جب صدرِ امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نوحے لکھ لکھ کر انگلیاں خاک ہوئیں‘ ساتھ ہی حکمِ ساحر آ گیا۔ جادو کی چھڑی اُلٹی گھماؤ‘ صدر بہادر کے نوحے‘ قصیدے میں بدل دو۔ خاندانِ غلاماں نے فوراً قصیدے پڑھناشروع کر دیے۔ طرح مصرع یہ تھا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کا شکریہ ادا کر دیا۔ لب و لہجہ ایسا اپنایا گیا کہ لوگ سمجھیں کوئی دن آتا ہے جب صدر ٹرمپ سر کے بَل چل کر ہمارے نظام کی کورنش بجا لانے کے لیے تڑپ کر پہنچیں گے۔ اس سے اگلا قصیدہ تھا کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے صدر صاحب کی پیروی میں ایک اور Thank You دے مارا۔ جس پر راج دربار نے خیالات کے سرپٹ گھوڑے دوڑا دیے اور ساتھ امریکہ سے اپنے قریبی ذاتی تعلقات کے نغماتی دریا بھی بہا ڈالے۔ لیکن اس دوران ٹرمپ نے 9/11 کے بعد شروع ہونے والے نیو ورلڈ آرڈر کو بدل کر رکھ دیا۔ اس کے متبادل کے طور پر صدرِ امریکہ نے ''ٹرمپ آرڈر‘‘ کا نفاذ شروع کر رکھا ہے۔ اس کے ہاں سے سابق نوحہ گروں اور حال مرثیہ گو لشکروں کے دل کے ساتھ ایسا کھیل کھیلا گیا کہ غلاموں کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے۔ اس کھیل کے دو ایکٹ برسرِ دیوارِ گریہ کندہ ہیں۔ اگر کوئی ساون کا اندھا ہر طرف ہریالی کے رنگ کی عینک پہن کر جشنِ نو بہار نہیں منا رہا‘ تو یہ دونوں حیران کن سرپرائز اسے ضرور نظر آ سکتے ہیں۔
امریکی صدرٹرمپ کا پہلا سرپرائز: یہ سرپرائز صرف پاکستان کے مخصوص طبقے تک ہی محدود نہیں بلکہ لاطینی امریکہ سے شروع کرکے اندرونی افریقہ تک اور شرق و غرب کے ان تمام ملکوں کے لیے حصہ بقدرِ جثہ کے اصول پر بنایا گیا جن کا اپنا نہ کوئی پروڈکشن پلان ہے‘ نہ اکنامک تھیوری۔ اس قبیل کے ممالک ٹرمپ سرپرائز کی سونامی کی زد میں ہیں جن کے گزر‘ گزران کا واحد سہارا امریکی امداد‘ اقوامِ متحدہ کی امداد‘ کلائمیٹ چینج کی مد میں ملنے والی امداد‘ عالمی مالیاتی فنڈ‘ عالمی بینک اور امریکہ کے ٹیکس پیئرز کی جیبوں پر چلنے والا ادھاریہ نظام ہے‘ جس کو سیاسیات کے مغربی ماہرین نے Elite Captureکا نام دے رکھا ہے۔ اب یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی کہ آئے روز پاکستان کے بڑے بڑے منیجرز قوم کو تین خوشخبریاں مسلسل سناتے پائے جاتے ہیں۔ پہلی خوشخبری: چین نے پاکستان کو دیا گیا قرض رول اوور کردیا۔ رول اوور کا مطلب ہے قرض ایک سال اور آگے چلا گیا جس کے اوپر قرض دینے والے ملک کا سود ہمارے اوپر ڈبل ہو گیا۔ یہ ریٹ آف انٹرسٹ کمپاؤنڈ ہے۔ کمپاؤنڈ کا مطلب عوامی زبان میں شیطان کی آنت ہے۔ دوسری خوشخبری یہ سنائی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف مزید قرضہ دینے کے لیے نئی شرائط ''پیش‘‘ کرنے پر راضی ہو گیا۔ تیسری خوشخبری: مشرقِ وسطیٰ کے فلاں فلاں شیخ اور کمپنیاں پاکستان میں زرعی زمین لیز پر حاصل کرنے کے لیے پاکستان پہنچ گئے۔ لیز کا ریٹ آپ پہلے ہی میڈیا میں دیکھ چکے ہیں‘ مبینہ طور پر15پیسے فی کنال۔ الحذر! اے چیرہ دستاں۔ اس ساری مشق کا سادہ نتیجہ یہ ہے کہ نہ ہم نے ترقی کی عالمی دوڑ میں شرکت کرنی ہے‘ نہ ہی ملک کے اندر اپنی انڈسٹری کو چلانا ہے اور نہ ہی ہم نے جدید تقاضوں کے مطابق نئے خون کو سسٹم میں لاکر اسے پڑوسی ملکوں کے مقابلے میں کھڑا کرنا ہے۔
77 سال سے پاکستان میں فنِ قرض خوری کے ماہرین کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بزرگو ! آپ کو دیر ہو گئی ہے۔ صدر ٹرمپ کے نیو ورلڈ آرڈر کا آرٹیکل نمبر وَن کہتا ہے کہ ہمیں دنیا کے تمام ملکوں نے لوٹ کر کھایا ہے۔ اس کا مخاطب لیبیا‘ یمن‘ عراق‘ شام‘ ایران یا فلسطین نہیں بلکہ ہم جیسے ممالک ہیں‘ جو قرض لیتے ہیں اور کابینہ میں وزیروں کی تعداد بڑھانے پر اسے خرچ کر دیتے ہیں۔ جو قرض کے پیسوں سے دنیا کے مہنگے ترین ماڈل کی بُلٹ پروف اور بم پروف گاڑیاں منگواتے ہیں۔ جدید ترین برانڈ کے کپڑے پہنتے ہیں۔ جو قرض ہزاروں بلبوں کے زور سے روشن ہونے والے بڑے بڑے عشرت کدے اور راہداریاں روشن کرنے پر لگا دیتے ہیں۔ یہ ایلیٹ مافیا اسلام آباد کے انڈسٹریل ایریا میں کوئی فیکٹری نہیں لگنے دیتا‘ لیکن اربوں روپے سے انڈر پاس ضرور بناتا ہے۔ انڈر پاس سے یاد آیا کہ لاہوری گروپ کے سرکاری ملازموں نے اسلام آباد میں تمام انڈر پاس 'ڈونگی کھوہی‘ کی طرز پر بنائے ہیں۔ پاکستان کی بیورو کریسی کے حساس حلقے‘ جو قومی وسائل کی اس مارا ماری سے بیزار ہو چکے ہیں‘ وہ قرض کے پیسوں سے بننے والے پراجیکٹ کو Cash-Crop کہتے ہیں‘ یعنی فوراً نقدی دینے والی فصل۔ اس ہاتھ سے کمیشن لو دوسرے ہاتھ سے اسے ڈالر‘ یورو‘ پاؤنڈ سٹرلِنگ‘ ریال و درہم والے دور دیس بینکوں میں جمع کروا دو۔ بزرگو! یاد رکھو اب صدر ٹرمپ ہر ملک سے امریکہ کے خرچ کیے ہوئے پیسے واپس مانگنا شروع ہو گیا ہے۔ یوکرین اس کی محض اوّلین مثال ہے‘ آخری نہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کا دوسرا سرپرائز: ادھر اپنے ہاں سرکاری ڈھولچی اَج تے ہو گئی ٹرمپ ٹرمپ جیسی طرز پر ناچ رہے تھے‘ اُدھر ٹرمپ ایڈمنسٹریشن پاکستانیوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کا مسودہ تیار کر چکی تھی۔ پھر ایک لِٹمس ٹیسٹ کیس سامنے آ گیا۔ پاکستان کے بڑے مشہور سفارت کار جن کی شہرت امریکہ تک پہنچی ہوئی تھی‘ وہ لاس اینجلس ایئر پورٹ پر جا اُترے۔ سفیرکے لینڈ کرتے ہی امریکی امیگریشن کے افسران نے ڈِپلومیٹک تاریخ کا نیا ریکارڈ بنایا۔ سفارت کار کو حکم دیا کہGo Back, your entry is refused۔ وزارتِ خارجہ کے ارسطوؤں نے اس دورے کو مزید مشکوک بنانے کے لیے بیان جاری کردیا کہ پاکستانی سفارت کار کا یہ دورہ سرکاری نہیں بلکہ نجی تھا۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ میں پاکستان کی ڈپلومیٹک موجودگی پروٹوکول کی حد تک محض علامتی باقی رہ گئی ہے۔ ورنہ اس قدر رسوائی اس سے پہلے نہ ہماری تاریخ میں موجود ہے‘ نہ ہی امریکی تاریخ میں۔ امریکہ میں ٹرمپ کے نیچے ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ ہمارے بزرگ ارسطوؤں کو ٹرمپ انتظامیہ کے ماسٹر پلان سمجھنے میں دیر ہو گئی۔ اس پلان کو ٹیکساس کے کاؤ بوائے کی زبان میں You loot we shootکہتے ہیں۔ پاکستان ایک عظیم ملک‘ بے باک قوم‘ ذہین یوتھ‘ مگر پالیسی ایسی جو بے سمت‘ کنفیوزڈ اور بزدلانہ ہے۔ ورنہ پاکستان میں امریکی سفیر کو کم از کم ڈی مارش تو بنتا ہے۔ اپنے لوگوں سے نوسربازی‘ چال بازی‘ زور آزمائی اور دوسروں کے سامنے لام سے لَم لیٹ۔ کسی نے کہا بے یقینی کا یہی عالم رہا تو رمضان کے بعد شیطان بھی مغربی ملک کی امیگریشن لے لے گا۔ بقول شاعر:
مرگ بر شیطانِ اعظم مرگ بر
تیرے حُسنِ مکر آلود کی خیر ہو
تیری کوری بے پلک آنکھوں سے ٹپکے
انتہائی رازداری سے سفیدی خون کی
اور ڈرامائی ترا لہجہ بَلا کی انکساری‘ غمگساری
پھر بھی سب کچھ کاروباری طرز پر
چال تیری جس طرح کوئی پرانا ساحر بے نورِ چشم
اس پہ طرہ یہ کہ اپنے آپ میں بینائی کل بن رہا ہو
لمس چمگادڑ کا؍اور اپنائیت بچھو کی دم
رنگ گرگٹ سے بھی کتنے ہاتھ آگے
مرگ برشیطانِ اعظم مرگ بر؍تیری کالی طاقتوں کی خیر ہو!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved