تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     15-02-2025

پھیکا ایکٹ

حکومت نے 'برقی جرائم‘ کے سدِّباب کا ترمیمی قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا ہے۔ صدرِ پاکستان کے دستخط کے بعد اب یہ رائج الوقت قانون بن چکا ہے۔ اس قانون کا مخفَّف ''پیکا ایکٹ‘‘ ہے۔ ابتدائی طور پر یہ قانون 2007ء میں بنا‘ پھر 2016ء میں اس میں ترمیم کی گئی اور اب نئی ترمیمات منظورکی گئی ہیں۔ ان ترامیم کے تحت قانون کے نفاذ کو سریع العمل بنایا گیا ہے‘ اسکی خلاف ورزی کو روکنے کیلئے اتھارٹی کے تحت ٹریبونل قائم کیا جائے گا‘ اس کی سربراہی ہائیکورٹ کے حاضر سروس یا سابق جج کریں گے‘ ٹریبونل کے باقی ارکان بھی حکومت نامزد کرے گی‘ سزائوں کو بھی بڑھا دیا گیا ہے۔
مگر یہ قانون تشکیل کے وقت سے ہی پھیکا پڑ گیا ہے‘ اس لیے ہم نے اس کا عنوان ''پھیکا ایکٹ‘‘ رکھا ہے۔ حکومت کے ترجمان جارحانہ انداز میں اس کا دفاع نہیں کر پا رہے جبکہ مخالفین کا انداز جارحانہ ہے مگر اُن کی نیت بھی واضح نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک منقسم قوم ہیں‘ ہمارے نزدیک مسلَّمات اور متفق علیہ امور کا فقدان ہے۔ ہر ایک کا اپنا حق اور اپنا سچ ہے‘ لوگ اقتدار میں ہوں تو چیزوں کو ایک زاویے سے اور اقتدار سے باہر ہوں تو دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ دنیا میں قوانین قوموں اور ملکوں کے دائمی اور دیرپا مفاد کیلئے بنتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں وقتی مفاد مطلوب ہوتا ہے کہ کل کس نے دیکھا ہے‘ حالانکہ کل آتے دیر نہیں لگتی۔ جب پی ٹی آئی حکومت میں ایک دن میں 33 قوانین منظور کیے گئے اور اُن میں 'وقف کا قانون‘ بھی تھا‘ جو اسلام اور دنیا کے مسلّمہ اصولوں کے خلاف تھا۔ ہم نے اس کی بابت اُس وقت کے قومی اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر کے ساتھ میٹنگ کی‘ انہوں نے کہا آپ ترامیم تجویز کریں ہم پارلیمنٹ سے منظور کرا دیں گے۔ ہم نے مجوزہ ترامیم ان کو ارسال کیں تو انہوں نے کہا انہیں ترمیمی بِل کی شکل دے کر بھیجیں‘ اس کی بھی تعمیل کر دی گئی‘ لیکن پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ آج وہی قانون القادر ٹرسٹ کی تجدید میں مانع ہے۔ خواجہ محمد وزیر نے کہا ہے:اسی خاطر تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے؍اکیلے پھر رہے ہو یوسفِ بے کارواں ہو کر۔
ایف اے ٹی ایف والوں کا مطالبہ فقط ''منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ‘‘ کا سدِّباب تھا‘ یعنی رقوم کی غیر قانونی منتقلی اور دہشت گردی کیلئے مالی وسائل فراہم کرنے کے راستے مسدود کیے جائیں۔ اس قانون سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوا بلکہ بینکوں میں کھاتے کھولنے کے راستے مسدود کر کے 'منی لانڈرنگ و ٹیرر فنانسنگ‘ کیلئے حالات سازگار بنا دیے گئے۔ اسی کو فارسی میں کہتے ہیں: ''برعکس نِہَند نامِ زَنگی کافُور‘‘ زَنگی سیاہ فام یا حبشی کو کہتے ہیں‘ یعنی آپ بادشاہ ہیں‘ مالک ومختار ہیں‘آپ چاہیں توکالے کلوٹے سیاہ فام کا نام بھی 'آفتاب عالَم‘ یا 'شمس الزماں‘ رکھ سکتے ہیں‘ آپ دن کو رات اور رات کو دن کہہ سکتے ہیں‘ کس کی مجال آپ سے سبب یا جواز پوچھ سکے۔ پس یہی مسئلہ پروفیسر حفیظ تائب نے بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں اپنی ایک التجا کو نوحہ گری کا عنوان دیتے ہوئے عرض کیا تھا:
سچ مرے دور میں جرم ہے‘ عیب ہے‘ جھوٹ فنِّ عظیم آج لا ریب ہے
ایک اعزاز ہے جہل و بے رہ روی‘ ایک آزار ہے آگہی یا نبی!
پس اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم سچ بولنے‘ سچ کو قبول کرنے‘ سچ کا سامنا کرنے اور سچ کو کسی باطل تاویل وتوجیہ کے بغیر ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ حکومت کی مجبوریاں تو ہر ایک کو معلوم ہیں‘ اب تنزّل کا عالَم یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے عالی مرتبت جج صاحبان کا رجحان اور سیاسی جھکائو بھی سب کو معلوم ہے۔ آئین وقانون کو موم کی ناک بنا دیا گیا ہے‘ اس کی دفعات کی جو چاہیں تعبیر کریں‘ جس پر چاہیں چسپاں کریں‘ جسے چاہیں اس کی زد سے بچا لیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ پارلیمنٹ بالادست ہے‘ اب بعض عالی مرتبت جج صاحبان کا دعویٰ ہے کہ وہ سب سے بالادست ہیں‘ وہ چاہیں تو پورے نظام کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں‘ لیکن جب خودسری حد سے بڑھ جائے تو انجام چھبیسویں آئینی ترمیم کی صورت میں سامنے آ جاتا ہے۔ الغرض ہم کسی بھی منصب پر ایک معتدل اور متوازن موقف اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ہم نے جتنے بھی معتدل مزاج تجربہ کار صحافیوں کو سنا‘ وہ مانتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے ساری حدیں عبور کر لی ہیں‘ اتّہام‘ الزام‘ دُشنام‘ طَعن وتشنیع‘ تمسخُر واِستہزاء‘ توہین‘ تحقیر‘ تذلیل اور تضحیک کو شیرِ مادَر سمجھ لیا گیا ہے‘اگر اس پر گرفت کی جائے تو کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ ہمارے ہاں 'ازالۂ حیثیتِ عُرفی‘ کا قانون تو ہے‘ مگر اُسے آج تک کسی پر نافذ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا‘ جبکہ اس کے برعکس برطانیہ اور امریکہ میں آئے دن ان قوانین کو نافذ ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ جھوٹے الزامات پر بھاری جرمانے عائد ہوتے ہیں‘ تاوان دینا پڑتا ہے‘ متاثرہ فریق کو مقدمے کے اخراجات بھی دینا پڑتے ہیں‘ لیکن ہماری 'آزاد عدلیہ‘ نے ہر چیز کی آزادی دے رکھی ہے اور خود کو ' قانونِ توہینِ عدالت‘ کے مضبوط قَلعے میں محفوظ کر لیا ہے‘ الغرض اس طرح کی عدلیہ بجائے خود شفاف عدل کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
ہمارا مشورہ ہے: الطاف حسن قریشی‘ مجیب الرحمن شامی‘ سہیل وڑائچ‘ مظہر عباس‘ نجم سیٹھی‘ ارشاد احمد عارف جیسے اکابرِ صحافت پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے اور وہ ہفتے کے اندر قانون کا ایسا مسودہ بنا کر دیں جو اپنی وضاحت آپ ہو‘ قابلِ نفاذ ہو اور لوگوں کی عزتوں سے کھلواڑ بند ہو۔ نیز آزادیِ صحافت کیلئے حدود وقیود کا تعیّن کیا جائے۔ یہ نام میرے ذہن میں اسلئے آئے ہیں کہ یہ حضرات معتدل اور متوازن مزاج کے حامل ہیں‘ ان سے خیر کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ یہ بھی لازم ہے کہ تحدید وتوازن کا قانون قابلِ نفاذ اور قابلِ عمل ہو‘ محض تصوراتی اور مثالی نہ ہو‘ بلکہ حقیقت سے قریب تر ہو۔ میں نے نجم سیٹھی صاحب کو سنا‘ جب صحافت کی بات آئی تو کہا: نیت کو بھی دیکھا جائے گا‘ پس سوال یہ ہے کہ لوگوں کی نیتوں کا فیصلہ کون کرے گا۔
رسول اللہﷺ کا معمول تھا: جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو مدینۂ منورہ کے قریب رات گزارکر اگلے دن شہر میں داخل ہوتے‘ پہلے مسجدِ نبوی میں نوافل پڑھتے‘ پھر شہر کے احوال معلوم کرتے اور اس کے بعد خانۂ اقدس میں تشریف لے جاتے۔ غزوۂ تبوک ایک مشکل دور میں پیش آیا‘ اسے قرآن وحدیث اورکتبِ سیرت میں 'جیشِ عُسرت‘ کا نام دیا گیا ہے‘ اس میں 80 کے لگ بھگ لوگ پیچھے رہ گئے تھے۔ انہیں قرآن میں ''مُخَلَّفِیْن‘‘ (پیچھے رہ جانے والوں) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسے ہم انگریزی میں Left behind سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ پس جب آپﷺ مسجدِ نبوی میں بیٹھے تو جہاد سے پیچھے رہ جانے والے آئے اور قسمیں کھا کھا کر اپنے عذر پیش کرتے رہے‘ ان میں منافقین بھی شامل تھے۔ رسول اللہﷺ نے اُن کے ظاہری موقف کو قبول فرما کر ان سے بیعت لے لی‘ ان کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت کی اور ان کے باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا‘‘ (بخاری: 4418)۔
قرآنِ کریم میں فرمایا: ''(اے مسلمانو!) جب تم ان (منافقین) کی طرف لوٹ کر جائو گے تو وہ تمہارے سامنے (جہاد میں شریک نہ ہونے کے) عذر پیش کریں گے‘ (اے رسولِ مکرم!) آپ کہیے: تم بہانے نہ بنائو‘ ہم ہرگز تمہاری بات کا یقین نہیں کریں گے‘ اللہ نے ہمیں تمہارے (باطنی) حالات سے مطلع فرما دیا ہے اور اب اللہ اور اسکا رسول تمہارے (طرزِ) عمل کو دیکھیں گے‘‘ (التوبہ: 94)۔ پس احکام کا اطلاق ظاہرِ حال پر ہوگا‘ نیتوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے‘ اس لیے قانون اور اس کے نفاذ کا طریقہ واضح ہونا چاہیے۔ نیز جن جرائم کی روک تھام کیلئے قوانین بنائے جا رہے ہیں‘ ان کی تعریفات واضح ہونی چاہئیں تاکہ اطلاق میں غلطی ہو اور نہ قانون کی آڑ میں سیاسی مخالفین سے انتقام کا تاثر پیدا ہو‘ بلکہ انتقام اور احتساب میں فرق واضح نظر آئے۔ ہمارے ہاں قوانین کو اس قدر مبہم رکھا جاتا ہے کہ وہ قوتِ نافذہ کے ہاتھ میں موم کی ناک بن جاتے ہیں اور ان کے غلط استعمال کا راستہ کھلا رہتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved