''ہمارا کھیل ایک طرف لیکن پچیس کروڑ کی آبادی میں‘ کیا کوئی ایک صاحبِ ایمان نہیں تھا جس کی دعا قبول ہوتی؟‘‘
چیمپئنز ٹرافی میں شکستِ فاش کے بعد‘ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں سے منسوب یہ فرضی جملہ سوشل میڈیا پر گردش کرتا رہا۔ ازراہِ تفنن کہی گئی یہ بات اپنی اندر بڑی معنویت رکھتی ہے۔ بھارت کے خلاف میچ میں بالخصوص‘ پوری قوم جس طرح سراپا دعا بن جاتی ہے‘ ہم اس سے واقف ہیں۔ اسی بات کو مزید وسعت دیں تو عالمِ اسلام تک جا پہنچتی ہے۔ غزہ میں ٹوٹنے والی قیامت پر دو ارب سے زیادہ مسلمان شب وروز‘ اسرائیل کی بربادی کی دعا کرتے رہے۔ ان دعاؤں کی بظاہرکوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ دستِ قاتل کو روکنے کے لیے کوئی دستِ غیب نمودار نہیں ہوا۔ سوال وہی ہے: کیا اربوں مسلمانوں میں کوئی ایک مستجاب الدعوات نہیں ہے؟
یہ بات خلافِ عقل ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ زمین خدا کے نیک بندوں سے خالی ہو گئی ہو‘ بلکہ کئی صدیوں سے خالی چلی آ رہی ہو۔ ایک مدت سے اجتماعی سطح پر ہماری کوئی دعا قبول نہیں ہوئی۔ فلسطین میں ظلم جاری ہے۔ کشمیر سلگ رہا ہے۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ جو خدا کے وجود ہی کے منکر ہیں‘ زمین کے خزانے ان کے پاس ہیں۔ ہم صاحبانِ ایمان ان منکرین کی دریوزہ گری پہ مجبور ہیں۔ وہ قرض بھی دیں تو ہمارا سر احساسِ تشکر کے بوجھ سے جھکتا چلا جاتا ہے۔ خوشامد ہماری خارجہ پالیسی کا اصول الاصول بن چکی ہے۔ ہماری دعائیں اس ذلت سے نجات میں مددگار ثابت نہیں ہو رہیں۔
اس کا کوئی قرینہ نہیں کہ خدا کی رحمت کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ اس نے اپنی جو صفات سب سے زیادہ بیان کی ہیں وہ 'الرحمٰن‘ اور 'الرحیم‘ ہیں۔ الرحمٰن سے مراد وہ ہستی ہے جس کی رحمت بے کنار ہے۔ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ الرحیم کا مطلب یہ ہے کہ اس کی رحمت میں استمرار اور دوام ہے۔ جس ذات نے اپنا تعارف ہی یہ کرایا ہے کہ اس کی رحمت دائمی اور مسلسل ہے‘ اس کے بارے میں یہ گمان کیسے کیا جا سکتا ہے کہ اس کی رحمت کا باب بند ہو گیا ہے؟ سوال وہی ہے کہ اس بے پناہ اور مسلسل رحمت کے ہوتے ہوئے ہماری دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟
واقعہ یہ ہے کہ دعا کے بارے میں ہمیں چند غلط فہمیاں لاحق ہیں۔ اگر ان کا ازالہ ہو جائے تو یہ سوال کبھی پیدا نہ ہو۔ پھر فتح کی دعا اور شکست میں ایک ربط تلاش کرنا ممکن ہو جائے۔ پھر دعا کی بظاہر عدم قبولیت کے باوجود مایوسی نہ ہو۔ پھر ہمیں یہ گمان نہ ہو کہ خدا کی بارگاہ میں ہماری کوئی شنوائی نہیں۔ دعا کے باب میں یہ واضح ہے کہ اس کا تعلق گناہ گار اور بے گناہ ہونے سے نہیں۔ وہ سب کی سنتا ہے اور بعض اوقات گناہ گار کی طرف زیادہ مائل بہ کرم ہوتا ہے۔
دعا کیا ہے؟ یہ ہمارے عقیدے کا اظہار ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہمیں صرف اُس ہستی سے مانگنا ہے جوپروردگارِ عالم ہے۔ جو مختارِ کل اور قادرِ مطلق ہو نے کے ساتھ حکیم اور عادل بھی ہے۔ خدا کو قادرِ مطلق ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قدرت بے پایاں ہے۔ کوئی شے اس سے باہر نہیں۔ اس کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی حرکت نہیں کر سکتا۔ وہ اسباب کا پابند نہیں۔ 'ناممکن‘ کا لفظ اس کی لغت میں نہیں ہے۔ زمان ومکان اس کی گرفت میں ہیں۔ ہم اس سے مانگتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ کہ وہ ہماری خواہشات کو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ وہ دلوں کے بھید سے واقف ہے۔ اس لیے یہ بات بھی محال ہے کہ ہماری بات کا ابلاغ نہ ہو۔ ہماری دعا خلا کی وسعت میں کہیں کھو گئی ہو اور اس تک نہ پہنچ سکی ہو۔ یہ خارج از امکان ہے۔
قادرِ مطلق ہونے کے ساتھ وہ حکیم بھی ہے۔ ہم کوئی خواہش کرتے ہیں تو اس سے واقف نہیں ہوتے کہ اس کی تکمیل میں ہمارے لیے خیر ہے یا شر۔ وہ مستقبل اور غیب کی خبر رکھتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہم جو شے طلب کر رہے ہوں اور اسے اپنے لیے مفید سمجھ رہے ہوں‘ وہ مضر ہو۔ اگر ہماری طلب کے باوجود‘ وہ ہمیں کسی شے سے محروم رکھتا ہے تو اس نے یہ فیصلہ کسی حکمت کے پیشِ نظر ہی کیا ہے۔ قرآن مجید میں موسیٰؑ و خضر کے قصے سے اس بات کو پوری طرح واضح کر دیا گیا ہے۔ پھر یہ کہ دنیا اس نے امتحان کے لیے بنائی ہے۔ یہ صبر کا امتحان ہے اور شکر کا بھی۔ دعا کی قبولیت شکر اور عدم قبولیت صبر کا امتحان ہے۔ یہ معاملات اس کے قانونِ آزمائش کے تابع ہیں جو اس کی حکمت ہی کا ظہور ہے۔
اس حکمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کی بارگاہ میں کئی لوگ بیک وقت دعاگو ہوتے ہیں اور وہ سب کی سنتا ہے۔ دعاؤں کی قبولیت اور عدم قبولیت کا فیصلہ کرتے وقت‘ اس کی نگاہ سب پر ہوتی ہے۔ گرمی کے موسم میں ایک آسودہ حال شخص جس وقت بارش کی دعا مانگ رہا ہوتا ہے‘ اسی لمحے ایک کسان اس کی بارگاہ میں درخواست گزار ہوتا ہے کہ وہ بارش کو ٹال دے تاکہ اس کی فصل پک سکے اور اسے بھی آسودگی ملے۔ ان دو متضاد خواہشوں کی تکمیل اس کی حکمت کے تابع ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک مجیب الدعوات ہستی اگر حکیم نہ ہو تو یہ نظمِ کائنات انسانی خواہشات کے تضادات کی نذر ہو کر درہم برہم ہو جائے۔ اس کا حکیم ہونا بھی اس کی رحمت ہی کا تسلسل ہے۔
وہ قادرِ مطلق اور حکیم ہی نہیں‘ عادل بھی ہے۔ اس کا عدل یہ ہے کہ وہ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔ اس نے نظامِ کائنات کو اپنی سنن کے تابع رکھا ہے جنہیں وہ تبدیل نہیں کرتا‘ اگرچہ وہ اس پر قادر ہے کہ جب چاہے انہیں بدل ڈالے۔ انبیاء ورسل کے معاملے میں وہ انہیں بدلتا بھی رہا ہے۔ تاہم اس کا عمومی قانون یہی ہے کہ اس کی سنت تبدیل نہیں ہوتی۔ اسی کو ہم قانونِ قدرت کہتے ہیں۔ اگر ایک کرکٹ ٹیم محنت کرتی ہے تو اس کی سنت کا تقاضا ہے کہ اسے محنت کا اجر ملے۔ اگر ہم دعا کریں کہ بغیر یا کم محنت کے‘ وہ ہمیں اُس ٹیم پر فتح دے دے جس نے شب وروز محنت کی ہے تو ہماری فتح اس کی سنت کے خلاف ہو گی اور صفتِ عدل کے بھی۔
اگر یہ سب باتیں سامنے ہوں تو ہم جان سکتے ہیں کہ دعا کی عدم قبولیت کا سوال ہی نہیں ہے۔ یہ ممکنات میں سے نہیں ہے کہ دعا سنی نہ گئی ہو۔ اگر ہم اس شعور کے ساتھ مانگیں گے تو ہمیں کبھی مایوسی نہیں ہو گی۔ پھر یہ سوال پیدا نہیں ہو گا کہ وہ ہماری سنتا نہیں ہے۔ پھر یہ بات بھی ہماری سمجھ میں آ جائے گی کہ عالمِ اسلام کی دعا اہلِ فلسطین کے حق میں کیوں قبول نہیں ہوتی یا پاکستان کی کرکٹ ٹیم پچیس کروڑ کی دعا کے باوجود کیوں ہار جا تی ہے۔ بحیثیت مسلمان یہ ہمارے عقیدے کا تقاضا ہے کہ نتائج سے بے نیاز‘ صرف اپنے رب سے مانگیں۔ یہاں تک کہ جوتے کے لیے تسمہ چاہیے تو بھی اپنے رب کی طرف رجوع کریں۔ اور یہ بھی کہ جب بندے کی دعا قبول نہیں ہوتی اور وہ بتقاضائے بشریت یا اس کے حکمت سے بے خبر ہونے کے سبب‘ اس پر افسردہ ہوتا ہے تو اس کا پروردگار اس افسردگی کا مداوا کرتا ہے۔ کوئی دوسری نعمت دے کر‘ کوئی مصیبت ٹال کر یا آخرت میں اجر سے نواز کر۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved