اس ملاقات کا مقصد اور تھا مگر دنیا نے جو کچھ دیکھا وہ ایک منفرد‘ اَن دیکھا‘ اَن سنا عالمی تماشا تھا۔ یہ بنیادی طور پر اتحاد کو مضبوط کرنے‘ عالمی شراکت داروں کو یقین دلانے اور مشترکہ مخالفین کے خلاف متحدہ محاذ پیش کرنے کا ایک موقع تھا۔ لیکن جیسے ہی کیمرے گھومتے رہے اور دنیا دیکھتی رہی‘ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر زیلنسکی کے مابین ملاقات کہیں زیادہ ڈرامائی شکل میں بدل گئی۔ کمرہ بھاری فانوسوں سے آراستہ ایک عظیم الشان ایوان اور دو قوموں کے پُرجوش نشان‘ بین الاقوامی سربراہی اجلاس کی تمام رسمی حیثیت رکھتا تھا۔ پھر بھی اجلاس کے باضابطہ آغاز سے پہلے ہی فضا میں تناؤ واضح تھا۔ ٹرمپ جو کبھی شو مین تھے‘ نے اپنی ٹائی کو ایڈجسٹ کیا اور مسکراہٹ کے ساتھ اپنی کرسی پر پیچھے جھک گئے جبکہ زیلنسکی کی نظریں جنگ کے خلاف اپنے امریکی ہم منصب پر جمی ہوئی تھیں جن کے کندھوں پر قوم کا وزن تھا۔ تو مجھے بتاؤ‘ ٹرمپ نے بات شروع کی۔ ان کی آواز بھاری تھی۔ ''جنگ کیسی جا رہی ہے؟ اب بھی ٹینکوں اور میزائلوں کی بھیک مانگ رہے ہیں؟‘‘۔ زیلنسکی کا جبڑا سخت ہو گیا۔ اس نے ایک چیلنج کی توقع کی تھی لیکن یوکرین کی بقا کی لڑائی کے صریح خاتمے نے اعصاب کو متاثر کیا۔ جناب صدر! ہم جمہوریت کا دفاع کر رہے ہیں۔ ہم بھکاری نہیں ہیں۔ ہم آزاد دنیا کے لیے محاذ سنبھالے ہوئے ہیں جبکہ دوسرے ہچکچاتے ہیں۔ ٹرمپ نے نفی میں ہاتھ ہلایا۔ ہاں‘ ہاں‘ جمہوریت! مجھے جمہوریت پسند ہے‘ جب یہ میرے لیے کام کرتی ہے۔ لیکن آئیے حقیقت پسند بنیں۔ آپ اربوں مانگتے رہتے ہیں جبکہ میرے لوگ گیس کی بڑھتی قیمتوں سے نبرد آزما ہیں اور چیخ رہے ہیں۔ شاید آپ کو مزید ہتھیاروں کا رونا رونے کے بجائے امن مذاکرات کے بارے میں سوچنا شروع کر دینا چاہیے۔ دونوں کی گھبرائی ہوئی آنکھیں چار ہوئیں۔ کیمرے زُوم ہو گئے۔
زیلنسکی نے تیزی سے سانس لیا۔ مذاکرات کریں؟ ایک ایسے شخص کے ساتھ جو ہماری سرزمین پر حملہ کرتا ہے اور ہمارے بچوں کو قتل کرتا ہے؟ کیا آپ بات چیت کریں گے اگر واشنگٹن کا محاصرہ ہو؟ اگر نیویارک میں بمباری کی گئی ہو؟ ٹرمپ آگے جھک گیا۔ اگر نیویارک پر بمباری کی گئی تو میں راتوں رات دشمن کو خاک میں ملا دوں گا لیکن آپ‘ آپ امریکی پیسے کے بہاؤ کی توقع رکھتے ہوئے اس جنگ کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ یورپ نے آخری بار کب قدم اٹھایا؟ یا وہ انکل سام کو دوبارہ بل پر آنے دے رہے ہیں؟
زیلنسکی کی مٹھیاں بند ہو گئیں۔ یورپ مدد کر رہا ہے۔ کافی نہیں‘ لیکن وہ کر رہے ہیں۔ اور آپ کا ملک آزاد دنیا کا رہنما رہا ہے‘ کم از کم ایسا ہوا کرتا تھا۔ اگر آپ اب ہمیں چھوڑ دیتے ہیں تو آپ ہر آمر کو پیغام دیں گے کہ وہ وحشیانہ طاقت سے سرحدیں دوبارہ کھینچ سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے قہقہہ لگایا۔ دوست‘ سرحدیں ہر وقت بدلتی رہتی ہیں۔ میرا مطلب ہے کیا آپ نے تاریخ کو دیکھا ہے؟ اور یہ دکھاوا نہ کریں کہ آپ کی حکومت صاف ستھری ہے۔ کرپشن‘ اولیگارچ‘ سیاسی کھیل‘ آپ کے پاس یہ سب کچھ ہے۔ امریکیوں کو خالی چیک کیوں لکھتے رہنا چاہیے؟
زیلنسکی نے جوابی وار کیا: کیونکہ ہم بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ کیونکہ جب بھی کوئی ظالم بے قابو ہوتا ہے وہ ایک نظیر قائم کرتا ہے۔ آپ کے خیال میں پوتن یوکرین کے ساتھ رک گیا؟ ٹرمپ نے کندھے اچکائے‘ میرے خیال میں پوتن ایک بزنس مین ہے‘ کوئی شریر ذہین نہیں۔ جب وہ کمزوری کو دیکھتا ہے تو حرکت کرتا ہے۔ اور سچ کہوں تو بائیڈن کی انتظامیہ ایک مذاق بنی ہوئی تھی۔ اگر میں عہدے پر ہوتا تو یہ جنگ اتنی دیر تک نہ چلتی۔
زیلنسکی کھڑا تھا۔ پھر ثابت کرو۔ اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ ورنہ تاریخ تمہیں ایک ایسے صدر کے طور پر یاد رکھے گی جس نے آزادی کو کھوکھلا ہونے دیا۔ ٹرمپ نے اپنے کف لنکس کو ایڈجسٹ کیا اور پیچھے جھک گیا۔ تاریخ مجھے اس آدمی کے طور پر یاد رکھے گی جس نے امریکہ کو سب سے آگے رکھا۔ گڈ لک‘ چیمپئن۔
دنیا نے دیکھا کہ دونوں رہنما آخری جنگ میں آنکھیں بند کر رہے ہیں۔ اس کے بعد ہونے والا مصافحہ مختصر‘ ٹھنڈا اور مکمل طور پر پرفارمنس تھا۔ ڈپلومیسی ناکام ہو چکی تھی اور کیمروں نے اس کے ہر سیکنڈ کو قید کر لیا۔ اجلاس کا منصوبہ اتحادیوں اور پروجیکٹ کی طاقت کو یقین دلانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس کے بجائے اس نے ایک سخت سچائی کا انکشاف کیا تھا: مغرب میں ٹوٹ پھوٹ بڑھ رہی تھی اور یوکرین اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا۔ دنیا کی سب سے طاقتور قوم اپنے سیاسی کھیل میں الجھتی رہی۔ اس عالمی تماشے کو ادبی انداز میں پیش کیا گیا تاکہ اس کے بوجھل پن میں کچھ کمی واقع ہو لیکن یہ عالمی تاریخ کی ایک المناک کہانی ہے‘ جس میں ایک طاقتور ملک ایک دوسرے ملک کے معدنی خزانوں پر قبضے کے لیے جنگ لڑ رہا ہے اور دوسرا طاقتور ملک ان خزانوں کی حفاظت کا معاوضہ مانگ رہا ہے۔ معاوضے پر حفاظت کا یہ قدم بعد میں یقینی طور پر ان خزانوں پر قبضے کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ عالمی تاریخ کا یہی تلخ تجربہ ہے۔
اس عالمی ڈرامے کا ڈراپ سین یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی کے درمیان اوول آفس کی حالیہ میٹنگ معدنیات کے لیے مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر شدید اختلاف کی وجہ سے اچانک ختم ہو گئی۔ اس معاہدے کا مقصد روس کی جارحیت کے خلاف حفاظتی یقین دہانیوں کے بدلے یوکرین کے اہم اور نایاب زمینی معدنیات تک امریکہ کو رسائی فراہم کرنا تھا۔ تاہم‘ صدر زیلنسکی نے تجویز میں خاطر خواہ حفاظتی ضمانتوں کی کمی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا‘ جس سے بحث کے دوران تناؤ پیدا ہوا۔ صورتحال اس وقت خراب ہو گئی جب امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے زیلنسکی کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے ان پر جنگ بندی کا مخالف ہونے کا الزام لگایا۔ اس کے جواب میں صدر ٹرمپ نے زیلنسکی پر ''تیسری عالمی جنگ کا جوا کھیلنے‘‘ کا الزام لگا دیا‘ جس کے نتیجے میں میٹنگ اچانک ختم ہو گئی اور معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے۔ اس تصادم نے امریکہ اور یوکرین کے تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے اور یوکرین کے لیے امریکی فوجی مدد کے مستقبل کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔
یورپی رہنماؤں نے یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ امریکی صدر ٹرمپ کے سلوک کی مذمت کرتے ہوئے یوکرین کے لیے بھرپور حمایت کا اظہار کیا ہے اور یوکرین کی خودمختاری کے لیے اپنی وابستگی کا اعادہ کیا ہے۔ جہاں تک یورپی رہنماؤں کی طرف سے یوکرین کے موقف کی حمایت اور خودمختاری سے وابستگی کا سوال ہے‘ یہ رہنما یوکرین کے لیے نہیں اپنی بقا کے لیے فکرمند ہیں۔ یورپ کے رہنما گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ تک اپنی بقا کے لیے سرد جنگ کی چھتری تان کر کسی نہ کسی شکل میں روس اور امریکہ‘ دونوں سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ اب اس چھتری میں چھید پڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف روس اور امریکہ اپنی اپنی بساط کے مطابق یورپ کو استعمال کرتے رہے۔ ان کو کھربوں ڈالر کے ہتھیاروں سمیت کئی طرح کا جنگی ساز وسامان فروخت کرتے رہے‘ اور اس کی قیمت یورپ کے لوگ ادا کرتے رہے‘ کبھی جنگ کے نام پر کبھی امن کے نام پر‘ لیکن یہ سلسلہ اب نہیں چل سکتا۔ ٹرمپ کی آمد تو محض تالاب میں ایک کنکر ہے۔ ابھی کئی اور ٹرمپ آنے باقی ہیں۔ جب تک دنیا میں امن اور انصاف کا نظام قائم نہیں ہو جاتا‘ اس وقت تک اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved