لوگ ادھر امریکہ میں جب مجھ سے ٹرمپ کے آنے کے بعد والے امریکہ کے متعلق کچھ پوچھتے ہیں تو میری ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ مجھے تو آج تک پاکستان کی سیاست کی سمجھ نہیں آ سکی اور آپ مجھ جیسے کم علم شخص سے امریکہ کی سیاست کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ ایک دوست کہنے لگا: تو پھر آپ کالم کیسے لکھ لیتے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ میں کالم لکھتے ہوئے کوشش کرتا ہوں کہ جو کچھ سنا ہے یا دیکھا ہے اسے من وعن لکھ دیا جائے۔ اس طرح کالم میری دانشوری پر نہیں‘ صرف واقعاتی مشاہدات پر مشتمل تحریر ہوتی ہے۔ اس میں بھی غلطی کا امکان ہوتا ہے کہ ذرائع معلومات کمزور بھی ہو سکتے ہیں اور بعض اوقات غلط بھی۔ تاہم صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی صورتحال اتنی پیچیدہ‘ گنجلک اور ناگفتہ بہ ہے کہ اس پر یقین تو رہا ایک طرف‘ گمان کرکے کچھ لکھنا بھی محال ہے۔ بہت سے لکھنے والے صرف اندازے‘ ٹیوے‘ تُکے اور خواہش کے زیر اثر لکھ کر خوش ہو رہے ہیں کہ وہ قوم کو درست صورتحال سے آگاہ کر رہے ہیں اور قوم بھی خوش ہے کہ اسے 'درست‘ باتوں سے آگاہی حاصل ہو رہی ہے۔
حالات کا عالم یہ ہے کہ ان کو بھی کچھ علم نہیں جو اِن حالات کو خراب کرنے کے اصل ذمہ دار ہیں۔ منصوبہ ساز روز صبح ایک نیا منصوبہ بناتے ہیں اور شام کو اس نئے منصوبے کا دھڑن تختہ ہونے کے بعد آدھی رات کو نیا منصوبہ بناتے ہیں اور اگلی دوپہر جب اس شبینہ منصوبے کا جنازہ نکلتا ہے تو وہ بغل میں سے ایک اور اسی طرح کا فرسودہ اور ناکام منصوبہ نکالتے ہیں۔ منصوبہ ساز سب کچھ کر رہے ہیں مگر صرف ماضی سے سبق حاصل نہیں کر رہے۔ پہلے یہ عالم تھا کہ اسلام آباد میں بیٹھے بے اختیار حکمرانوں کی اوقات کے بارے میں قوم کو کم ہی علم تھا کہ وہ بالکل بے حیثیت اور حکم کے غلام ہیں مگر اب بچے بچے کو یہ حقیقت معلوم ہو چکی‘ تاہم صرف اسلام آبادی حکمرانوں پر ہی یہ راز نہیں کھل رہا کہ ان کی حیثیت سب پر آشکار ہو چکی ہے اور اب یہ راز کسی طور بھی راز نہیں رہا کہ ان کی حیثیت حکم کے غلام سے زیادہ نہیں۔ لہٰذا اب ان کٹھ پتلیوں کے اگلے اقدام کے بارے سوچنا یا اندازہ لگانا کارِ لاحاصل کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ منصوبہ سازوں اور فیصلہ کرنے والوں کی قوتِ فیصلہ اور ان کے منصوبوں کا حال آپ کے سامنے ہے۔ اب ایسے میں بندے کو سیاسی صورتحال کی کیا سمجھ آ سکتی ہے؟ جب ہمیں اپنے گھر کے معاملات کا علم نہیں تو ایسے میں امریکہ کے بارے میں کچھ کہنا نری حماقت ہے۔
ہاں! البتہ وہی پاکستان والی صورتحال کو سامنے رکھوں تو جو دکھائی دے رہا ہے اور جو دوستوں سے سُن رہا ہوں اس پر صرف کمنٹری کر سکتا ہوں۔ بال کو کلیم اللہ سے سمیع اللہ اور سمیع اللہ سے واپس کلیم اللہ کے پاس جاتا دیکھ کر ہاکی کے میدان کی صورتحال کو ریڈیو پر بیٹھے کمنٹریٹر کی طرح بیان کرنا بھلا کون سا مشکل کام ہے کہ بندہ یہ بھی نہ کر سکے۔ سو امریکہ کی صورتحال میں بھی فی الوقت ویسا ہی گھڑمس مچا ہوا ہے جیسا پاکستان میں مچا ہوا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان میں یہ گھڑمس سیاستدانوں سے کہیں اوپر والوں نے مچا رکھا ہے جبکہ امریکہ میں اس گھڑمس کی ذمہ داری اکیلے ٹرمپ نے اپنے کندھوں پر اُٹھا رکھی ہے۔ نہ پاکستان میں سمجھ آ رہا ہے کہ اس کھیل کا انجام کیا ہوگا کیونکہ ریفری نے ہر قسم کے فائول پلے پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور گیم مہارت کے بجائے زورِ بازو کے ذریعے کھیلی جا رہی ہے۔ ادھر ٹرمپ صاحب بھی صدارتی اختیارات کا استرا ہاتھ میں لیے وہی کچھ کر رہے جس سے متاثر ہو کر بندر کے ہاتھ میں استرا آنے والی مثال بنائی گئی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بار صدر بننے کے بعد جس تیزی اور کثرت سے ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے ہیں اس سے سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف کی جانب سے آرڈیننس جاری کرنے کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ انہوں نے 2001ء سے 2008ء کے دوران دو سو کے الگ بھگ آرڈریننس جاری کرکے ایک ریکارڈ قائم کیا تھا۔ پاکستان میں پارلیمنٹ کی موجودگی میں صدارتی آرڈیننسوں کا اجرا جہاں ایک طرف آمر صدر پرویز مشرف کے اختیارات کی عکاسی کرتا ہے وہیں پارلیمنٹ کی بے وقعتی اور غیر مؤثر ہونے کی بھی گواہی دیتا ہے تاہم امریکی صدر کی جانب سے صدارتی ایگزیکٹو آرڈرز کا جاری ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ یہ صدرِ امریکہ کا آئینی اختیار ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دورِ صدارت میں 20 جنوری 2017ء سے لے کر 20ء جنوری 2021ء تک کل 220 ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے جو ایک سال میں کسی امریکی صدر کی جانب سے جاری کردہ زیادہ سے زیادہ آرڈرز ہیں۔ (گو کہ براک اوباما نے 276 اور بل کلنٹن نے 364 ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے مگر یہ تعداد ان کی دو صدارتی مدتوں کے دوران کی ہے جو آٹھ سال پر محیط تھی) لیکن 20 جنوری 2025ء کو حلف اٹھانے والے دن ہی درجنوں صدارتی آرڈیننس جاری کرکے صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ اور آخری دورِ صدارت میں جس متوقع ریکاڈ کی بنیاد رکھی ہے اسے توڑنا شاید کسی اگلے امریکی صدر کے لیے ممکن نہ ہو۔ ان کی طرف سے گزشتہ چار ہفتوں میں جتنے ایگزیکٹو آرڈرز جاری ہوئے ہیں اس کی درست تفصیل ممکن ہے وائٹ ہائوس کی ویب سائٹ پر موجود ہو تاہم کسی کو زبانی یاد نہیں ہے۔ ان ایگزیکٹو آرڈرز میں سے امریکی شہریت کا پیدائشی حق ختم کرنے والے ایک ایگزیکٹو آرڈر کو تو عدالت کی طرف سے غیر قانونی قرار بھی دیا جا چکا ہے۔
پہلے روز جاری ہونے والے ایگزیکٹو آرڈرز میں سب سے زیادہ آرڈرز کیپٹل ہل کیس میں سزا یافتگان کی صدارتی معافی سے متعلق تھے۔ یہ سزایافتگان ڈونلڈ ٹرمپ کے وہ حامی تھے جنہوں نے 2020ء کے انتخابات کے نتائج کی توثیق روکنے کیلئے 6جنوری 2021ء کو امریکی کانگریس کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔ یہ امریکی تاریخ میں انتخابات کی توثیق روکنے کا ایسا پہلا واقعہ ہے جس کی امریکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کیس میں تقریباً پندرہ سو افراد کو مختلف جرائم کے تحت‘ جس میں بغاوت کی سازش جیسا سنگین جرم بھی شامل تھا‘ گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں سے تقریباً 900 افراد کو مختلف مدت کی سزائیں سنائی جا چکی تھیں جن کی مدت چھ ماہ سے 20 سال تک تھی۔ صدر ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ اپنے علاوہ کیپٹل ہل کیس کے سارے مجرموں اور ملزموں کو صدارتی معافی دے کر فوراً رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ 900 گرفتار ملزموں اور مجرموں میں سے تقریباً 200 افراد کو رہا بھی کیا جا چکا۔ بقول ایک دوست کے‘ صدر ٹرمپ اپنے صدارتی ایگزیکٹو آرڈر اور معاف کرنے کے اختیارات کو بالکل اسی طرح استعمال کر رہے ہیں جس طرح بندر کے ہاتھ میں استرا آ جائے تو وہ اسے استعمال کرتا ہے۔
ٹرمپ نے کیپٹل ہل کے ملزمان کو معافی دینے کا وعدہ اپنی الیکشن مہم کے دوران کیا تھا اور وہ اس کا وقتاً فوقتاً اعادہ بھی کرتے رہے۔ اسی طرح ٹرمپ نے اپنے قوم پرست حامیوں کو خوش کرنے اور ان کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے امریکہ میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن کو بے دخل کرنے کا جو اعلان کیا تھا انہوں نے اس پر بھی عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ پہلے ہلے میں انہوں نے تقریباً 200 بھارتی اور 306 کولمبین غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرتے ہوئے امریکی فوجی طیاروں پر ان کے آبائی ملکوں میں بھجوایا۔ شروع شروع میں تو امریکہ سے کی جانے والی یہ بیدخلیاں ان کے حامیوں کو بہت اچھی لگی تھیں لیکن اب آہستہ آہستہ اس کے اثرات ان کے ان حامیوں پر بھی پڑ رہے ہیں جو غیر ملکی تارکین وطن کو امریکہ سے نکالنے کے مطالبے میں آگے آگے تھے۔ امریکی معیشت میں غیر قانونی تارکین وطن سستی مزدوری کے حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت نہ بھی سہی‘ تو قابلِ ذکر حد تک اہمیت کے حامل ضرور ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved