کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ بحیثیت قوم ہم کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھومتے چلے جا رہے ہیں۔ گول گول گھومتے کولہو کے بیل کی دنیا صرف اسی دائرے تک محدود ہوتی ہے جس میں وہ گھوم رہا ہوتا ہے۔ اس سے باہر نکلنا اور اس سے الگ سوچنا وہ گوارا نہیں کرتا‘ اسی لیے اس کی حالت بھی تبدیل نہیں ہوتی۔ صدیاں گزر گئیں‘ کئی ہزاریے بیت گئے‘ کولہو کا بیل آنکھوں پر کھوپے پہنے‘ گلے میں گھنٹی ڈالے‘ دائرے میں چلتا چلا جا رہا ہے۔ بیل کی آنکھیں کھلیں تو اسے پتا چلے کہ وہ مسلسل جس سفر میں ہے وہ سفرِ لاحاصل ہے۔ شاید بیل کی آنکھوں پر کھوپے اسی لیے چڑھائے جاتے ہیں کہ وہ حقائق نہ جان سکے‘ لیکن آج کے اس جدید ذرائع مواصلات والے دور میں کسی معاملے میں خود کو زیادہ دیر لا علم نہیں رکھا جا سکتا۔
تازہ خبر یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے پانچ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کے بعد ملک میں قیمتیں '' مستحکم ‘‘کرنے کے لیے خام چینی یعنی شکر درآمد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق‘ سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ خام چینی (شکر) کی درآمد سے ملک میں قیمتوں میں کمی لانے اور مستقبل میں پیداوار بڑھانے میں مدد ملے گی کیونکہ شکر کو مقامی طور پر ریفائن کر کے چینی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ چینی برآمد کرنے کی اجازت صنعتکاروں کی جانب سے مقامی قیمتوں کو 145 سے 150 روپے فی کلو کے درمیان رکھنے کے وعدے پر دی گئی تھی۔ 12جون 2024ء کی یہ خبر پڑھ لیں: ''حکومت کی جانب سے شوگر ملوں کو ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین کی زیر صدارت شوگر ایڈوائزری بورڈ کا اجلاس ہوا جس میں حکومت اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے درمیان چینی کی برآمد کے لیے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر نے بتایا کہ حکومت نے ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی مشروط اجازت دی ہے‘ چینی کے سٹاک کی دستیابی اور قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنایا جائے گا اور ایکس ملز چینی کی قیمت میں کسی صورت اضافہ نہیں کیا جائے گا‘‘۔
آج مارچ 2025ء میں حالات یہ ہو چکے ہیں کہ گزشتہ چند روز میں چینی کی قیمت 180 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے اور قیمت بڑھنے کا سلسلہ ابھی تھما نہیں۔ چینی کی قیمت میں یہ اضافہ اس وقت ہو رہا ہے جب ابھی کرشنگ سیزن چل رہا ہے اور خام چینی درآمد کرنے کا فیصلہ اس وقت ہو رہا ہے جب چینی کی نئی پیداوار مارکیٹ میں آ چکی ہے یا آنے والی ہے۔ موجودہ حالات میں نہ صرف قیمتوں میں اس طرح کا اضافہ غیر معمولی ہے بلکہ خام چینی کی درآمد کا فیصلہ اس سے بھی زیادہ غیر معمولی محسوس ہوتا ہے۔ ایک تو چینی کی صنعت کی جانب سے چینی کی قیمت کو قابو میں رکھنے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا دوسرا حکومت چینی کے صنعتکاروں کو وعدے کے مطابق قیمتیں بڑھانے سے روک نہیں سکی‘ اور تیسرا حکومت نے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا حل خام چینی درآمد کرنا نکالا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ کیا حکومت چینی کی صنعت کو جوابدہ بنانے اور نادہندگان کے خلاف انتظامی کارروائی کے لیے تیار نہیں؟ یا ایسا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے؟
تجزیہ کار سلیم بخاری ایک ٹاک شو میں کہہ رہے تھے کہ جب چینی کی پیداوار آتی ہے تو حکمران خوش ہو جاتے ہیں کہ واہ! اتنی پیداوار۔ یہ سوچ کر چینی برآمد کر دی جاتی ہے کہ مقامی استعمال کے لیے خاصی مقدار موجود ہے لیکن پھر پتا چلتا ہے کہ چینی تو اتنی ہے ہی نہیں کہ ملکی ضرورت پوری ہو سکے‘ پھر چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے۔ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ ایسے بڑے اور اہم فیصلے کون کرتا ہے؟ اسی طرح کا ایک سکینڈل 2020ء میں پی ٹی آئی حکومت کے دور میں بھی سامنے آیا تھا اور اس کی وجوہات بھی بالکل وہی تھیں جو اس تازہ سکینڈل کی ہیں کہ پہلے وافر چینی موجود ہونے کا دعویٰ کر کے چینی برآمد کر دی گئی‘ لیکن پھر پتا چلا کہ وافر چینی ہونے کا غلط دعویٰ تھا۔ تب چینی سکینڈل کی تحقیقات پر مبنی ایف آئی اے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ شوگر ملز مالکان نے چینی بنانے کے ساتھ ساتھ گنے سے بننے والی دیگر پروڈکٹس سے بھی اربوں روپے کمائے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ شوگر کے کاروبار میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہیں‘ سبسڈی دینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی‘ شوگر ملز مالکان پہلے ہی کسانوں کا استحصال کررہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چینی کی قلت اور قیمتوں میں اضافے میں بااثر اور نامور سیاسی شخصیات ملوث نکلیں۔ چینی بحران کا سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ نے اٹھایا اور 56 کروڑ کی سبسڈی حاصل کی۔ دوسرے نمبر پر خسرو بختیار کے بھائی کی شوگر ملز نے 45کروڑ جبکہ تیسرے نمبر پر آل میوز گروپ نے 40 کروڑ کی سبسڈی لی۔ 2020ء کے چینی سیکنڈل رپورٹ میں چینی کی برآمد کا فیصلہ غلط قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ چینی کی برآمد سے ہی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ چینی برآمد کرنے والوں نے سبسڈی کی رقم بھی وصول کی اور قیمت بڑھنے کا فائدہ بھی اٹھایا۔
سوال یہ ہے کہ 2020ء کے چینی سکینڈل کی انکوائری رپورٹس کو بنیاد بنا کر ایسے اقدامات اور فیصلے کیوں نہیں کیے گئے کہ ایک اور سکینڈل سے بچا جا سکتا؟ ہمارے ملک میں مسلسل یہی ہوتا نظر آتا ہے۔ غلط فیصلے کیے جاتے ہیں اور پھر ان فیصلوں کے اثرات کو ٹھیک کرنے کے لیے کچھ مزید غلط فیصلے ہوتے ہیں۔ ہمارا ملک آزادی کے 77 برس گزرنے کے باوجود اگر معاشی لحاظ سے اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہو سکا تو اس کی بنیادی وجہ یہ غلط فیصلے ہی ہیں۔ جب تک ان بڑے فیصلوں کا دھارا تبدیل نہیں کیا جائے گا‘ اصلاحِ احوال کی توقع پوری ہونے کی کوئی گنجائش پیدا نہیں ہو گی۔ عوام کے Behalf پر اربابِ بست و کشاد سے گزارش صرف یہ ہے کہ بیرونِ ملک سے شکر درآمد کر کے چینی بنانے کے بجائے یہ دیکھا جائے کہ حالیہ کرشنگ سیزن میں کتنی چینی بنی ہے یا مزید کتنی بنے گی‘ اور اس سے ملکی ضروریات کس حد تک پوری ہو سکتی ہیں؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ تحقیق کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ چینی برآمد کرنے کی اجازت کس نے دی اور کن بنیادوں پر؟ پھر یہ پتا بھی چلایا جانا چاہیے کہ جن بنیادوں پر چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی وہ کتنی زمینی تھیں اور کتنی ہوائی یا خلائی؟
ہمارے ہاں حکومتوں اور حکمرانوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ مختلف مسائل‘ معاملات اور سکینڈلز کی تحقیقات تو ہوتی ہیں لیکن ان تحقیقات کی بنیاد پر ذمہ داران کا تعین کر کے انہیں سزا نہیں دی جاتی۔ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر 2020ء کے چینی سکینڈل کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا تو 2025ء کے چینی سکینڈل سے بچا جا سکتا تھا۔ پتا نہیں کولہو کے بیل کی طرح مسلسل گول گول گھومنے کا یہ سلسلہ کب ختم ہو گا اور کب ہم زمینی حقائق پر مبنی فیصلے کر کے حقیقی ترقی کا سفر شروع کریں گے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved