تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     14-03-2025

کہانی در کہانی

ہم پرانی طرز کے سیدھے سادے لوگ‘ ہمیں کبھی وی لاگ‘ سوشل میڈیا اور ایک سے دوسرے چینل پر یا ہر روز سکرینوں پر رہنے کی خواہش ہے نہ کبھی تھی۔ مرکزی دھارے کے اخباروں‘ رسالوں‘ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ساتھ پوری پیشہ ورانہ زندگی میں کنارے کنارے پر رہے ہیں۔ اخبار اور رسالے پڑھنے کا شوق کالج کے زمانے سے تھا‘ اور ابھی تک ہے۔ پہلا اخباری مضمون ایک سیاسی رسالے میں نصف صدی پہلے لکھا تھا۔ چار مختلف انگریزی اخباروں میں برسہا برس کالم لکھنے کے بعد اب ہماری زندگی کا آخری ٹھکانا ''دنیا‘‘ ہے‘ اور جب یہاں سے رخصتی ہو گی تو پھر کل وقتی کاشتکاری ہمارے انتظار میں ہے۔ عالمی اخباروں میں سے کم از کم ایک روزانہ دیکھتا ہوں‘ اور مغربی ٹیلی ویژن بھی اب تو ہمارے دیہات تک میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ نصف صدی پہلے جب پہلا مضمون شائع ہوا تھا‘ اسکے بعد سے میڈیا نہ جانے کیا سے کیا ہوگیا ہے۔ یہ صرف سوشل میڈیا کی بات نہیں بلکہ ہر نوع اور ہر طرز کے ذرائع ابلاغ اس میں شامل ہیں۔ ایک وقت تھا جب مغربی دنیا کے اخبارات‘ ریڈیو‘ رسالوں اور ٹیلی ویژن کا رعب اور دبدبہ ہمارے ذہن میں ہوا کرتا تھا۔ گمان ایسا تھا کہ سچ‘ صداقت اور انصاف کا یہی معیار ہے۔ دل میں یہ بھی خیال آتا کہ تب ہمارے اکلوتے ریڈیو اور اکلوتے ٹیلی ویژن پر صرف سرکاری خبرنامہ ہی کیوں‘ اور ان کی جانبداری ہمیں کیوں راس نہیں۔ یہ تو زندگی کی کچھ منزلیں طے کیں تو محسوس ہوا کہ جس سچائی اور غیر جانبداری کا تصور ہمارے کچے ذہن میں تھا‘ وہ ہماری مثالیت پسندی کا عکس تھا۔ لیکن یہ کہنا کہ پوری دنیا‘ مشرق ومغرب میں ہر طرف جھوٹ اور پروپیگنڈا کے سوا جدید میڈیا کی کوئی حیثیت نہیں‘ ایک ناانصافی ہو گی۔ بات غیر جانبداری کی ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں کوئی غیر جانبدار نہیں ہوتا اور نہ ہونے کی ضرورت ہے‘ مگر آپ کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں‘ وہ بات آپ کی شناخت کی بنیاد ہو گی۔ یہ ہمدردی یا جانبداری دھرتی‘ زمین‘ عوام‘ غریب‘ مظلوم‘ قومیت‘ نظریے‘ مذہب اور کسی سیاسی اور فکری تحریک سے ہو سکتی ہے۔ یہاں تک تو بات درست ہے‘ اور ہمیں ہر انسان کا حق تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ اس جھکائو کے مطابق اپنی رائے رکھے اور اس کا اظہار کرے۔
ہمارے اور مغربی میڈیا کا تب بھی اور اب بھی فرق یہ ہے کہ وہاں جگہ بنانے کیلئے اور اہلِ رائے ہونے کیلئے جس تعلیم‘ تجربے اور کچھ معاملات میں تحقیقی اور پیشہ ورانہ مہارت درکار ہے‘ آپ اس پر پورا اترتے ہوں۔ اس بارے ہمارے ہاں جگہ بنانے کے ذرائع البتہ مختلف ہیں‘ معیار الگ ہیں اور اسکی بنیادی اخلاقیات اور تقاضے بھی کچھ اور ہیں۔ اس سے زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ مغربی میڈیا میں سوال کرنے‘ جواب دینے‘ ماحول پیدا کرنے‘ مکالمے اور گفتگو کا ایک سلیقہ ہے‘ اسکے کچھ آداب اور حدیں ہیں۔ یہ بات میں مرکزی دھارے کے میڈیا کی کر رہا ہوں‘ لیکن کہنے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ صداقت اور سچائی کے امین ہیں۔ وہ ماضی میں بھی کبھی نہیں تھے۔ انہوں نے وہ مہارت زبان وکلام سے حاصل کی ہے کہ زہر کو بھی تریاق کے طور پر بیچ سکتے ہیں۔ نرم انداز‘ غیر جذباتی مزاج‘ الفاظ کا چنائو‘ ذاتی عدم وابستگی‘ معروضیت اور حقائق کا حوالہ انہیں معتبر بناتا ہے۔ اور بھی بہت سی خصوصیات ہیں جن سے وہ انسانی نفسیات کا کھیل کھیل کر اپنی پیغام رسانی کو مؤثر بناتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک مقصد کے تحت ہوتا ہے‘ جسے آپ ایجنڈا کہتے ہیں‘ کہ کون سا ایشو نکھارنا اور ابھارنا ہے‘ اور کسے کنارے پر رکھنا ہے یا سرے سے ہی بات نہیں کرنی۔ ایک بات ذہن میں رہے کہ جدید سرمایہ دارانہ صنعتی دور میں میڈیا طاقتور صنعتی معیشت اور اس کیساتھ جڑی سیاست اور غالب طبقات کے ہاتھ میں ایک طاقتور ہتھیار رہا ہے۔ عالمی اور قومی نظام کو قائم رکھنے اور غلبے کیلئے اخلاقی‘ نظریاتی اور سیاسی جائزیت پیدا کرنے کیلئے انکے اسلحہ خانہ میں اور بھی سازو سامان ہے‘ مگر میڈیا سے مؤثر کوئی اور نہیں۔
جب ایک بہت بڑی نظریاتی جنگ اشتراکی اور سرمایہ دار ملکوں کے درمیان لڑی جا رہی تھی تو دونوں جانب سے ہمارے ماضی کے نو آبادیاتی ممالک ان کا میدانِ جنگ تھے۔ کاش وہ سارے رسالے‘ کتابیں اور پوسٹر جو دونوں جانب سے ہمارے جامعہ پنجاب کے زمانے میں ٹکوں بھائو بکتے‘ بلکہ مفت تقسیم ہوتے تھے‘ ہم انہیں محفوظ کر پاتے۔ ہمارے دانشور‘ صحافی‘ ادیب‘ شاعر اور نوجوان سب تقسیم تھے۔ اکثر نے یہ جنگ ایک دوسرے کو لاٹھیاں‘ اینٹیں اور بدقسمتی سے گولیاں مار کر بھی لڑی۔ انہیںسیاسی جماعتوں کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔ ہمیں جب رموزِ ابلاغِ عامہ سے واقفیت ہوئی تو کنارہ کشی کے علاوہ اور کیا راستہ ہو سکتا تھا‘ لیکن کنارے پر رہ کر ہم نے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے ڈرامے خوب دیکھے۔ خیر اس کا بھی ایک اپنا مزہ تھا۔ مغربی میڈیا کا یوں تو امریکہ میں پہلے مہینوں میں قدم رکھتے ہی پتا چل گیا تھا کہ حکمران طبقات کے مفاد میں میڈیا کے ساتھ ساتھ ثقافت اور خاص طور پر ہالی وُڈ کی فلموں کا کیا کردار ہے۔ یہ بات بھی کھل گئی کہ کرۂ ارض کے ہمارے حصے کے لوگوں کی تہذیب‘ معاشرے اور تاریخ کو کس رنگ میں پڑھا‘ لکھا اور پڑھایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے انگریز بادشاہ جو کچھ ہمارے بارے میں لکھ گئے‘ وہ آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے‘ مگر آنکھوں کے ساتھ بصارت بھی درکار ہے۔ پھر دیکھا کہ عربوں‘ فلسطینیوں‘ افریقیوں اور اپنے ہی وطن میں سیاہ فام لوگوں کے بارے میں کیسے عجیب وغریب تصورات رائج ہیں۔ لیکن اس میں بھی ایک سلیقہ تھا کہ جیسے بات کر بھی دیں اور ایسے لگے کہ کچھ کہا بھی نہیں۔ ایسا اعتماد‘ بے نیازی اور خوش کلامی کہ بندے کو خود یقین آ جائے‘ کہ ہم غلام رہے تو کمزوری تو ہم میں تھی۔ جو مشرقیت کو سمجھتے اور جانتے ہیں‘ صرف وہی اس کی فریب کاری سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس کا جادوئی اثر اتنا زیادہ ہے اور دوسری طرف مشرقیت کے رد میں ہماری فکری استعداد اور اس کے رد میں کام اتنا کمزور کہ آج تک ہمارے دانشور صرف مغلیہ سلطنت کے زوال کو لتاڑ رہے ہیں۔
آج کے دور کے مغربی‘ مشرقی اور خصوصاً دیسی میڈیا پر گفتگو‘ مکالمے اور زبان وکلام کو دیکھتا ہوں تو دل چاہتا ہے کہ کنارہ کشی اختیار کر کے دریائے سندھ کے کنارے ایک جھونپڑی بنا کر بیٹھ رہیں۔ ہر طرف شور‘ جھوٹ‘ فریب کاری‘ بداخلاقی‘ بدتہذیبی اور باہمی نفرت کی چھاپ سے دکھ ہوتا ہے۔ کم از کم کچھ آداب اور کچھ انسانی اقدار کا لحاظ تو ہو‘ باقی آپ جانیں اور آپ کی لسانی‘ سماجی اور سیاسی وفاداریاں۔ اب نظریات کی بات ہی نہیں رہی کہ انتشار کی کیفیت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کا حملہ‘ اس کے ڈرائیور کی شہادت کی (جھوٹی) خبر‘ یرغمالیوں کی حالتِ زار اور ٹرین پر موجود سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتوں سے دل بہت بوجھل رہا۔ اس کیفیت میں اپنے فیس بک اکائونٹ پر بہت دیر تک نظریں گاڑے رکھیں کہ عام لوگ کیا کہہ رہے ہیں‘ کیا لکھ اور شیئر کر رہے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ اپنے ہی زخم پر ٹکور کرنا پڑی۔ سو خیال آیا کہ اتنے لوگوں کے لیے دوستی کا دروازہ ہی کیوں کھلا رکھا‘ لیکن کبھی یہ احساس اتنا نہ تھا کہ ہمارے عام لوگوں کے رویے کتنے بدل چکے ہیں کہ جھوٹ‘ نفرت انگیزی‘ لسانی تعصب اور بے بنیاد خبریں پھیلانے میں سب حدیں عبور کر لی جائیں گی۔
سوچ رہا ہوں کہ ہر طرز کے میڈیا سے جہاں برسوں جان چھڑائے رکھی‘ اب کیا مصیبت پڑی تھی کہ اکائونٹ کھول لیا۔ درست ہے کہ تائید کرتا ہوں کہ ہر کسی کو اپنی بات کہنے کا حق ہے‘ لیکن دوسروں کی رائے کا احترام بھی ضروری ہے۔ مگر یہ تو کھیل ہی کچھ اور ہے۔ ایسا لگا کہ کچھ احمق اپنے ہی گھر کو لگی آگ دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ ٹھٹھا‘ مذاق کر رہے تھے اور اُسی درخت کی شاخ کو کاٹ رہے تھے جس پر وہ بیٹھے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے بندروں کے ہاتھ میں استرا تھما دیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved