ڈونلڈ ٹرمپ نے جب سے بطور امریکی صدر دوسری بار اختیارات سنبھالے ہیں‘ یورپی یونین کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ امریکی صدر کی طرف سے اپنے یورپی اتحادیوں کو اعتماد میں لیے بغیر گزشتہ تین برس سے جاری یوکرین روس جنگ کو بند کرنے کے اعلانات ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ نے پہلے ہی اس ارادے کا اعلان کر دیا تھا مگر حلف اٹھانے کے بعد سے وہ تیزی سے اپنے اس اعلان پر عمل درآمد کیلئے کوشاں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے یوکرین کی فوجی امداد پر پابندی عائد کر دی ہے اور اس کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ بھی ختم کر دی ہے۔ انٹیلی جنس شیئرنگ پر پابندی روس کے خلاف لڑنے والی یوکرینی افواج کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے کیونکہ یوکرینی افواج عسکری امداد پر امریکی پابندی کے باوجود پہلے سے ذخیرہ کیے ہوئے ہتھیاروں کے ساتھ لڑائی جاری رکھ سکتی ہیں مگر خفیہ معلومات کی عدم دستیابی سے ان کی منصوبہ بندی متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ اور ان کے اہم مشیروں کی طرف سے نیٹو سے امریکہ کی علیحدگی کے حق میں بھی بیانات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے امریکی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں اس بنیادی تبدیلی نے یورپی رہنماؤں کی نیندیں حرام کر دی ہیں کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکہ کی دفاعی ڈھال‘ نیٹو کے سائے میں سکون اور اطمینان سے ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ان کے ذہنوں میں یہ سوچ عقیدے کی طرح راسخ ہو چکی تھی کہ یورپی ممالک کو جب بھی بیرونی جارحیت سے خطرہ لاحق ہو گا تو امریکہ ان کی مدد کو آن پہنچے گا۔ نیٹو معاہدے کی دفعہ پانچ اس یقین دہانی کی طرف واضح اشارہ ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر Jeffrey D Sachs جیسے دانشوروں کی رائے میں یورپ کو ٹرمپ کے ہاتھوں جس پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی ذمہ داری یورپی ممالک پر ہی عائد ہوتی ہے۔ گزشتہ آٹھ دہائیوں سے یورپ امریکہ کے سہارے چلا آ رہا ہے۔ یورپی ممالک کے درمیان کسی اندرونی اور بیرونی مسئلے پر اتحاد نہیں۔ یورپ کی کوئی متفقہ خارجہ پالیسی نہیں رہی بلکہ ہر عالمی اور علاقائی مسئلے پر امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے اور معاہدۂ وارسا کے تحلیل ہونے کے بعد مشرقی یورپی ممالک اور سوویت یونین سے علیحدگی کا اعلان کرنے والی ریاستوں کو نیٹو میں شامل کرنے کے امریکی منصوبے کی مکمل حمایت ہے۔ پروفیسر جیفری ساکس کے مطابق معاہدۂ وارسا کے انہدام اور سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد یورپ کو نیٹو سے خود علیحدہ ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ سرد جنگ کے بعد نیٹو کے وجود کا کوئی جواز باقی نہیں رہا تھا۔ یہ موقع تھا کہ یورپ آنکھیں بند کرکے امریکہ کے پیچھے چلنے کے بجائے آزاد خارجہ پالیسی اپناتا اور عالمی امور پر ایک آواز کے ساتھ بولتا مگر ایک عرصے سے عالمی سیاست میں یورپ کی کوئی یکساں آواز نہیں ہے۔ آخری دفعہ یورپ نے جس اہم مسئلے پر امریکہ سے اختلاف کیا تھا وہ 2003ء میں عراق پر حملہ تھا۔ اس سے قبل صدر ڈیگال نے مشرقِ وسطیٰ اور ویتنام کی جنگ پر امریکی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے جنوب مشرقی ایشیا کے دفاعی معاہدے سیٹو کے اخراجات میں فرانس کے حصے کی ادائیگی بند کر دی تھی لیکن 2004ء میں مشرقی یورپ اور سابقہ سوویت ریاستوں پر مشتمل سات ملکوں کے ایک گروپ کی نیٹو میں شمولیت کے بعد یورپ نے ہر مہم جوئی میں بغیر کسی تامل کے امریکہ کا ساتھ دینے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے حالانکہ پروفیسر ساکس کے مطابق یورپی ممالک متحد ہو کر کسی مسئلے پر آواز اٹھائیں تو وہ نہ صرف اپنے دفاع اور ترقی بلکہ عالمی امور میں بھی زیادہ مؤثر اور مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کو ایک حکومتی تبدیلی نہیں بلکہ ایک سیاسی اور سماجی انقلاب سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور جن شعبوں میں اس کے گہرے اثرات پڑنے کا امکانات ہیں‘ ان میں خارجہ پالیسی سرفہرست ہے۔ یورپی ممالک نے امریکہ میں اس زلزلہ خیز تبدیلی کو اپنے لیے ایک ویک اَپ کال کا نام دیا ہے۔ امریکی انتخابی نتائج کے اگلے ہی روز ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپسٹ میں یورپین پولیٹکل کمیونٹی کا سربراہی اجلاس بلایا گیا تھا جس میں اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 42 سربراہانِ مملکت شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں یورپی یونین کو درپیش دیگر مسائل بھی زیر بحث آئے مگر امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیابی اور اس کی روشنی میں مستقبل کے یورپ امریکہ تعلقات پر خصوصی طور پر بحث کی گئی۔ اجلاس میں شریک یورپی کمیشن کی سربراہ Ursula von der Leyen نے کہا تھا کہ امریکہ میں ٹرمپ کی کامیابی نے یورپ کو ایک فیصلہ کن موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے زور دیا تھا کہ یورپ کہ اب امریکہ پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی سلامتی اور تحفظ کے معاملات میں آزادانہ پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ اجلاس کے تمام شرکا کی رائے تھی کہ یورپ کو اس چیلنج کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنا چاہیے۔ 28 فروری کو وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں امریکی صدر اور نائب صدر کی یوکرینی صدر زیلنسکی کے ساتھ تلخ کلامی اور اس کے فوراً بعد یوکرین کیلئے امریکی فوجی امداد کی معطلی اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے خاتمے نے جو تشویشناک صورتحال پیدا کی اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرنے کیلئے پیرس میں ہنگامی کانفرنس بلائی گئی جس میں یوکرین کے صدر زیلنسکی کیساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یورپی ملکوں نے جنگ بندی تک یوکرین کو فوجی امداد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ برطانیہ اور فرانس نے یوکرین میں جنگ بندی اور امن کے حصول کیلئے چار نکات پر مشتمل ایک فریم ورک پیکیج بھی پیش کیا۔ اس پیکیج میں شامل دو تجاویز خاص طور پر اہم ہیں۔ امن کے قیام پر یوکرین کو آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سالمیت کیلئے ضمانتیں دی جائیں اور اس مقصد کیلئے برطانیہ اور فرانس اور دیگر ممالک کے فوجی دستے یوکرین میں تعینات کیے جائیں۔ لیکن روس نے یوکرین میں برطانیہ‘ فرانس یا کسی بھی جانبدار اور نیٹو کے رکن ملک کے فوجی دستوں کو تعینات کرنے کی تجویز کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
ان اقدامات کے باوجود بیشتر مبصرین کی متفقہ رائے ہے کہ تمام یورپی ممالک مل کر بھی یوکرین کیلئے امریکہ کی فوجی امداد کا متبادل پیش نہیں کر سکتے۔ اسلئے یورپی یونین اور برطانیہ یوکرین میں جنگ بندی کیلئے امریکہ کو آن بورڈ لینا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ایک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے کیونکہ سعودی عرب میں امریکہ اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کے بعد امریکہ نے یوکرین کیلئے فوجی امداد کی بحال پر رضا مندی ظاہر کی ہے‘ تاہم یورپ کو اپنے مستقبل کے بارے میں جو خدشات اور فکر ہے اس کا ازالہ ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ ماہرین کے مطابق اگر امریکہ نیٹو سے الگ ہو جاتا یا اس دفاعی معاہدے کو تحلیل کر دیا جاتا ہے تو یورپ متحد نہیں رہے گا۔ اسلئے یورپی ممالک خصوصاً برطانیہ کی شدید خواہش ہے کہ نیٹو اور امریکہ‘ یورپ اتحاد قائم رہے لیکن اگر ٹرمپ اس انتہائی اقدام پر آ جاتے ہیں تو یورپ کیلئے اور کوئی آپشن نہیں رہے گا‘ ماسوائے یہ کہ وہ روس کیساتھ قریبی تعلقات قائم کرے‘ چین کیساتھ تعلقات قائم کرکے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل ہو جائے اور دنیا میں معدنیات اور خام اشیا کے سب سے بڑے سٹور ہاؤس افریقہ میں چین کیساتھ مل کر سرمایہ کاری کرے۔ ٹرمپ کے پالیسی اعلانات نے یورپ میں عالمی سیاست میں امریکہ سے الگ اپنا مقام بنانے کی ضرورت کا شدید احساس پیدا کیا ہے اور جرمنی اور فرانس نے جنوب مشرقی ایشیا‘ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے کی کوششیں شروع بھی کر دی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکہ کو ایک دفعہ پھر عظیم بنانے کی پالیسی کے نتیجے میں ایک نیا یورپ وجود میں آئے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved