پاکستانی قوم کے طور پر ہمارا ماضی کوئی ایسا درخشاں تو نہیں ہے مگر یہ جوہر معاملے میں پاکستان کو مطعون کرنے کا فیشن سا بن گیا ہے وہ بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ آج کل ہمارا ملک انتہائی پیچیدہ مسائل میں گھرا ہوا ہے لہٰذا کوئی کچھ بھی کہہ لے کسی کے پاس اس کی تردید کرنے کا بھی وقت نہیں ہوتا۔ نتیجتاً لوگ انتہائی بے بنیاد قسم کی باتوں کو بھی حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔مثال کے طور پر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بارے میں بعض لوگ بے جھجک کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان یہ سترہ روزہ جنگ ہار گیا تھا مگر جذبہ حب الوطنی کے تحت ہم 6ستمبر کو یوم دفاع مناتے ہیں۔ یہ درست بات ہے کہ کچھ درسی کتب میں ماضی کے مصنفین نے اس پاک بھارت جنگ میں پاکستان کا پلڑا کچھ زیادہ ہی بھاری کردیا تھا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ جنگ پاکستان نے کسی طور بھی ہاری نہیں تھی بلکہ اپنے سے کئی گنا بڑے ملک کے پاک سرزمین کے خلاف جنگی عزائم کو خاک میں ملادیا تھا۔ 1965ء میں جس طرح یہ قوم جاگی اور پھر ہماری افواج نے بہادری کی جو داستانیں رقم کیں‘ ابھی تک اس کے بہت سے عینی شاہد زندہ ہیں‘ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہوئی کہ پھر 1971ء آگیا اور پھر اس قوم پر ایسی افسردگی چھائی کہ 1965ء میں دکھائی دینے والی قومی یکجہتی دور سے دور تر ہوتی چلی گئی۔ عمرانیات کے ماہر کہتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میں اچھے لمحات بھی آتے ہیں اور برے بھی لیکن زندہ قومیں برے لمحات سے سبق سیکھتی ہیں جبکہ اچھے لمحات بھی فراموش نہیں ہونے دیتیں مگر ہماری قوم تاحال ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کر سکی؛ بلکہ ملامتی طبقہ کی طرح اپنے آپ کو ہی بُرا بھلا کہا جاتا ہے۔ میں جب بھی 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے سترہ دنوں کو یاد کرتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ جنگ ستمبر سے تین برس پہلے 1962ء میں ہونے والی بھارت اور چین کی جنگ کا زمانہ یاد آتا ہے۔ وطن عزیز کے اخباروں میں چین کے ہاتھوں بھارت کی پٹائی کی خبریں شائع ہوتی تھیں۔ کارٹون چھپتے تھے۔ ریڈیو پر خبروں میں محاذ جنگ پربھارتی فوجیوں کی پسپائی کا احوال سنائی دیتا تھا۔ اس تمام صورتحال میں پاکستانیوں کے دلوں میں بھارتی فوج کی حیثیت ایک شکست خوردہ فوج کی بن چکی تھی۔ جنگ ختم ہوئی اور بھارت دنیا بھر میں رسوا ہوا۔ اس کے بعد ہم سنتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کشمیر پر مذاکرات کررہے ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو جبکہ بھارت کے وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ تھے۔ یہ مذاکرات بہت عرصے تک جاری رہے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ غالباً انہی مذاکرات کے نتیجے میں اس دور کے ہمارے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ سمجھ لیا تھا کہ بھارت گفت و شنید محض وقت گزارنے کے لیے کررہا ہے اور کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اس کے بعد ہی آپریشن جبرالٹر کا منصوبہ بنا جس کے تحت کشمیر کے متنازعہ علاقے میں بہانے سے ہماری افواج داخل ہوئیں۔ وہاں دبائو بڑھا تو بھارت نے 6ستمبر کو پاکستان کی سرحد پر باقاعدہ حملہ کردیا۔ بھارت کی فوجوں کے کمانڈر انچیف جنرل چودھری کا یہ بیان سامنے آیا‘ جس میں انہوں نے لاہور پر حملے کا حکم دیتے وقت اپنے افسروں سے کہا تھا کہ شام کو لاہور کے جم خانہ میں فتح کے جام پئیں گے۔بھارت نے لاہور پر قبضے کی ایک جعلی فلم بھی بنائی تھی جو بی بی سی پر نشر ہوئی تو بعد میں بی بی سی کو معذرت کرنا پڑی۔ہمارے فوجیوں نے جس دلیری سے لاہور کا دفاع کیا وہ یقینا ہماری تاریخ کا سنہری باب ہے۔ میجر عزیز بھٹی شہید نشانِ حیدر کی شہادت لاہور ہی کے محاذ پر ہوئی تھی۔ اس وقت پاکستانی قوم میں کوئی جذبہ تھا! سجان اللہ! سترہ دن جنگ جاری رہی۔ ان سترہ دنوں میں اخباری رپورٹوں کے مطابق چوری چکاری جیسے جرائم بالکل نہیں ہوئے۔ سول آبادی ہر دم فوجیوں کی خدمت کے لیے کوشاں رہی۔ فوجی ہاتھ جوڑ جوڑ کر شہریوں کو محاذ سے واپس بھیجتے اور کہتے کہ جب ہم زندہ ہیں تو ہم دشمن کو ہرگز آگے آنے نہ دیں گے۔ آپ لوگ اپنے گھروں کو جائیں۔ریڈیو پر ملّی اور جنگی ترانے ساری قوم کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ شکیل احمد کی خبریں سن کر ہی طبیعت خوش ہوجاتی تھی۔ ہماری فضائیہ نے بھارتی ائرفورس کا بھرکس نکال دیا تھا اور ایم ایم عالم نے اپنے سیبر جیٹ طیارے کے ذریعے بھارت کے پانچ جنگی طیارے محض ایک منٹ میں تباہ کردیے تھے جن میں سے پہلے چار طیارے آدھے منٹ میں تباہ ہوئے۔ یہ اب تک ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ اسی طرح ہماری بحریہ نے بھارت میںبحری اڈہ ’’دوار کا ‘‘ تباہ کردیا تھا۔ میں جتنا اس دور کے بارے میں سوچتا جاتا ہوں باتیں یاد آتی جاتی ہیں۔بھارت 1965ء میں بھی پاکستان سے چارگنا سے بھی زیادہ بڑا ملک تھا۔ اس ملک کی فوج ہماری فوج سے کہیں زیادہ تھی۔ لیکن ہماری فوج نے اور ہماری قوم نے بھارت کے عزائم خاک میں ملادیے تھے اور فتح کس کو کہتے ہیں؟ اب برسوں بعد مین میخ نکال کر 1965ء کی ہماری بے مثال فوجی کارکردگی اور قومی یکجہتی کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ زندہ قوموں کا شیوہ نہیں ہے۔ 1965ء میں جس طرح ہماری قوم دشمن کے خلاف یکجا ہوکر سیسہ پلائی دیوار بن گئی تھی آج بھی ہمیں ویسی ہی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ ہمیں تبصروں اور تجزیوں کی ضرورت نہیں۔ حقیقت کی دنیا میں تبصروں اور تجزیوں کی حیثیت خرافات کی سی ہوتی ہے۔ ہمیں بھی خرافات میں الجھنے سے بچنا چاہیے اور یہ جان کر یکجا ہونا چاہیے کہ جس طرح 1965ء میں ہم متحد ہوئے تھے‘آج بھی متحد ہوسکتے ہیں۔اتنی اچھی سوچ کے بعد جب میں اِدھر اُدھر نظر دوڑاتا ہوں اور انتشار پھیلاتی آوازیں سنتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اتحاد اور یکجہتی کی یہ آرزو شاید آرزو ہی رہے گی۔اللہ ہماری مدد فرمائے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved