تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     08-11-2013

’’مطالبہ‘‘

اس سارے ہنگامے میں وہ بات دَب گئی جس پر سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے تھی! اس پر کوئی غور کرنے کو تیار نہیں کہ انہونی ہونی کیسے ہوگئی؟ دنیا کا سب سے زیادہ دشوار گزار خطہ‘ جس پر کوئی طاقت کبھی قابض نہ ہو سکی‘ آخر ہتھیلی کی لکیروں کی طرح‘ سات سمندر پار‘ دشمن پر کیسے واضح ہو گیا؟ جو وجہ سورج کی روشنی کی طرح نمایاں ہے‘ ہماری توجہ سے محروم ہے! ہڑپہ اور موہنجو داڑو کے بارے میں شاعر نے کہا تھا ؎ عبرت کی اک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی کلچر نکل رہا ہے ٹنوں کے حساب سے بحث یہ ہو رہی ہے کہ حکیم اللہ محسود شہید ہے یا ہلاک۔ اس پر کوئی غور نہیں کر رہا کہ صدیوں کے ریکارڈ کیسے ٹوٹ رہے ہیں اور کیونکر ٹوٹ رہے ہیں؟ جن علاقوں میں‘ جن پہاڑوں میں‘ جن پہاڑوں کی ہولناک گھاٹیوں میں کوئی سیاح جا سکتا ہے نہ مہم جُو‘ جہاں کوئی لشکر کامیاب نہیں ہو سکتا‘ وہاں ایک فولادی پرندہ نمودار ہوتا ہے‘ ایک خودکار جہاز‘ جس میں کوئی کوچوان ہے نہ ڈرائیور‘ گاڑی بان ہے نہ پائلٹ‘ میزائل داغتا ہے اور وہ شخص جس کی حفاظت کے لیے نڈر سورما جانیں ہتھیلیوں پر رکھے ہیں اور سروں پر کفن بندھے ہیں‘ ایک ثانیے میں بھسم ہو جاتا ہے۔ مہلک فولادی پرندے کے اندر خودکار کمپیوٹر لگے ہیں۔ اُس کا پائلٹ وہاں سے سینکڑوں ہزاروں میل دور بیٹھا‘ اُسے کنٹرول کرتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی!! جب جناب سلمان فارسیؓ نے خدا کے پیغمبرﷺ سے اُس ٹیکنالوجی کا ذکر کیا جو ایران میں رائج تھی اور عرب جس سے مکمل ناآشنا تھے‘ پیغمبرﷺ نے اسے قبولیت کا شرف بخشا۔ مدینۃ النبیﷺ کے گرد خندق کھودی گئی۔ قبیلے جمع ہو کر‘ معاہدوں میں بندھ کر‘ حملہ آور ہوئے تھے لیکن انہیں معلوم ہی نہ تھا خندق سے عہدہ برآ کیسے ہوں؟ ٹیکنالوجی نے انہیں بے بس کردیا۔ دیبل کے باشندے حیرت سے اُس مشین کو د یکھتے تھے جو شہر کے لہراتے جھنڈے پر چٹانوں جیسے پتھر پھینک رہی تھی۔ منوں بھاری پتھر منجنیق ماڈرن ٹیکنالوجی تھی جس کے آگے اہلِ شہر بے بس تھے! اور یہ تو چند سو سال پہلے کا ذکر ہے۔ پانی پت کی پہلی لڑائی… پانی پت جو آج ہریانہ کا صنعتی قصبہ ہے۔ ابراہیم لودھی کے پاس‘ بابر کے بقول‘ ایک لاکھ فوج تھی۔ کچھ چالیس ہزار کہتے ہیں لیکن اگر چالیس ہزار بھی ہوں تو بابر کے پاس تو کل پندرہ ہزار لشکری تھے۔ یہ جہاد بھی نہیں تھا‘ اس لیے کہ دونوں طرف مسلمان تھے۔ ایک طرف مغل۔ دوسری طرف پٹھان‘ مگر ابراہیم لودھی کی بدقسمتی کہ جدید ٹیکنالوجی بابر کے پاس تھی۔ بیس یا چوبیس توپیں! بابر نے ان توپوں کے آگے بیل گاڑیوں کی صف کھڑی کی۔ بیل گاڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ چرمی رسوں سے باندھ دی گئیں۔ اب یہ ایک ایسی حفاظتی صف بن گئی جو اپنی جگہ سے ہل ہی نہیں سکتی تھی۔ ابراہیم لودھی کے پاس ایک ہزار جنگی ہاتھی تھے لیکن دو درجن جدید ترین توپوں کے سامنے ہاتھیوں کی سونڈیں کیا کرتیں! بہادر پٹھان نے میدانِ جنگ میں موت کو گلے لگا لیا اور بابر نے دیارِ غیر میں اُس سلطنت کی بنیاد رکھ دی جو تین سو اکتیس برس قائم رہی‘ سوائے اُن چند برسوں کے جب سُوریوں سے گلبدن بیگم کے پیارے بھتیجے کو مار مار کر برصغیر سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔ سر اولف کرک پیٹرک کیرو۔ جو شمال مغربی سرحدی صوبے پر حکومت کرنے والا برطانوی ہند کا آخری گورنر تھا‘ کہا کرتا تھا کہ محسود کسی غیر ملکی طاقت کے آگے ہتھیار ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن کیرو صاحب کو یاد نہیں رہا یا وہ ڈنڈی مار گئے کہ 1925ء کے مارچ سے شروع ہونے والی برطانوی ایئرفورس کی بے رحمانہ فضائی بمباری نے‘ جو مئی تک جاری رہی‘ محسود جنگ جوئوں کو اس درجہ بے بس کردیا تھا کہ اکثر قبائلی سردار انگریزی سرکار کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان فضائی حملوں کی پشت پر زمینی فوج نہیں تھی۔ محسودوں نے اس فضائی تباہی کے بعد بھی انگریز لشکریوں پر حملے جاری رکھے۔ لیکن یہ قبیلے نہیں‘ بلکہ وہ پہاڑ اور ناقابلِ عبور گھاٹیاں ہیں جو ناقابلِ شکست ہیں۔ محسودوں کی بہادری‘ مستقل مزاجی اور غیر لچکدار رویے میں کوئی شبہ ہی نہیں‘ لیکن یہ بہادری اس علاقے کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان سورمائوں نے کسی اور علاقے میں‘ ان ناقابلِ عبور پہاڑوں سے دور‘ مسلسل کامیابیاں حاصل کی ہوں۔ ابراہیم لودھی کے ساتھ اور پھر شیر شاہ سوری کے جانشینوں کے ساتھ یہی بہادر افغان تھے جو اپنے بادشاہوں کو شکستوں سے نہ بچا سکے۔ ٹیکنالوجی‘ جدید ٹیکنالوجی! جدید ٹیکنالوجی کے بغیر… محض بموں سے‘ خودکش جیکٹوں سے‘ فوجیوں کو اغوا کرنے سے‘ آپ گوریلا جنگ تو سو سال بھی جاری رکھ سکتے ہیں لیکن حکومت نہیں قائم کر سکتے۔ آج محسودوں کے پاس اُسی معیار اور اُسی سطح کی جدید ٹیکنالوجی ہوتی جسے امریکی استعمال کر رہے ہیں‘ تو کیا نیک محمد‘ بیت اللہ اور حکیم اللہ محسود مارے جاتے؟ نہیں! کبھی نہیں! محسودوں کی جدید ٹیکنالوجی امریکی ڈرون جہازوں کے پرخچے اڑا دیتی۔ محسودوں نے اپنے ڈرون بگرام امریکی اڈے کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے۔ محسودوں کی ایٹمی آبدوزیں‘ بحرِ ہند میں کھڑے امریکی طیارہ بردار بیڑوں کو میلوں گہرے پانی میں جہنم رسید کردیتیں۔ اس لیے ’’من رباطِ الخیل‘‘ والی آیت کریمہ کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم سمیت کئی مفسرین نے زور دیا ہے‘ اس سے مراد وقت کی تازہ ترین ٹیکنالوجی والے ہتھیار ہیں! نہ جانے ہماری غیرت اُس وقت کہاں گم ہو جاتی ہے جب ہم امریکہ سے ’’مطالبہ‘‘ کرتے ہیں کہ ہمیں ڈرون ٹیکنالوجی دو! ہم جس سانس میں تسلیم کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ امریکہ عالم اسلام کا بدترین دشمن ہے‘ اُسی سانس میں کشکول آگے کر دیتے ہیں۔ کبھی دشمن بھی ٹیکنالوجی دیتا ہے؟ کیا 1925ء کے مارچ‘ اپریل اور مئی میں محسودوں نے برطانوی ایئر فورس سے اپنے لیے بمبار جہاز مانگے تھے؟ کیا جاپانیوں نے دوسری جنگ عظیم میں امریکیوں سے ’’مطالبہ‘‘ کیا تھا کہ تم نے ہیروشیما اور ناگاساکی تباہ کردیے‘ اب ایک ایٹم بم ہمیں بھی دو‘ ہم ذرا اسے واشنگٹن پر گرائیں! اور کیا ا مریکیوں نے ایٹم بم کسی سے مانگا تھا؟ کیا ڈرون مانگے کے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved