تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     27-02-2025

سپر باؤل 2025ء

جس روز نیویارک میں ہمدم دیرینہ سرور چوہدری کی بیٹی کی شادی تھی‘ اسی روز امریکی ریاست لوزیانا کے شہر نیو اورلیئنز میں امریکہ کا سب سے بڑا عوامی گھڑمس ''سپر باؤل‘‘ مچا ہوا تھا۔ نیو اورلیئنز دریائے مسی سیپی کے ڈیلٹا کے آخری سرے پر خلیج میکسیکو پر واقع ریاست لوزیانا کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد گوگل نے بھی خلیج میکسیکو کا نام بدل کر خلیج امریکہ کر دیا ہے۔ ریاست لوزیانا بھی دیگر امریکی ریاستوں کی طرح ریڈ انڈینز سے ہتھیائی گئی زمین پر مشتمل ہے اور ان ریاستوں میں شامل ہے جنہیں بعد ازاں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے قیام کے عمل کے دوران چھین جھپٹ کر‘ ہتھیا کر‘ قبضا کر یا خرید کر امریکہ میں شامل کیا گیا۔ ان خریدی‘ ہتھیائی اور ''قبضائی‘‘ گئی ریاستوں میں لوزیانا واحد ریاست ہے جسے 1803ء میں امریکہ نے فرانسیسی حکمران نپولین بونا پارٹ سے مبلغ پندرہ ملین ڈالر میں خریدا۔ اس وقت تیسرے امریکی صدر تھامس جیفرسن‘ جو دریائے مسی سیپی کے کنارے پر واقع نیو اورلیئنز کی بندرگاہ سمیت اس علاقے کو خریدنے کیلئے بہت بے چین تھے‘ نے اس مقصد کے لیے جیمز منرو (بعد ازاں پانچواں امریکی صدر) اور رابرٹ بونگ سٹون کو اس خرید کا ٹاسک سونپا تھا۔
فرانس اس علاقے کو 1682ء سے 1762ء تک کنٹرول کرتا رہا پھر اس پر سپین نے قبضہ کر لیا۔ تاہم فرانس نے 1800ء میں اسے ایک معاہدے کے ذریعے دوبارہ حاصل کر لیا۔ اسی دوران فرانسیسی کالونی سینٹ ڈومنگو (ہیٹی) میں دنیا کی تاریخ میں غلاموں کی واحد کامیاب بغاوت اور برطانوی جنگی کامیابیوں نے فرانس کی نوآبادیاتی گرفت کو بہت کمزور کر دیا۔ نپولین بونا پارٹ نے حالات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے سپین سے واپس حاصل کی گئی اپنی نو آبادی کو محض تین سال بعد امریکہ کو فروخت کر دیا۔ 21لاکھ 40ہزار مربع کلو میٹر پر مشتمل یہ ریاست پندرہ ملین ڈالر یعنی سات ڈالر فی کلومیٹر یا پونے تین سینٹ فی ایکڑ کے حساب سے خریدی گئی۔
سپر باؤل کو میں نے امریکہ کا سب سے بڑا عوامی گھڑمس اس لیے کہا ہے کہ اس سپر باؤل کے دوران جو صورتحال ہوتی ہے اور امریکی جس پاگل پن کی حد تک جوش میں ہوتے ہیں اس کا تصور بھی محال ہے۔ سپر باؤل دراصل امریکی نیشنل فٹ بال لیگ کا فائنل ہوتا ہے‘ امریکی فٹ بال امریکہ کا مقبول ترین کھیل ہے تاہم یہ اس فٹ بال سے قطعاً مختلف کھیل ہے جسے ہم فٹ بال کے نام سے جانتے ہیں۔ امریکہ میں ہمارے والی فٹ بال کو سوکر (Soccer) کہا جاتا ہے۔ امریکہ کے دو مقبول ترین کھیل بیس بال اور فٹ بال (امریکی) ہیں۔ یہ دونوں وہ کھیل ہیں جن کا طریقۂ کھیل‘ قواعد و ضوابط اور دیگر لوازم دنیا میں کسی اور جگہ نہ تو کسی کی سمجھ میں آ سکتے ہیں اور نہ ہی اس طرح پاگل پن کی حد تک پسند کیے جا سکتے ہیں کہ کسی غیر امریکی کیلئے انہیں سمجھنا ہی بڑا مشکل ہے۔ یہ عاجز ایک عرصے سے امریکہ جا رہا ہے‘ مگر اسے بھی ان دونوں کھیلوں کو پسند کرنا تو کجا‘ سرے سے سمجھ ہی نہیں آ سکی۔ اس مسافر کی کم عقلی اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں سمجھنا واقعتاً مشکل کام ہے۔ میں نے مارکٹائی اور دنگے فساد سے بھرپور امریکی فٹ بال کو سمجھنے کیلئے ہمدم دیرینہ لاس اینجلس والے دوست شفیق کی خدمات لیں اور سمجھنے کی اپنے تئیں بھرپور کوشش کی مگر مجھے رتی برابر بھی سمجھ نہیں آئی۔ اس میں استاد کا کوئی قصور نہیں‘ دراصل یہ کھیل ہمارے کسی روایتی کھیل سے نہ تو مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی ہمیں اس میں کوئی مقامی دلچسپی کا عنصر دکھائی دیتا ہے۔
اس کھیل کو اگر لفظوں میں بیان کرنے کی کوششِ ناتمام کروں تو یوں سمجھیں کہ بائیس عدد کھلاڑی کندھوں‘ گھٹنوں‘ کہنیوں اور سر پر حفاظتی بکتر بند چڑھا کر کھیل کے میدان میں نہیں بلکہ جنگ کی میدان میں اترتے ہیں اور پھر دورانِ کھیل ایک دوسرے کو دھکے دینے‘ پچھاڑنے‘ گرانے‘ کھینچے‘ اڑنگیاں مارنے اور دبوچنے کے علاوہ کبھی کبھی اس پچکی ہوئی بال پر بھی توجہ دیتے ہیں جو شکلاً بھی ہماری فٹ بال سے نہیں ملتی ہے۔ ہم بچپن سے بال کا تصور جس بالکل گول چیز سے کرتے ہیں امریکی فٹ بال اس کے برعکس لمبوتری‘ پچکی ہوئی اور بیضوی شکل کی ہوتی ہے۔ گول کے نام پر دو تاحد نظر اونچے لگے ہوئے بانس سمجھ لیں اور باقی آپ کو کیا بتاؤں‘ مجھے خود کچھ پتا ہو تو آپ کو بتاؤں۔ بس کھیل شروع ہو جاتا ہے اور دونوں ٹیموں کے کھلاڑی ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ مار پیٹ کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ کھلاڑیوں کا زخمی ہو کر گراؤنڈ سے باہر جانا معمول کی بات ہے تاہم اس کے سدباب کے بجائے حفاظتی لباس پہنانے کے باوجود زخمی ہونے والے کھلاڑیوں کے متبادل کا معقول بندوبست کیا جاتا ہے۔ ٹیم کے گیارہ کھلاڑی کھیلتے ہیں‘ تاہم ہر ٹیم نے اپنے 53عدد کھلاڑیوں کا نام روسٹر پر دیا ہوتا ہے۔ اس سے آپ خود اندازہ لگائیں کہ کسی ٹیم کو میچ میں کتنے متبادل کھلاڑیوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اب تک کم از کم نو دس کھلاڑی اس کھیل کے دوران میدان میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ معذور ہونے والوں کی تعداد کا کوئی اندازہ نہیں۔ اس کھیل کے سالانہ فائنل مقابلے کو‘ جو سپر باؤل کہلاتا ہے‘ امریکی ثقافت کا ایک مقبول حصہ ہے۔ یہ فائنل ہر سال کسی ایک شہر میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس شہر میں کھیل والے دن سے دو ہفتے قبل ہی جشن شروع ہو جاتا ہے۔ تشہیری مہم زوروں پر ہوتی ہے۔ بے شمار کمپنیاں اپنی مصنوعات کی مشہوری کے لیے اس موقع کو استعمال کرتی ہیں۔ سپر باؤل کی ٹی وی پر براہِ راست کوریج کے حقوق بڑی خطیر رقم کے عوض ملتے ہیں‘ تاہم اس مہنگے حاصل کردہ حقوق کے عوض ٹی وی پر اس کھیل کے دوران تیس سیکنڈ کے اشتہار کی قیمت آٹھ ملین ڈالر تک یعنی پاکستانی روپوں میں سوا دو ارب کے لگ بھگ بنتی ہے۔
کروڑوں امریکی اس روز دیوانے ہوئے پھرتے ہیں۔ دونوں ٹیموں کے حامی اس شہر میں پہنچنے کیلئے مہینوں پہلے ہوٹل بک کروا لیتے ہیں۔ سارا شہر ایک میلے کی صورت دکھائی دیتا ہے۔ ہر طرف رنگا رنگ اشتہارات‘ بورڈ‘ پینا فلیکس‘ لائیو پرفارمنس اور دیگر ذرائع سے تشہیری مہم چلتی ہے۔ ہوٹلوں میں اس دوران کمرے اور بڑی سکرین پر میچ دکھائی جانے والی جگہوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ امریکہ میں سٹے بازی اور جوئے کے باقاعدہ قوانین اور طے شدہ حدود قیود ہیں۔ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے امریکی فٹ بال پر اندازاً ہر سال دو ارب ڈالر کا جوا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ہم گزشتہ کئی ماہ سے اتنی رقم کی قسط کے ادھار پر حصول کے لیے آئی ایم ایف کے ترلے لے رہے ہیں اور ان کی شرائط کی طویل فہرست‘ جو نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر پھیلی ہوئی ہے‘ مسلسل پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
جس روز نیو اورلیئنز میں سپر باؤل تھا اسی روز ہمارے دیرینہ دوست چوہدری سرور کی بیٹی کی نیویارک میں شادی تھی۔ چوہدری سرور نے اس شادی کا دعوت نامہ تو بہت دن پہلے بھیج دیا تھا تاہم اس کے بعد ایک دو تاکیدی مسیج بھی بھیجے تھے۔ میں امریکہ میں تھا تو ضروری سمجھا کہ اس تقریبِ سعید میں شرکت کر لی جائے۔ دوست اس طرح اپنی محبت میں شادی میں شرکت کا دعوت نامہ بھجوا تو دیتے ہیں مگر ان کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ اتنی دور سے آنا جانا آسان نہیں‘ تاہم میں نے اس تقریب میں شرکت کا پکا اردہ کر رکھا تھا۔ تقریب میں شرکت سے سرور چوہدری کی محبت کے علاوہ بونس میں بہت سے دوستوں سے ملاقات کا امکان بھی تھا۔ شادی کی تقریب میں جہاں میں بیٹھا تھا میری دونوں طرف بیٹھے اصحاب مسلسل اپنے موبائل فون پر سپر باؤل کا فائنل دیکھنے میں مصروف تھے۔ ایک کا چہرہ کھلا ہوا جبکہ دوسرے کا چہرہ مسلسل اترا ہوا تھا۔ مجھے نہیں پتا کہ کالم پڑھ کر اس وقت آپ کا چہرہ اترا ہوا ہے یا کھلا ہوا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved