عبور کرتے ہیں۔ یہاں لاکھوں وائلڈ بیسٹ مگرمچھوں کے خونخوار جبڑوں میں اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور زندہ رہنے والے وائلڈ بیسٹ کینیا میں مسائی ماراکے سر سبز میدانوں میں پہنچ جاتے ہیں اور اگست تا اکتوبر ان چراگاہوں میں لطف اندوز ہونے کے بعد نومبر اور دسمبر میں دوبارہ اسی راستے پر واپسی کا سفر شروع کرتے ہوئے دریائے سیرنگیٹی اور دریائے مارا کو عبور کرکے واپس تنزانیہ میں سیرنگیٹی کے میدانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ سارا فاصلہ تقریباً آٹھ سو سے ایک ہزار کلو میٹر کے درمیان ہوتا ہے۔ اس عظیم ہجرت کے دوران چودہ پندرہ لاکھ وائلڈ بیسٹ کے ہمراہ زیبرے اور غزال بھی ہوتے ہیں۔ ہجرت کے دوران لاکھوں وائلڈ بیسٹ اور ہزاروں زیبرے سفر کے مصائب‘ درندوں کا لقمہ اور مگرمچھوں کا شکار بنتے ہیں مگر اسی دوران لاکھوں بچے بھی پیدا ہوتے ہیں جو اس سارے نظامِ قدرت کو متوازن رکھتے ہیں اور یہ تعداد اس ساری کمی بیشی کے بعد تقریباً اتنی ہی رہتی ہے جتنی مائیگریشن کے آغاز میں۔ لیکن غور کریں تو اصل حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ قدرت کس طرح ان جانوروں کو یہ باور کراتی ہے کہ اب انہیں خشک سالی اور چراگاہوں کے سوکھ جانے پر کس طرف کا سفر اختیار کرنا ہے کہ جہاں سرسبز میدان اُن کے منتظر ہیں۔ اس سارے راستے میں منتظر بھوکے درندوں اور دریا میں چھپے خونخوار مگرمچھوں کیلئے ان کے شکار خود سینکڑوں کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے ان کا لقمہ بننے کیلئے آتے ہیں۔یہ مائیگریشن قدرت کا ایسا اَسرار ہے جو کسی پر نہیں کھلتا کہ ان جانوروں کو جن کے پاس نہ راستے تلاش کرنے کی عقل ہے اور نہ ہی کوئی نشانی کہ وہ اس کی بنیاد پر اپنی ہجرت شروع کریں مگر یہ ہجرت صدیوں سے جاری ہے اور ہمارے لیے باعثِ حیرت ہے۔ جو جاندار راستے میں اپنی جان دے دیتے ہیں‘ ان کی بات تو ختم ہوئی مگر جو بچ جاتے ہیں وہ اگلے سال پھر اسی مشکل سفر پر روانہ ہو جاتے اور اپنی جان جوکھوں میں ڈالتے ہوئے اپنی ہجرت مکمل کرتے ہیں۔
ممکن ہے قارئین اسے حماقت سمجھیں مگر اس مسافر کے دل میں قدرت کے ان مظاہر کو دیکھنے کی حسرت ہے۔ وہ کیرابوز کی الاسکا سے یوکون اور وائلڈ بیسٹ کی سیرنگیٹی سے مسائی مارا کے میدانوں کو ہجرت ہو یا پھر ان دو مذکورہ ہجرتوں سے کہیں زیادہ حیرتناک اور عجوبۂ روزگار مونارک تتلیوں کی میکسیکو سے کیلیفورنیا کی جانب 4800کلو میٹر طویل مائیگریشن ہو۔ مالک کے کرم کے طفیل یقین ہے یہ مسافر کسی روز قدرت کے ان مہاجر جبلت والے جانداروں کا نظارہ کرنے کی اپنی دلی حسرت پوری کرلے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved