گزشتہ صدی کاایک مشہور مارکسسٹ مقولہ ہے کہ انقلابی نظریے کے بغیر کوئی تحریک انقلاب لانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ حال ہی میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج اس قول کو سچ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ اروند کجریوال‘ جنہوں نے 2015ء سے دہلی ریاست پر بی جے پی کی ہر یلغار کو ناکام بنا رکھا تھا‘ فروری 2025ء کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کے ہاتھوں برُی طرح پٹ گئے۔ حالیہ الیکشن میں اُن کی جماعت اسمبلی کی 70میں سے صرف 22نشستیں حاصل کر سکی حالانکہ 2020ء کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے 62 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اروند کجریوال خود ایک غیر معروف سیاسی ورکر کے ہاتھوں ہار گئے۔ یہی حال اُن کے دیگر قریبی ساتھیوں کا ہوا۔ اس دفعہ انتخابی مہم کے آغاز پر ہی بی جے پی کا پلڑا بھاری نظر آ رہا تھا۔ بی جے پی نے 27 سال کے بعد دہلی کے انتخابات میں ایک ایسے سیاستدان کو ہرا کر کامیابی حاصل کی ہے جو دہلی سے باہر گووا‘ اُترپردیش حتیٰ کہ نریندر مودی کی ہوم سٹیٹ گجرات میں بھی بی جے پی کو چیلنج کر رہا تھا۔ دہلی انتخابات میں AAP کی شکست اور بی جے پی کی جیت کے اسباب کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے مستقبل اور چند ماہ بعد بھارت کی دیگر ریاستوں میں ہونیوالے انتخابات پر دہلی کے نتائج کے اثرات کا بھارتی میڈیا میں بڑی سنجیدگی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے دہلی کی ریاست اور حالیہ انتخابات کے بارے میں چند اہم حقائق کا جائزہ بہت ضروری ہے۔
دہلی بھارت کی اُن ریاستوں میں سے ایک ہے جس کی آبادی میں مڈل کلاس کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق دہلی میں 65 سے 70 فیصد گھرانے مڈل کلاس سے ہیں۔ ان میں سرکاری ملازمین اورتقسیمِ ہند کے نتیجے میں پاکستان سے ہجرت کرنے والے ہندو اور سکھ خاندانوں کی دوسری اور تیسری نسل کے لوگ شامل ہیں۔ باقی آبادی محنت مزدوری کرنے والوں‘ دیگر ریاستوں مثلاً اُتر پردیش‘ بہار اور بنگال سے آ کر آباد ہونے والے مسلمانوں‘ دلتوں اور دیگر اقلیتوں پر مشتمل ہے۔ کم آمدنی والے یہ لوگ عام آدمی پارٹی کے پکے ووٹرز ہیں اور اس مرتبہ بھی انہوں نے عام آدمی پارٹی کے امیدواروں کوووٹ دیے ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ بی جے پی کے مقابل نصف سے بھی کم نشستیں جیتنے کے باوجود عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے حاصل کردہ مجموعی ووٹوں کا تناسب بالترتیب 44اور46فیصد ہے‘ یعنی ووٹوں کے تناسب میں محض دو فیصد کا فرق ہے۔ دونوں جماعتوں کی حاصل کردہ نشستوں کی تعداد میں نمایاں فرق کا سبب AAP کی کمزور اور بی جے پی کی بہتر اور منظم حکمت عملی ہے۔
دہلی اسمبلی کے انتخابات میں تین بڑی سیاسی جماعتوں بی جے پی‘ عام آدمی پارٹی اور کانگریس نے حصہ لیاتھا۔ دہلی اسمبلی کی کل 70 نشستیں ہیں جن میں سے 48 بی جے پی نے اور 22 نشستیں عام آدمی پارٹی نے حاصل کیں ۔ کانگریس ایک بھی نشست حاصل نہیں کر سکی۔ مگر تبصرہ کاروں کی رائے میں کانگریس کے الیکشن میں حصہ لینے سے کم از کم 15 نشستیں‘ جہاں عام آدمی پارٹی جیت سکتی تھی‘ وہاں کانگریس کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کا ووٹ بینک متاثر ہوا اور وہ نشستیں بی جے پی کی جھولی میں گر گئیں۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی پرانی حریف جماعتیں ہیں لیکن دونوں بی جے پی کے خلاف 26 سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک وسیع سیاسی اتحاد ''انڈیا‘‘ (Indian National Developmental Inclusive Alliance) میں شامل ہونے کے باوجود دہلی کے انتخابات میں مدمقابل تھیں۔ اس کی ذمہ داری مبصرین کانگریس سے زیادہ AAP بلکہ اروند کجریوال پر ڈال رہے ہیں‘ جن کو زعم تھا کہ وہ اکیلے ہی دونوں پارٹیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں کجریوال کی حد سے زیادہ خود اعتمادی ان کی شکست کا باعث بنی۔ ماضی میں کجریوال کو کرپشن کے خاتمے اور گڈ گورننس کے نعروں کی وجہ سے دہلی کے تمام طبقات کی حمایت حاصل رہی۔ اپنی پہلی مدت (2015 تا 2020ء) کے دوران انہوں نے نہ صرف کرپشن اور گڈ گورننس بلکہ تعلیم‘ صحت‘ پانی اور مفت بجلی کی فراہمی جیسے فلاحی کاموں سے ایک دیانتدار‘ سادہ اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والے رہنما کا امیج بنایا تھا مگر دوسری مدت (2020 تا 2025ء) کے آخری دو برسوں میں ان کا یہ امیج بہت متاثر ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست میں شراب کی فروخت کو ریگولیٹ کرنے کیلئے ان پر رشوت لینے کا الزام لگا اور اس کیس میں وہ گرفتار بھی ہوئے۔ مسٹر کجریوال ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت پر الزامات عائد کر کے انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن جب اروند کجریوال‘ جو قبل ازیں وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے بھی سادہ زندگی گزارتے تھے‘ عام کاروں میں سفر کرتے تھے اور ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے‘جب انہوں نے لگژری گاڑیوں میں گھومنا شروع کیا اور ''شیش محل‘‘ کے نام سے ایک عالیشان بنگلہ تعمیر کرایا تو ان کے حامیوں کو ان کی دیانتداری پر شک ہونے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کجریوال نے اپنی پہلی مدت کے دوران سکولوں‘ ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی حالت کو بہت بہتر بنایا۔ محلہ کمیٹیاں تشکیل دے کر صفائی اور سکیورٹی صورتحال میں تسلی بخش پیشرفت یقینی بنائی مگر 2021ء کے مون سون کے سیلاب نے دہلی کی سڑکوں اور گلی محلوں کو اس قدر تباہ کر دیا کہ انہیں چار سال گزر جانے کے بعد بھی پوری طرح مرمت نہیں کیا جا سکا۔بی جے پی‘ جس کی گزشتہ دس برس سے دہلی حکومت پر نظر تھی‘ نے کجریوال حکومت کی ان ناکامیوں کو خوب اچھالا۔ کجریوال کی پارٹی کا فوکس غریب اور محروم طبقات رہے ہیں اور سیاست کے بارے میں ان کا تصور ان طبقات کی معاشی اور سماجی حالت کو بہتر بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ مگر متوسط طبقے‘ جنہوں نے ابتدا میں کرپشن کے خلاف اور گڈ گورننس کے حق میں عام آدمی پارٹی کا ساتھ دیا تھا‘ کیلئے عام آدمی پارٹی کے پاس مزید کچھ نہیں۔ اسکے مقابلے میں بی جے پی نے دہلی کے حالات کا گہری نظر سے جائزہ لے کر ایسی مربوط حکمت عملی تیار کی جس نے متوسط طبقے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ دہلی کی لوک سبھا کی نشستوں پر بی جے پی کے امیدوار قابض ہیں اور مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہونے کی وجہ سے وہ بے پناہ وسائل کے مالک ہیں۔ پاکستان کی طرح بھارت بھی ایک وفاقی ریاست ہے مگر پاکستان کے برعکس بھارت میں وفاقی اکائیوں کے مقابلے میں مرکزی حکومت بہت طاقتور ہے اور ہر ریاست کی اندرونی سیاست کو مختلف آئینی‘ معاشی اور سیاسی طریقوں سے متاثر کر سکتی ہے۔ بی جے پی‘ جو نظریاتی طور پر ایک مضبوط مرکز کی حامی سیاسی جماعت ہے‘ نے دہلی انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج کیلئے اُن تمام وسائل اور حربوں کو استعمال کیا جو بھارت کے سیاسی نظام کے تحت اسے حاصل ہیں۔ مثلاً آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے مودی حکومت نے ریاست کے آئینی سربراہ‘ لیفٹیننٹ گورنر کو ریاستی حکومت سے زیادہ اختیارات کا مالک بنا دیا۔ اس کی وجہ سے عام آدمی پارٹی ایسے متعدد وعدے پورے نہ کر سکی جو اس نے دہلی کے عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے کر رکھے تھے۔ اسی طرح انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی مرکزی حکومت کے حکم پر وزیراعلیٰ اروند کجریوال کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور کئی ماہ تک اُن کی ضمانت نہ ہو سکی۔ کجریوال کے علاوہ ان کے بعض قریبی ساتھیوں کو بھی قید کر لیا گیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے کجریوال اور اُن کے چوٹی کے ساتھی انتخابی مہم میں پوری طرح حصہ نہ لے سکے۔ یہ سچ ہے کہ ان انتخابات میں بی جے پی نے ہندو توا کارڈ نہیں کھیلا مگر آر ایس ایس کے ہزاروں رضا کاروں کو محلوں کی کارنر میٹنگز کے ذریعے ووٹ مانگنے پر لگا دیا گیا۔(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved