قوم کا چلن بدلنے پر آیا تو ایسا بدلا کہ جسے جو کام نہیں آتا یا جسے جس کام کے لیے رکھا نہ گیا ہو وہ اُسی کام میں مگن دکھائی دیتا ہے۔ اور جب اصل کام کرنے کا کہا جاتا ہے تو معاملہ آئیں بائیں شائیں کی منزل پر پہنچ کر دم توڑ دیتا ہے۔ ریلوے کا محکمہ بھی اِسی راہ پر گامزن ہے۔ جب ہر طرف کامیڈی کا بازار گرم ہے تو ریلوے والے بھلا کیوں پیچھے رہیں؟ محکمے کو چلانے کے نام پر مختلف سرگرمیوں کے ذریعے ریلوے والے کامیڈی کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ اب یہ اور بات ہے کہ لوگ اُن کی نیت کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں اور ریلوے والوں کی کامیڈی ان کی نظر میں ٹریجڈی ٹھہرتی ہے۔ ٹرین سے سفر کرنے والے ہمیشہ صرف شکایت کرتے پائے جاتے ہیں۔ اگر وہ سفر کے دوران ذہن کے گھوڑے دوڑایا کریں تو اپنی تکالیف بھول کر مختلف سرگرمیوں سے ایسے محظوظ ہوں گے کہ کچھ دیر کیلئے بڑے بڑے کامیڈین بھی اُن کے ذہن سے نکل جائیں گے! شُنید ہے کہ ریلوے اسٹیشنز پر تعیناتی کے لیے منگوائے جانے والے سُراغ رساں کتے ٹرائل میں پھر ناکام ہو گئے۔ ریلوے کی اعلیٰ انتظامیہ نے سامان اور ٹرین میں دھماکا خیز مواد کا سُراغ لگانے کے لیے 28 تربیت یافتہ کتوں کی ’’خدمات‘‘ کرائے پر حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جن لوگوں نے ٹینڈر جمع کرائے تھے اُن سے کہا گیا کہ اپنے اپنے کتے لیکر ٹرائل کے لیے پہنچیں۔ لاہور میں ٹرائل کے کوئی بھی کتا دھماکا خیز مواد کا سُراغ نہ لگاسکا۔ دو ماہ قبل بھی اسی نوعیت کے ٹرائلز ہوئے تھے جن میں حصہ لینے والے کتے بارودی مواد سُونگھنے سے زیادہ کتیائیں تلاش کرتے رہے اور اِس میں ناکامی پر ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کے مصداق بلیوں کے پیچھے بھاگتے رہے! ریلوے والے آخر تربیت یافتہ کتے بھرتی کرنے پر کیوں تُلے ہوئے ہیں؟ ریلوے میں اب ایسا کیا رہ گیا ہے جسے سُونگھ کر سُراغ لگایا جائے؟ پھر خیال آیا کہ سوال ریلوے کی کسی چیز کو سُونگھنے کا نہیں، مسافروں کے سامان کو سُونگھنے کا ہے۔ کرپشن اور ہڈ حرامی کا اندازہ لگانے کے لیے اب کسی اصلی، نسلی کتے کی ضرورت نہیں! ٹرین کی بوگیوں میں رات کو بلب نہیں جلتے تو مسافر اپنے دل نہ جلائیں۔ اُجالے کے لیے خسارہ کیا کم ہے جو اظہر من الشمس ہے! خبر حیرت انگیز لگتی ہے۔ ٹرائل کے لیے لائے جانے والے کتے تربیت یافتہ ہی تھے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تربیت یافتہ کتے دھماکا خیز مواد کا سُراغ لگانے میں ناکام رہیں؟ مرزا تنقید بیگ کو کتوں کی ناکامی پر ذرا بھی حیرت نہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ ریلوے کے محکمے میں اب کچھ بھی معیاری نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ٹرائل میں استعمال کیا جانے والا دھماکا خیز مواد بھی غیر معیاری ہو! ہم نے اعتراض کیا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ مرزا نے جھٹ جواب داغا۔ ’’ہو کیوں نہیں سکتا؟ جب ٹرین کا سربراہ یعنی انجن غیر معیاری ہوسکتا ہے تو پھر ٹرائل میں بارود بھی غیر معیاری ہوسکتا ہے۔‘‘ مرزا کی یہ بات ہم نے برداشت تو کرلی مگر ہضم نہ ہوسکی۔ مگر مرزا اپنی بات پر قائم رہے۔ ’’ہوسکتا ہے کہ ٹرائل کے لیے لائے جانے والے بارود میں بُو ہی نہ ہو اور ہم خواہ مخواہ کتوں کو نا اہل سمجھ رہے ہوں! ریلوے والوں کو دنیا بھر سے غیر معیاری چیزیں جمع کرنے کا شوق ہے۔ جب بھی ادارے کے لیے کچھ خریدنا ہوتا ہے تو بازار سے اچھی طرح چھانٹ کر ناقص اشیاء لائی جاتی ہیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ چلتے چلتے ٹرین اچانک کہیں ویرانے میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ جب تک خرابی دور نہیں ہو جاتی، مسافر بے چارے سہمے ہوئے رہتے ہیں کہ پتہ نہیں کب ڈکیتوں کا کوئی گروہ کہیں سے وارد ہو اور پوری ٹرین کو لوٹ کر چلتا بنے!‘‘ کتوں کے لیے مرزا کے دل میں نرم گوشہ دیکھ کر ہمیں حیرت تو کچھ خاص نہیں ہوئی مگر تھوڑا سا حسد ضرور ہوا۔ جی ہاں، کتوں سے! اگر مرزا ہمارے لیے بھی اپنے دل میں کچھ نرم گوشہ رکھتے تو کیا بات تھی! مگر خیر، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ہمیں ’’صفِ سگاں‘‘ میں نہ رکھنا چاہتے ہوں! مرزا کو اِس بات سے دُکھ پہنچا کہ ٹرائل میں ناکام ہو جانے پر کتوں کو ریلوے والوں نے ملازمت کے لیے گرین سگنل نہیں دیا۔ اُنہوں نے اِس نکتے پر زور دیا کہ کتوں نے بارود وارود ایک طرف ہٹاکر بلیوں کے پیچھے بھاگ کر اپنے فطری رجحانات کا اظہار کیا ہے۔ جو کسی بھی طرح کی پیشہ ورانہ تربیت پانے کے بعد بھی اپنی اصلیت یعنی جبلت و فطرت نہ بھولے ہوں اُن ’’اصیل‘‘ کتوں کو تو پہلی فرصت میں ریلوے کی ورک فورس کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ مرزا نے یہ آئیڈیا بھی پیش کیا کہ اگر کتے بارود سُونگھنے میں ناکام بھی رہے تو کچھ غم نہیں۔ چند ایک بندر اور بکرے بھی اپائنٹ کرکے اِن کتوں کو مسافروں کا دِل بہلانے والے کرتب دکھانے کیلئے بھی بروئے کار لایا جاسکتا تھا! مگر پھر یہ آئیڈیا اُنہوں نے خود ہی مسترد کردیا کیونکہ اِس کام کے لیے تو ڈائننگ کار کے ویٹرز اور وینڈرز موجود ہیں جو چلتی ٹرین میں جان ہتھیلی پر رکھ کر ایک بوگی سے دوسری بوگی میں داخل ہوتے ہیں اور مسافر دل تھام کر یہ مناظر دیکھتے رہتے ہیں! ہم نے سمجھایا کہ کتے جب ٹرائل میں یعنی اپنے کام میں ناکام ہوکر نا اہل ثابت ہوگئے تو اُنہیں نوکری کیوں کر دی جاسکتی تھی۔ مرزا کے پاس کوئی اور ہی دلیل تھی۔ بولے۔ ’’ریلوے میں بھرتی کا اُصول اب تک تو یہی رہا ہے کہ جسے کام نہ آتا ہو اُسے نوکری دی جائے! پورے محکمے کی کارکردگی اِس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جسے کام نہیں آتا اُسی کو نہ صرف ملازمت دی جاتی ہے بلکہ سَر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے! ٹرینیں چلیں نہ چلیں، یہ لوگ چلتے رہتے ہیں۔ اور اِنہی کے دم سے خسارہ بھی رواں دواں رہتا ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ایسا نہیں ہے۔ ریلوے میں کچھ کام کے لوگ بھی ہیں جن کے دم قدم سے یہ محکمہ جیسے تیسے چل رہا ہے۔ مرزا نے ہماری بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہی تو اِس دنیا کا اُصول ہے۔ جن کے بغیر کام چل ہی نہ سکتا ہو اُنہیں ضرور رکھا جاتا ہے۔ یہ دنیا چند ایماندار اور محنتی لوگوں ہی کے دم سے چل رہی ہے۔ ادارے مشترکہ گھرانوں کے اُصول پر کام کرتے ہیں۔ جس طرح کسی بھی بڑے گھر میں دو ایک افراد کام کرتے ہیں اور باقی ہڈ حرامی کے ریکارڈ توڑنے پر تُلے رہتے ہیں بالکل اُسی طرح کسی بھی ادارے کی گاڑی کو کھینچنے کے لیے چند ایک کام کے گدھے … معاف کرنا، میرا مطلب ہے بندے تو رکھے ہی جاتے ہیں۔ اور اِن سے وہی سلوک روا رکھا جاتا ہے جو بوجھ ڈھونے اور کھینچنے والے گدھوں سے روا رکھا جاتا ہے۔ اور پھر یہ بھی سوچو کہ جو ہستی اِتنی بڑی کائنات اور خود پاکستان کو چلا رہی ہے وہ کیا پاکستان ریلوے کو نہیں چلا سکتی!‘‘ بات کائنات کے خالق کی قُدرتِ کاملہ تک پہنچی تو ہمیں سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔ حق تو یہ ہے کہ ہمارے بیشتر قومی اداروں نے وجودِ باری تعالیٰ کا شہود منوانے کی قسم کھا رکھی ہے! ہم سب کا خالق چاہے تو کیا نہیں کرسکتا؟ وہی ہے جو ہمارے اداروں کو اُن کے کردہ و ناکردہ خسارے کے ساتھ بخوبی چلا رہا ہے! مرزا کا مشورہ ہے کہ پلیٹ فارم پر اور ٹرین میں مسافروں کا سامان سُونگھنے کے لیے ریلوے کے بعض انتہائی کرپٹ اعلیٰ افسران کی خدمات حاصل کی جانی چاہئیں۔ ہم نے حیران ہوکر توضیح چاہی تو مرزا نے یہ عظیم نکتہ ہمارے گوش گزار کیا۔ ’’بات یہ ہے بھائی کہ ریلوے کے کرپٹ افسران کی قوتِ شامّہ غضب کی ہے یعنی اِس نے ریلوے پر غضب ڈھایا ہے۔ ادارے میں جہاں کہیں معاملات درست ہوں اور چار پیسے کی آمدنی ہو رہی ہو، یہ فوراً بُو سُونگھ کر اُس شعبے پر شب خون مارتے ہیں اور اپنے مفاد کی ہڈّی لے اُڑتے ہیں!‘‘
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved