تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     14-03-2025

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں دارا نام کا ایک شخص ہوا کرتا تھا جس نے ایک تباہ حال معاشرے میں ترقی کی منازل طے کیں۔ وہ کسی خوشحال یا دولت مند گھرانے میں پیدا نہیں ہوا تھا اور نہ ہی کسی اثر و رسوخ کا حامل تھا۔ وہ ایک اصولی آدمی تھا جو اپنی حکمت‘ شفاف ماضی اور انصاف پسندی کے لیے جانا جاتا تھا۔ لوگوں کو اس پر بہت اعتماد تھا۔ بدعنوانی اور سیاسی کشمکش سے متاثرہ سرزمین میں وہ امید کی ایک کرن کی مانند تھا۔ ان اوصاف کی بنا پر اس کے اقتدار میں آنے کی نہ صرف توقع تھی بلکہ تبدیلی کے خواہشمندوں کی طرف سے اس کا مطالبہ بھی کیا جا رہا تھا۔
ملکِ عجم کی جس قوم پر حکومت کے لیے دارا کو چنا گیا تھا‘ اس نے اچھے دن دیکھ رکھے تھے۔ اس کی حکومت کی تین شاخیں‘ مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ کا مقصد ایک دوسرے پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا تھا۔ پھر بھی اس نے دیکھا کہ اس کے ملک میں ہر شاخ پر الو بیٹھا تھا یعنی ہر ادارہ کرپٹ ہو چکا تھا۔ مقننہ‘ جو کبھی قانون سازی کا ایک عظیم ادارہ تھا‘ اب ایک بازار بن چکا تھا جہاں قوانین کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ عدلیہ‘ جو انصاف کا گڑھ ہونی چاہیے تھی‘ من پسند فیصلوں کے لیے وہاں باقاعدہ نیلامی ہوا کرتی تھی۔ انتظامیہ‘ جس کا مقصد قیادت اور عوام کی حفاظت کرنا تھا‘ ایک کٹھ پتلی بن چکی تھی جس کا کنٹرول پس پردہ ایک مخصوص طبقے کے ہاتھ میں تھا۔
جب دارا اقتدار میں آیا تو اس نے اپنے ملک میں توازن بحال کرنے کا عہد کیا۔ اس کا خیال تھا کہ بے مثال قوتِ ارادی اور اخلاقی جرأت کے ساتھ انتہائی کرپٹ نظام کو درست کیا جا سکتا ہے۔ اس کا وژن ہر شاخ یعنی ہر ادارے کی حالت کو درست کرنا‘ سرکاری اہلکاروں کو جوابدہ بنانا اور ایک شفاف حکومت قائم کرنا تھا جو عوام کی بہبود کیلئے کام کرے۔ اس کی تقاریر سڑکوں پر گونجتی تھیں اور اس کے وعدوں نے شہریوں کے دلوں میں ایسی امید جگائی تھی جو انہوں نے برسوں میں محسوس نہیں کی تھی۔
دارا نے سب سے پہلے مقننہ سے نمٹنا شروع کیا‘ جہاں طاقتور سیاستدان سودوں پر پھل پھول رہے تھے جس سے ان کی ذاتی دولت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس نے شفافیت کا ایک نیا معیار قائم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اصلاحات کا ایک سلسلہ متعارف کرایا لیکن جلد ہی اسے اس بات کا ادراک ہو گیا کہ طاقت کی اپنی زبان ہوتی ہے اور مقننہ میں وہ زبان دولت تھی۔ اپنی اصلاحات کو آگے بڑھانے کی کوشش میں دارا نے مقننہ کے اندر قابلِ اعتماد مشیروں پر انحصار کیا لیکن ان مشیروں کو جلد ہی مزید پُرکشش ترغیبات کی پیشکش مل گئی۔ رشوت‘ اثر و رسوخ اور عیش و عشرت کے وعدے ان کے وحشیانہ خوابوں سے بھی زیادہ طاقتورتھے‘ یوں وہ جو دارا کے اتحادی مانے جاتے تھے اس کے خلاف ہو گئے۔ ایسے قوانین جن کا مقصد حکومت میں شفافیت لانا تھا‘ کو ذیلی کمیٹیوں میں دفن کر دیا گیا۔ دارا نے خود کو بے اثر پایا اور اس کا آئیڈیلزم ان لوگوں کی لالچ کی نذر ہو گیا جنہوں نے طویل عرصے سے عوامی خدمت کے تصور کو ترک کر دیا تھا۔ مقننہ نے دارا کی ان کوششوں کا مذاق اڑایا۔
مقننہ سے مایوس ہو کر دارا نے اپنی توجہ عدلیہ کی طرف مبذول کی لیکن عدلیہ کی بھی اپنی قیمت تھی۔ جج‘ جو کبھی فضیلت کا ستون سمجھے جاتے تھے‘ اُن لوگوں کی دولت سے موٹے ہو چکے تھے جو اپنی مرضی کے فیصلوں کے خواہاں تھے۔ قانون بذاتِ خود ایک خراب چیز تھی جس کی تشکیل انصاف کی اصولوں سے نہیں ہوئی تھی بلکہ سب سے زیادہ بولی لگانے والے نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔ دارا نے نئے اور نیک ججوں کی تقرری کرنے کی کوشش کی۔ وہ افراد جنہوں نے دیانتداری کی زندگی گزاری تھی‘ انہوں نے عدالتوں کی تشکیلِ نو کی اور فوری انصاف کی فراہمی کی کوشش کی‘ تاہم پرانے ججوں نے دولت اور اپنے اثر و رسوخ سے دارا کی تقرریوں کو روکا‘ اس کے فیصلوں کو چیلنج کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کے اقتدار کو چیلنج کرنے والے مقدمات کبھی بھی عدالتوں میں نہ پہنچ سکیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ دارا کے مقرر کردہ جج بھی اس استحصالی نظام میں حصہ دار بن گئے اور من پسند فیصلوں کے بدلے رشوت لینے لگے۔ جیسے ہی نئے ججوں نے کرپٹ نظام انصاف کی حمایت کی‘ دارا کا منصفانہ قانونی نظام کا خواب بھی چکنا چور ہو گیا۔
آخر کار دارا انتظامیہ کی طرف متوجہ ہوا‘ جہاں اس نے سب سے زیادہ کنٹرول حاصل کیا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر وہ انتظامیہ کو کرپشن سے پاک کر سکے‘ تو ریاست کے دوسرے ستون بھی اس سے رہنمائی حاصل کر سکیں گے لیکن انتظامیہ بھی لالچ میں مبتلا تھی۔ اس کی انتظامیہ میں موجود بیورو کریٹس اقتدار اور منافع کے بھوکے تھے۔ انہوں نے دارا کو ایک اصلاحی رہنما کے طور پر نہیں بلکہ ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھا۔ اپنی حکومت کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد دارا اصلاح ان کوششوں میں تنہا کھڑا تھا۔ مقننہ سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو قوانین بیچتی رہی‘ عدلیہ ایک کرپٹ ادارے کے طور پر کام کرتی رہی اور انتظامیہ افراتفری کا شکار ہو گئی۔ وہ لوگ جو کبھی دارا کی پشت پر کھڑے تھے‘ پلٹنے لگے۔ وہ ان وعدوں سے تھک چکے تھے جو کبھی پورے نہ ہوئے۔ سڑکوں پر احتجاج ہونے لگے‘ نہ صرف بدعنوانوں کے خلاف بلکہ خود دارا کے خلاف۔ اس نے تبدیلی کا وعدہ کیا تھا لیکن لوگوں نے دیکھا کہ دارا کرپٹ طاقتوں پر قابو پانے کے قابل نہیں تھا۔دارا ناکام ہو چکا تھا۔ اگرچہ اس کے پاس بہت طاقت تھی لیکن وہ ہر شعبے میں گھسی ہوئی بدعنوانی کا مقابلہ نہیں کر سکا تھا‘ وہ بدعنوانی جس نے کئی نسلوں کو اپنے سحر میں لے رکھا تھا۔ اب دارا امید کی نہیں بلکہ ناکامی کی علامت بن گیا تھا۔ اس نے جتنی زیادہ جدوجہد کی‘ اتنا ہی نظام اس سے پلٹ کر لڑا اور وہ لوگ جو اب تک اس کے ساتھ کھڑے تھے‘ آہستہ آہستہ مایوسی کا شکار ہوتے گئے۔ آخر میں دارا صرف ایک ایسا سیاستدان بن گیا جس نے دوسرے سیاستدانوں کی طرح تبدیلی کا وعدہ کیا تھا لیکن عملاً کچھ بھی نہیں کیا۔
دارا کا زوال شروع ہو چکا تھا جو بہت تیز تھا۔ انتظامیہ کے اندر موجود عہدیداروں نے اس کے خلاف خاموش بغاوت کی اور نااہلی کا جواز بنا کر اسے اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ مقننہ اور عدلیہ نے بھی اس کی اصلاح کی کوششوں سے تنگ آکر اسے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس کی برطرفی کا جشن بند دروازوں کے پیچھے ان لوگوں نے منایا جن کا اس نے احتساب کرنا چاہا تھا۔ اب وہ انتقام کے خوف کے بغیر اپنا استحصالی دھندہ جاری رکھنے کے لیے آزاد تھے۔ دارا پیچھے ہٹ گیا۔ ایک ایسا شخص‘ جو اس نظام سے ٹوٹا ہوا تھا‘ جس کے بارے میں یقین تھا کہ وہ اسے ٹھیک کر سکتا ہے‘ وہ پیچھے ہٹ گیا۔ برسوں بعد جب لوگ دارا کے بارے میں بات کرتے تو وہ اس کی تعریف نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے لیے رحمدلی کا اظہار کرتے تھے۔ اسے ایک ایسے شخص کے طور پر یاد کیا جاتا تھا جو تبدیلی کے امکان پر یقین رکھتا تھا لیکن اسے ایک ایسے نظام نے نگل لیا جو بہت طاقتور اور اتنا کرپٹ تھا کہ کوئی اس کے خلاف لڑنے کے قابل نہیں تھا ۔ دارا کی کہانی نہ ختم ہونے والے لالچ کے سامنے محدود طاقت کی ایک مثال بن گئی۔ یہ کہانی ان لوگوں کو سنائی گئی جو اس کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے تھے۔
آخر میں دارا کے زوال نے ملکِ عجم کے لوگوں کے لیے ایک سوال کھڑا کیا کہ کیا واقعی ایک آدمی‘ چاہے کتنا ہی طاقتور یا اصولی کیوں نہ ہو‘ ہوس‘ لالچ اور بدعنوانی پر قائم نظام کو تبدیل کر سکتا ہے؟ یا اس مقصد کے لیے ایک منظم عوامی پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved