تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-11-2013

چودھری پرویزالٰہی اور خادمِ اعلیٰ کا دورِ حکومت

پرویز مشرف کو دس مرتبہ وردی میں صدر بنوانے کی خواہش چودھری پرویزالٰہی کی ناقابل معافی حرکت ہے لیکن آمریت کی حمایت اور آمر کی چاپلوسی سے ہٹ کر رفاہ عامہ کے کئی کام ایسے ہیں جن سے اہل پنجاب عموماً اور ہم جنوبی پنجاب کے نظرانداز شدہ پسماندہ لوگ خصوصاً مستفید ہوئے۔ اہل پنجاب کے لیے پولیس میں 15 کے نظام‘ ریسکیو اور مدد کے حوالے سے 1122 اور شہروں میں ٹریفک کی بہتری کے لیے سٹی ٹریفک پولیس اور ہائی وے پولیس کا قیام ایسی انقلابی تبدیلیوں کا پیش خیمہ تھا جس سے عام آدمی کے لیے سہولتوں اور آسانیوں کا ایک نیا منظرنامہ سامنے آیا۔ یہ ایک ایسا آغاز تھا جس کی داد نہ دینا کم ظرفی ہوگی۔ ملتان اور جنوبی پنجاب کی حد تک جتنا ترقیاتی کام چودھری پرویزالٰہی کے دور میں ہوا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ سڑکوں کی حالت بہتر ہوئی۔ سیوریج اور نکاسی کے منصوبے تکمیل تک پہنچے۔ صاف پانی کی فراہمی بہتر ہوئی اور سب سے بڑھ کر ملتان میں دل کے امراض کا ’’سٹیٹ آف دی آرٹ‘‘ ہسپتال تعمیر ہوا۔انہوں نے ملتان میں ڈینٹل کالج اور ہسپتال کے علاوہ نشتر ہسپتال میں برن یونٹ بنوایا جو بذات خود ایک پورا ہسپتال ہے۔ غرض ملتان میں بننے والے یہ تینوں منصوبے پورے جنوبی پنجاب کے لیے باعث رحمت اور یہاں کے عوام کے لیے نعمت غیر مترقبہ تھے۔ پھر یوں ہوا کہ آمریت اپنا بوریا بستر گول کر کے رخصت ہوئی تو پوری ق لیگ مع چودھری پرویزالٰہی کو بھی ہمراہ لیتی گئی۔ پنجاب خادم اعلیٰ کے زیر سایہ آگیا۔ برن یونٹ جہاں تک بنا تھا وہیں رک گیا۔ تیزاب اور آگ سے جھلسنے والوں کے لیے پاکستان بھر میں صرف ایک خصوصی ہسپتال ہے جو واہ میں ہے اور اپنی محدود استعداد کے باعث تمام متاثرین کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔ تیزاب اور آگ سے جھلسنے والوں کی غالب تعداد کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہوتا ہے، اس لحاظ سے یہ اس علاقے کے لیے غنیمت تھا مگر پورے پانچ سال تک اس برن یونٹ کی عمارت اہل ملتان بلکہ پورے جنوبی پنجاب کے لوگوںکا منہ چڑاتی رہی۔ اب شنید ہے کہ اٹلی کی حکومت نے فنڈز فراہم کر دیے ہیں،لہٰذا اس برن یونٹ کے ماتھے پر پیتل کا خوبصورت نام چسپاں کردیا گیا ہے۔ چودھری پرویز کے زمانے میں بننے والے ’’ملتان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘‘ کا نام حاشیہ برداروں نے ’’چودھری پرویزالٰہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘‘ رکھ دیا۔ جب پرویزالٰہی رخصت ہوئے اور خادم اعلیٰ تشریف لے آئے تو ان کو یہ نام بڑا کھٹکا۔ ادارے کے فنڈز کم کر دیے گئے۔ ایمرجنسی بنانے کا منصوبہ اور توسیع کا پروگرام بنا، اس مقصد کے لیے کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ سے ملحقہ شیش محل کلب کو جو ملتان میں گنتی کے دو تین کلبوں میں سے ایک تھااور جہاں بچے‘ بوڑھے اور نوجوان ٹینس وغیرہ کھیلتے تھے، گرا دیا گیا۔ پانچ سال ہونے کو ہیں، ہسپتال کے ساتھ ایک ایسا خالی میدان ہے جس میں کار پارکنگ بنا دی گئی ہے اور خاص بات یہ ہے کہ گرائی گئی عمارت کا ملبہ اٹھانے کے بعداس جگہ کو پوری طرح صاف کیا گیا نہ ہموار۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اہل ملتان کھیلوں کی سرگرمیوں اور کارڈیالوجی ہسپتال میں توسیع‘ دونوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ یہ تو اہل ملتان کا حال تھا، پورا پنجاب پرویزالٰہی کے شروع کیے گئے منصوبوں سے اسی طرح ’’مستفید‘‘ ہو رہا ہے۔ میرا گھر بوسن روڈ سے متصل ایک کالونی میں ہے اور اس وجہ سے صبح شام اس سڑک سے گزرنا مجبوری ہے۔ چھ نمبر چونگی چوک پر صبح سویرے روزانہ یہ منظر ہوتا ہے کہ سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے تین چار ٹریفک وارڈن بند بوسن کی طرف سے آنے والے ہر موٹر سائیکل کو روک کر کاغذات چیک کر رہے ہوتے ہیں۔ دیہات کی جانب سے شہر میں محنت مزدوری کی غرض سے آنے والے یہ موٹر سائیکل سوار سر پر بندھی بگڑی‘ صافے اور چادر کے باعث دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ شکروں کی طرح شکار کی تاڑ میں کھڑے یہ ٹریفک وارڈن ہر اس حلیے والے موٹر سائیکل سوار کو روک لیتے ہیں۔ یہ چاروں ٹریفک وارڈن چالانوں میں مصروف ہوتے ہیں اور چوک پر ٹریفک جام ہوتا ہے۔ سڑک کے درمیان موجود بجلی کے کھمبوں کے باعث پہلے سے بے ترتیب ٹریفک کو افراتفری میں مبتلا گاڑیوں والے مزید خراب کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ٹریفک وارڈن ٹریفک کو رواں رکھنے کے بجائے چالانوں اور جرمانوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انہیں ہر روز چالانوں اور جرمانے وصول کرنے کا باقاعدہ ٹارگٹ ملتا ہے۔ عوام کی سہولت کے لیے بھرتی کی گئی ٹریفک وارڈنوں کی فوج ظفر موج عوام کی سہولت کے بجائے زحمت کا باعث بن چکی ہے۔ یہی حال نو نمبر چونگی کا ہے جہاں فلائی اوور کے نیچے کھڑے ہوئے تین چار ٹریفک وارڈن مسلسل چالانوں میں مصروف ہوتے ہیں اور ٹریفک پھنسی ہوتی ہے۔ چودھری پرویزالٰہی کے زمانے میں یہ وارڈن اپنی خوش اخلاقی اور ایمانداری کے لیے مشہور تھے، اب چالانوں کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ میں ایک دن بجلی کی استری ٹھیک کروانے کے لیے مکینک کی دکان پر کھڑا تھا کہ سامنے دیکھا دو ٹریفک وارڈن دھڑا دھڑ قصبہ بوسن کی جانب جانے والے دیہاتی موٹر سائیکل سواروں کے چالان کر رہے تھے۔ میں نے قریب جا کر ان وارڈن حضرات سے پوچھا کہ وہ ان موٹر سائیکل سواروں کا کس خوشی میں چالان کر رہے ہیں؟ جواب ملا ان کی وجہ سے بہت ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا صرف یہ لوگ جنہوں نے سروں پر صافے لپیٹ رکھے ہیں سارے ایکسیڈنٹوں کے ذمہ دار ہیں؟ جواب ملا بڑی گاڑیوں والوں کو روکیں تو وہ فون پر صاحب سے بات کروا دیتے ہیں بلکہ وہ رکتے ہی نہیں۔ پھر ان میں سے ایک وارڈن کہنے لگا: بابا جی! آپ ہمیں ڈسٹرب نہ کریں۔ ابھی ہم چالان کر رہے ہیں‘ بیس پچیس منٹ بعد مغرب ہو جائے گی اور اندھیرے میں چالان کرنا ممکن نہیں رہے گا، ہمیں بڑی جلدی ہے ،آپ ہمارا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ میں نے کہا یہ قانون تو نہیں تاہم ایک اصول ضرور ہے کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہ کرنے والوں کو آپ نہ تو روک کرکاغذات چیک کرسکتے ہیں اور نہ ہی بلاوجہ کسی ڈرائیور کو روک سکتے ہیں لیکن آپ بلاوجہ لوگوں کو روک کر چالان کر رہے ہیں۔ اس سے ٹریفک میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے ۔اس پر ٹریفک وارڈن کھسک گئے۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو وہ چالیس پچاس گز آگے جا کر پھریہی کام کر رہے تھے۔ میں اس سلسلے میں دو تین بار ا یس پی ٹریفک کو بھی ملا مگر صورتحال میں بہتری کی بجائے مزید خرابی نظر آ رہی ہے۔ چودھری پرویزالٰہی نے عوام کی سہولت کے لئے جو فورس تشکیل دی تھی خادم اعلیٰ کے دورِ حکومت میں عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈال رہی ہے اور حکومت کو جرمانے وصول کر کے دے رہی ہے۔ دنیا بھر میں ٹریفک پولیس کا بنیادی کام ٹریفک کے نظام کو درست کرنا‘ رواں رکھنا‘ لوگوں کو سہولت مہیا کرنا اور ان کے لیے آسانیاں فراہم کرناہوتا ہے مگر ہر چیز سے پیسہ پیدا کرنا ہماری اوّلین ترجیح بن چکی ہے، وہ انفرادی معاملہ ہو یا حکومتی۔ خادم اعلیٰ کا معاملہ بھی عجیب ہے، کہیں وہ سرکاری اداروں میں عوام کی سہولت کے لیے پارکنگ فیس ختم کر دیتے ہیں اور کہیں ان کی حکومت میں عوام کی سہولت فراہم کرنے پر مامور افراد عوام کو تنگ کرنے اور لوٹنے میں مصروف ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس لوٹ مار میں حکومت بھی باقاعدہ شریک ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved