تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     14-03-2025

ایک تھا وزیر‘ ایک تھا ایس ایچ او

آپ نے نوٹ کیا ہے جب بھی دہشت گرد کوئی بڑا حملہ کرتے ہیں تو ہماری حکومت اور متعلقہ ادارے فوراً ایک عجیب وغریب مائنڈ سیٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سب کچھ بلیک آئوٹ کر دیا جائے۔ ٹی وی چینلز پر کوئی خبر نہ چلے۔ کسی کو کچھ پتا نہ چلے۔ جتنا اس معاملے کی خبر کو چھپایا جا سکتا ہے‘ اسے چھپایا جائے اور پاکستانی لوگوں کو بالکل پتا نہ چلنے دیا جائے۔مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اس طرح کی خبریں چھپانے سے کیا حاصل ہوتا ہے۔ کیا اس خبر کا کسی کو پتا نہیں چلتا؟ کب تک پوری قوم اندھیرے میں رہتی ہے؟ یا شاید حکومت اور اداروں کا خیال ہوتا ہے کہ چوبیس گھنٹے بعد جب وہ اُس معاملے کو مکمل ہینڈل کر لیتے ہیں تو پھر وہ اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ اب قوم کو بتایا جائے کہ حملہ آور کون تھے اور ان کا کس طرح مقابلہ کیا گیا اور اب الحمدللہ سب کچھ کنٹرول میں ہے۔ اس دوران جب ایسے حملوں کے دوران پاکستان کا سرکاری میڈیا کوئی خبر نشر نہیں کر رہا ہوتا اور دیگر چینلز کو بھی خبر دینے سے روک دیا جاتا ہے بلکہ بلیک آئوٹ کر دیا جاتا ہے تو یہی وقت ہوتا ہے جب دہشت گردوں کا نیٹ ورک پوری قوت سے سوشل میڈیا پر ایکٹو ہو جاتا ہے۔پھر حکومت اور ادارے یہ گلہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ ان کے مخالفین سوشل میڈیا پر ان کے خلاف جھوٹ پھیلا رہے ہیں‘ پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ حکومت یا اداروں کو دہشت گردوں سے زیادہ نقصان سوشل میڈیا پر بیٹھے دہشت گردوں کے حامی پہنچاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس دہشت گردی کا مقصد ہی دراصل بیرونی میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے مقام سے چھوٹے چھوٹے وڈیو کلپس بنا کر اپنے حامیوں کو بھیجنا اور انہیں پاکستان کے اندر یا باہر ٹویٹر (ایکس) اور فیس بک پر پھیلانے کا مقصد ہی عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ دہشت گردی سے زیادہ اہم ان گروپوں کا فوکس آج کل سوشل میڈیا پر ہے اور اس سے وہ فوائد حاصل کرتے ہیں جو ان کا اصل مقصد ہوتا ہے۔
اب ذرا اندازہ کریں کہ ان دہشت گردوں کے سامنے ایک پورا ملک ہے‘ ایک پوری حکومت ہے‘ لاکھوں سکیورٹی اہلکار ہیں‘ادارے ہیں‘ وزیراعظم ہے‘ اس کے تیس سے زائد وزیر ہیں‘ صوبائی حکومت ہے جہاں مزید درجنوں وزرا ہیں‘ سب سے بڑھ کر ریاست کے پاس وسائل ہیں جو دہشت گردوں کے پاس نہیں ہو سکتے۔ ریاست کے پاس فورسز ہیں‘ کمانڈوز ہیں‘ ٹروپس ہیں‘ پولیس ہے‘ انٹیلی جنس کے ادارے ہیں‘ یہ سب مل کر دہشت گردوں کو پوری قوت کے ساتھ کچل سکتے ہیں۔ مان لیا آپ کو حملے سے پہلے پتا نہیں چلتا کیونکہ دہشت گرد اپنی مرضی سے اپنی جگہ‘ دن‘ وقت اور ٹارگٹ کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ انٹیلی جنس کی ڈیوٹی ہے کہ وہ ایسی منصوبہ بندی کے بارے میں جانکاری رکھے‘ خصوصاً جب آپ کو پتا ہے کہ بلوچستان گزشتہ دو ڈھائی دہائیوں سے دہشت گردی کی زد پر ہے۔ یہ ایک پیٹرن ہے جو بلوچستان میں دیکھا گیا۔ پہلے گیس پائپ لائنوں کو اڑایا گیا‘ پھر ریلوے لائنز کی باری آئی‘ پھر پنجاب آنے جانے والی بسوں کو روک کر مسافروں کے شناختی کارڈز چیک کر کے پنجابی‘ اردو اور سرائیکی سپیکنگ کو اتار کر گولیاں مارنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایران جانے والے زائرین کی بسوں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ سب کچھ ان علاقوں میں ہو رہا ہے جہاں سے سڑک یا ریلوے لائنز گزرتی ہیں۔ دھیرے دھیرے ہم نے دیکھا کہ یہ واقعات روٹین بنتے گئے۔ شروع میں ان کا کچھ اثر ہوا لیکن پھر جب دوسرا‘ تیسرا‘ چوتھا واقعہ ہوا تو یہ بھی خبیر پختونخوا میں دہشت گردی کی طرح نارمل خبر بنتی گئی۔ اس کے بعد بڑی خبر بنانے کے لیے دہشت گردوں نے زیادہ تعداد میں مسافر اتار کر مارنے شروع کر دیے۔ جو کچھ ٹرین ہائی جیکنگ میں ہوا‘ یہ کبھی نہ کبھی ہونا ہی تھا کیونکہ اب ان دہشت گردوں کو بڑی خبر چاہیے جو عالمی سطح پر سنی اور دیکھی جائے اور لوگوں کو لگے کہ پاکستان کا ایک بڑا علاقہ جل رہا ہے۔ مقصد دنیا کی توجہ حاصل کرنا تھا اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔
اس پوری انسانی ٹریجڈی میں ایک چیز مثبت ہوئی ہے کہ ان دہشت گردوں کے گروہ کو کہیں سے حمایت نہیں مل سکی۔ عالمی سطح پر بھی اس کو مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا کا کوئی بھی ملک اس طرح کی دہشت گردی کی حمایت نہیں کر سکتا۔ وہ ممالک‘ ممکن ہے جو پہلے ان دہشت گردوں کے انسانی مطالبات یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بات کو غور سے سنتے ہوں‘ اب ان گروپوں کی طرف سے بے گناہ شہریوں کو مارنے کو ان کا حق تسلیم نہیں کر سکتے۔ آپ جب اپنی تحریک میں معصوم انسانوں کو قتل کرتے ہیں اور ساتھ میں مظلومیت کا رونا بھی روتے ہیں کہ ہم پر ظلم ہو رہا ہے تو پھر آپ کو دنیا بھر میں کہیں سے بھی ہمدردی نہیں ملتی۔ کوئی ملک ایسی خونیں مثالوں کے ذریعے اپنے معاشرے میں اُن خطرناک عناصر کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتا جو اپنی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا سوچ رہے ہوں۔ اس لیے امریکہ ہو یا یورپ یا ایران یا دیگر ممالک‘ سب نے اس ٹرین ہائی جیکنگ میں قتل عام کی مذمت کی ہے اور چند ممالک نے تو پاکستان کو مدد کی پیشکش بھی کی۔ لیکن دوسری طرف ہمارے ادارے اور حکومت شکایت کرتے ہیں کہ انکے خلاف پروپیگنڈا شروع ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے جب آپ خود ہی ہر حملے کے بعد غائب ہو جائیں اور گھنٹوں تک آپ کا پتا ہی نہ چلے کہ آپ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں تو پھر عوام کہاں سے خبر کی ضرورت پوری کریں گے؟ اس طرح آپ خود ان دہشت گردوں کا کام آسان کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹرین ہائی جیکنگ کے بعد بھی یہی دیکھا گیا۔ آپ نے وہ سپیس خالی چھوڑ دی اور اس پر بی ایل اے کے حامی اکائونٹس نے فوراً قبضہ جما لیا اور اپنی مرضی کی خبریں اور کلپس چلانا شروع کر دیے۔ اس طرح انہوں نے ایک دہشت کا سماں باندھ دیا۔ لگتا تھا ریاست اور اسکے ادارے کہیں موجود ہی نہیں ہیں۔ کچھ محب وطن پاکستانی نوجوان اپنے تئیں سوشل میڈیا پر پاکستان اور ملکی اداروں کا دفاع کرنے میں لگے ہوئے تھے لیکن اگر ملک کی محبت سے لبریز نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے اداروں اور محاذ پر ڈٹے فوجی جوانوں کو سوشل میڈیا پر سپورٹ کرنا بھی چاہ رہی تھی تو نہیں کر پا رہی تھی کیونکہ ٹویٹر پاکستان میں بین ہے۔ اگر کچھ لوگوں کو وی پی این کا پتا ہے تو وہ بھی بین ہو چکا ہے۔ جبکہ جو اس ریاست اور اداروں کے دشمن ہیں‘ ان کے پاس تو اعلیٰ کوالٹی کے وی پی این موجود ہیں جو انہوں نے باقاعدہ خرید رکھے ہیں۔ انکے حامی پاکستان سے باہر بیٹھ کر اکائونٹس چلا رہے ہیں لہٰذا ٹویٹر بین ان پر اپلائی نہیں ہوتا۔ انہوں نے بیرونی محاذ سنبھالا ہوا ہے۔
اب ذرا اپنے بہادروں کا احوال سنیں: جناب وزیراعظم غائب‘ چار عدد وزیر داخلہ؍ مشیران غائب‘ وزیردفاع غائب اور سب سے بڑھ کر وزیر اطلاعات غائب۔ کچھ پتا نہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ جب آپ خود سارے غائب ہو جاتے ہیں تو پھر گلہ کس سے اور کیوں کرتے ہیں؟ آپ لوگ ڈرے ہوئے ہیں یا حکمتِ عملی کے تحت غائب ہوتے ہیں‘ جو بھی ہے‘ ایسے میں مخالفوں سے کیا گلہ اگر انہوں نے اپنا بیانیہ سوشل میڈیا پر پھیلا دیا۔ آپ لوگ حکومتی عہدوں کیساتھ جڑی بڑی بڑی مراعات‘ لش پش‘ عام لوگوں پر رعب ودبدبہ‘ ہٹو بچو‘ تنخواہیں‘ گاڑیاں‘ الائونسز اور پروٹوکول تو بھرپور انجوائے کرتے ہیں لیکن جب اسی قوم ‘ جس کے ٹیکس سے آپ کی عیاشیاں چلتی ہیں‘ پر جب کوئی خوفناک حملہ ہوتا ہے تو وزیراعظم سے لے کر وزراتک‘ سب غائب ہو جاتے ہیں۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ نہیں چلے گا۔ ویسے وزیر داخلہ محسن نقوی کدھر ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ تو ایک ایس ایچ او کی مار ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved