ان دنوں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نئی دہلی کی طرز پر اسمبلی اور منتخب جمہوری حکومت بنانے کیلئے آئین میں ترمیم کی راہ نکالنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس حوالے سے سفارشات بھی مرتب کی جا چکی ہیں مگر اس کے ابتدائی ڈھانچے کی تیاری سے پیشتر میڈیا کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ اسلام آباد میں نمائندہ حکومت قائم کرنے کی سفارش وفاقی دارالحکومت میں انتظامی اصلاحات کے لیے تشکیل کردہ سب کمیٹی نے کی ہے۔اصلاحاتی کمیٹی کا اصرار ہے کہ وفاق سے اسلام آباد حکومت کو اختیارات منتقل کیے جائیں‘ جہاں بکھرے ہوئے محکموں کے بجائے ایک مربوط انداز میں ادارے بنائے جائیں۔ مزید یہ کہ اسلام آباد کو وفاق کے ایک یونٹ کے طور پر اہم اور موزوں انتظامی ڈھانچہ بنادیا جا ئے جو گلگت بلتستان کی طرز پر صوبائی حکومت کا ڈھانچہ ہو۔ اسلام آباد اسمبلی اپنا لیڈر منتخب کرے گی جو میئر کہلائے گا اوراسلام آباد اسمبلی کو جوابدہ ہوگا۔ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں منتخب حکومت کے قیام کے لیے وفاقی حکومت کی ایڈوائس پر صدرِ مملکت آئین کے آرٹیکل 258 کے تحت حکم نامہ جاری کر سکتے ہیں جیسا کہ گلگت بلتستان آرڈر 2018ء جاری کیا گیا تھا۔ رولز آف بزنس 1973ء میں بھی اس کے مطابق تبدیلی کی جائے گی۔ یہ رپورٹ سابق بیورو کریٹ اور سابق وفاقی مشیر برائے پارلیمانی امور بیرسٹر ظفر اللہ خان کی سربراہی میں قائم سب کمیٹی نے تیار کی ہے۔ کمیٹی کے دیگر ارکان میں اراکینِ پارلیمنٹ‘ وفاقی وزیر پارلیمانی امور‘ وزارتِ داخلہ کے ایڈیشل سیکرٹری‘ چیف کمشنر اسلام آباد اور سی ڈی اے کے نمائندے شامل ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو وفاقی اکائی یعنی صوبے کا درجہ دینے کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بھی تشکیل دی جا چکی ہے۔ابھی کابینہ سے اس کی منظوری نہیں لی جا سکی تھی کہ اصلاحاتی کمیٹی کی یہ رپورٹ سامنے آگئی۔ اس اقدام نے 2017ء کی یاد تازہ کر دی ہے جب الیکشن ایکٹ کی منظوری سے پہلے کاغذاتِ نامزدگی کے اہم ترین فارم میں ختم نبوت کے حوالے سے ایک ایسی شق شامل کردی گئی تھی جس سے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے ۔ بعد ازاں یہ احتجاجی تحریک جنرل فیض حمید کی مداخلت سے ختم ہوئی اور وفاقی وزیر قانون زاہد حامد‘ بیرسٹر ظفر اللہ خان اور انوشہ رحمن کو اپنی اپنی وزارت سے مستعفی ہونا پڑا تھا اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نوازشریف سے مشاورت کے بعد راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی۔ راجہ ظفر الحق کی رپورٹ کے بعد متنازع شق کو الیکشن ایکٹ سے حذف کر دیا گیا۔
اسلام آباد کو صوبے کا درجہ دینے کے حوالے سے جو دلائل دیے گئے ان میں کئی پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے‘ ان پہلوؤں کا باریک بینی سے جائزہ لینے سے نئے صوبوں کے حوالے سے موجود تحفظات دور کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں دہلی کی ریاستی اسمبلی کی مثال دی جا رہی ہے‘ دہلی کی ریاستی اسمبلی کی 72نشستیں ہیں اور جب دہلی کو ریاست بنایا گیا تو ریاست ہریانہ اور دہلی کے دیگر قریبی اضلاع کے کچھ حصے ریاست دہلی میں شامل کرلیے گئے ۔ دہلی کے برعکس اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی تین نشستیں ہیں۔ اصلاحاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں گلگت بلتستان کی مثال دی ہے۔ گلگت بلتستان کا رقبہ 72ہزار 971مربع کلو میٹر ہے اور اس کی علیحدہ اسمبلی‘ سپریم کورٹ‘ گورنر اور وزیراعلیٰ ہے۔ اسلام آباد کی آبادی 13لاکھ کے لگ بھگ اور رقبہ 906مربع کلو میٹر ہے۔ یعنی رقبے کے لحاظ سے اسلام آباد گلگت بلتستان سے بہت چھوٹا ہے۔ یہاں آئین کے آرٹیکل 258 سے متعلق ایک وضاحت ضروری ہے کہ آرٹیکل نئے صوبے بنانے سے متعلق نہیں بلکہ صدر کے اختیارات سے متعلق ہے۔اسلام آباد کو صوبہ بنانے کی تجویز سب سے پہلے ڈاکٹر بابر اعوان نے 2012ء میں‘ جب وہ وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور تھے‘ پیش کی تھی جسے یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے مسترد کردیا تھا کیونکہ اس راہ میں کچھ مشکلات تھیں۔ اگر اسلام آباد کو صوبہ بنادیا جائے تو یہ محض اسلام آباد کے موجودہ علاقے پر محدود نہیں ہو گا بلکہ اس میں خیبر پختونخوا کا کچھ علاقہ ہری پوراور پنجاب کے شہروں راولپنڈی‘ مری اور چکوال کے کچھ علاقے بھی شامل کیے جائیں گے۔ آئین کے مطابق ان شہروں کو اسلام آباد میں شامل کرنے کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلیوں میں قانون سازی کرکے آئین کے آرٹیکل ایک کے تحت کارروائی کرنا ہوگی۔ اصلاحاتی کمیٹی کے سربراہ بیرسٹر ظفر اللہ خان قابل بیورو کریٹ رہے ہیں اور ان کو آئین پر بھی دسترس حاصل ہے‘ امید ہے کہ انہوں نے نئے صوبے کی تشکیل کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر غور کیا ہوگا اور ان کا کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش بھی کی ہو گی۔موجودہ حکومت کے پاس آئین میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت نہیں اس لیے اس حکومت کے لیے اصلاحاتی کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد بظاہر مشکل نظر آتا ہے‘ تاہم 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر ہم دیکھ چکے ہیں کہ دو تہائی اکثریت کے حصول کے لیے حکومت نے مطلوبہ تعداد پوری کر لی اور یہ ترمیم کرانے میں کامیاب رہی۔ نئے صوبوں کا مسئلہ بھی پورے ملک کا مسئلہ ہے اس لیے اگر حکومت چاہے تو کوشش کرکے دیگر سیاسی جماعتوں کو نئے صوبوں کے قیام کے لیے آئین میں ترمیم پر راضی کر سکتی ہے۔ اگر سبھی سیاسی جماعتیں مل کر کوشش کریں تو ملک میں نئے صوبوں کے قیام کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اس قومی ضرورت کی خاطر اکٹھا ہونا ہوگا۔
دوسری طرف وفاقی کابینہ میں ہونے والی حالیہ توسیع کی بات کریں تو اس توسیع کے بعد حکومتی حلقوں میں اختلافات سامنے آ رہے اور نئے تنازعات جنم لے رہے ہیں جن کے اثرات دور اور دیر تک محسوس کیے جائیں گے۔ وزارت ِداخلہ کی ہی مثال لے لیں کہ وفاقی وزیر داخلہ سید محسن نقوی دھیمے مزاج کی شخصیت ہیں‘ انہوں نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے پنجاب کو13ماہ تک بہترین انداز میں چلایا۔ان کی کابینہ اپنے اپنے شعبوں کی قابل ترین شخصیات پر مشتمل تھی۔ وزارتِ داخلہ کی ذمہ داریاں بھی وہ بطریق احسن انجام دے رہے ہیں لیکن کابینہ میں توسیع کے بعد مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر طلال چودھری کو وزیر مملکت برائے داخلہ اور پرویز خٹک کو مشیر داخلہ امور بنا دیا گیا ہے۔ یہ دونوں حضرات سیاسی پس منظر کے حامل ہیں جبکہ محسن نقوی کا سیاسی و انتخابی حلقہ نہیں ہے۔ پرویز خٹک جہاندیدہ سیاستدان ہیں جنہیں میں ان کے زمانہ طالب علمی سے بخوبی جانتا ہوں۔ وہ طلبہ تحریک کے ہر اوّل دستے میں شامل تھے ‘ اس دستے میں راجہ انور‘پرویز رشید اور شیخ رشید بھی شامل تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ محسن نقوی کو ان شخصیات کے ساتھ چلنے میں دقت ہو گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ وزارت سے سبکدوش ہو جائیں لیکن کرکٹ بورڈ کے سربراہ رہیں ‘مگر وزارتِ داخلہ سے سبکدوشی کے بعد ان کے لیے کرکٹ بورڈ کی سربراہی بھی آسان نہیں ہو گی۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پرویز خٹک بطور مشیر داخلہ امور‘ وزارت داخلہ کے معاملات میں زیادہ فعال کردار ادا نہیں کریں گے اور خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بنانے پر کام کریں گے۔ گورنر خیبر پختونخوا حسب توقع سیاسی معاملات کو سنبھال نہیں سکے؛چنانچہ شنید ہے کہ گورنر خیبرپختونخوا کو تبدیل کرکے پرویز خٹک کے مشورے سے وہاں کسی متحرک سیاسی شخصیت کو لایا جاسکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved