تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     17-03-2025

کیا تھے‘ کیا ہو گئے

وہ امید کا زمانہ تھا‘ روشن خیالی کی درخشاں صبحیں‘ رنگین شامیں‘ شخصی اور قومی اعتماد کسی بھی ترقی پذیر ریاست سے کم نہ تھا۔ اگرچہ ہمیں سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے سے دوچار ہونا پڑا اور اس کے بعد بھی اقتدار کی کرسی جن کے قبضے میں آئی‘ یا دے دی گئی‘ ہماری آنکھوں کی چمک ماند نہ پڑ سکی۔ میری نسل کے لوگ ماضی سے آگے کی سوچ رکھتے تھے۔ بڑے دلوں اورکھلے دماغوں کے لوگوں کی غالب اکثریت‘ نظریاتی کشیدگی کہیں کہیں نظر آتی مگر اس پر بات بھی ہوتی‘ کتابیں پڑھی جاتیں‘ تبصرے ہوتے اور نظریاتی مکالمہ جاندار ہوا کرتا تھا۔ ہماری شناخت تب اُن غیر عرب ممالک میں ہوتی تھی جن میں ایران‘ ترکی اور افغانستان شامل تھے۔ تب نہ ایران میں انقلاب آیا تھا اور نہ ہی افغانستان میں آخری بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ ان کے اپنے چچا زاد بھائی نے الٹا تھا۔ دنیا بھر کے سیاحوں کا رُخ اس خطے کے ان چار ممالک کی طرف تھا۔ یہاں کی سماجی فضا کھلی تھی‘ اس میں شدت پسندی یا لسانی تعصبات نے ابھی تک جگہ نہیں بنائی تھی۔ اپنی زندگی میں اگر ترقی‘ خوشحالی اور آزادی کے اعتبار سے کوئی سنہری دور تھا تو وہ ایوب خان کا دور تھا۔ سیاسی آزادیاں محدود‘ مگر موجود تھیں۔ فکری اور تخلیقی منظر نامہ بڑے شہروں خصوصاً لاہور میں شعر وادب‘ ادبی مجلسیں‘ شاعروں اور ہر نوع کے رسائل اور ڈائجسٹ کی صورت دیکھا۔ وہ سیاسی کشمکش کے دور میں بھی جاری رہا جس کا آغاز بھٹو صاحب کے اقتدار سنبھالتے ہی ہو چکا تھا۔ ان کے اقتدار کے ابتدائی سال یا کچھ اس سے زیادہ کے سیاسی ماحول میں قومی جذبہ پُرامید نظر آتا تھا۔ ہماری نسل کے لوگوں کا ان پر اندھا اعتقاد تھا کہ وہی ایک لیڈر ہیں جو ملک کو آگے لے جا سکتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں دیگر سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما عوام‘ نوجوانوں اور اہلِ دانش کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ کوئی ان کے قد کاٹھ کا دکھائی نہیں دیتا تھا۔
سب کی نظریں بھٹوصاحب کی طرف تھیں کہ وہ کیا کہتے‘ کیا فیصلے کرتے اور کیا اصلاحات لاتے ہیں۔ غریب طبقات میں انہوں نے سیاسی شعور بیدار کیا۔ ایوب مخالف تحریک سے لے کر 1970ء کی انتخابی مہم تک‘ انہوں نے ملک کے کونے کونے میں جلسوں سے خطاب کرکے ملک میں سیاسی بیداری پیدا کی۔ ایک عرصہ تک میں بطور متحرک طالب علم‘ کالج کے زمانے میں ان کے مخالفین میں شامل تھا لیکن ان کے حامی قریبی دوست تھے‘ جو اَب بھی ہیں۔ ہمارے درمیان بحث ہوتی۔ اشتراکیت‘ اسلامی نظریات‘ سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ساتھ علم وادب پر مجالس منعقد ہوتیں۔ اس زمانے میں ایک بھی ایسا واقعہ مجھے یاد نہیں کہ جب ہماے کالج کے طلبہ ایک دوسرے سے الجھے ہوں۔ باہر کے لوگوں کی بات اور ہے۔ جب کشیدگی بڑھی تو بھٹو صاحب کے حامیوں اور مخالفوں میں پنجاب کے کئی شہروں میں لڑائی جھگڑے ہوئے اور پھر بدقسمتی سے ان کا یہ سلسلہ تب تک تھم نہ پایا جب تک وہ اقتدار میں رہے۔ اس کی ابتدا انتخابی مہم کے دوران ہو چکی تھی‘ خصوصاً جماعت اسلامی اور اس کے جوانوں کی تنظیم‘ اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ ٹکرائو ہوتا۔ اس کے باوجود ملاقاتوں اور بات چیت کے دروازے کھلے رہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جس قومی یکجہتی کی ضرورت تھی وہ پہلے دو سالوں میں ہمیں نظر آئی۔ بھٹو صاحب کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مایوس قوم کی روح میں نیا جذبہ پیدا کیا‘ نئے پاکستان کی بات کر کے تعمیرِ نو کے لیے جوش وجذبہ بڑھایا۔ سب سے بڑی بات کہ صرف ڈیرھ سال میں ایک متفقہ آئین منظور کروا کے قوم کی سیاسی سمت واضح کر دی۔
لیکن صنعتوں کو قومیانے اور تمام بینکوں کو سرکاری تحویل میں لینے سے ہماری معاشی مشکلات اتنی بڑھیں کہ اب اس کی تفصیل بیان کریں تو شاید آپ کو ناقابلِ یقین لگے۔ سرکاری لوگ‘ جن میں اب جیالوں کی فوج بھرتی ہو چکی تھی‘ صنعتوں کو کیا چلاتے‘ دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بند ہونا شروع ہو گیا۔ سیاسی وابستگیوں کا سہارا لے کر بینکوں پر قرضوں کا ایسا ڈاکا ڈالا کہ وہ بیٹھ گئے۔ چینی‘ آٹا اور گھی بلیک میں فروخت ہوتے۔ سرکاری راشن ڈپو جیالوں کے نام پر تھے۔ ان سب کے باوجود آگے بڑھنے کے جذبات ٹھنڈے نہیں پڑے تھے۔
بھٹو صاحب کے قصیدہ گوئوں کی بھی کمی نہ تھی‘ اور نہ ریاستی وسائل کی‘ جن کے زور پر انہیں ''فخرِ ایشیا‘‘ اور ''عظیم عوامی رہنما‘‘ جیسے خطاب سے نوازا جاتا۔ مگر یہ سب کچھ مصنوعی بھی نہیں تھا۔ میں نے بطور طالب علم جامعہ پنجاب‘ بھٹو صاحب کو اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک تقریب میں قریب سے دیکھا۔ اس زمانے میں میرا شمار ایک ترقی پسند تنظیم کے اراکین میں ہوتا تھا جس کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ خالص‘ اصلی اور انقلابی اشتراکیت پر یقین رکھتی تھی۔ میں کوئی لیڈر نہیں‘ ایک عام کارکن تھا اور وہ دور بھی تعلیم مکمل ہوتے ہی ختم ہو گیا۔ بھٹو صاحب نے لاہور کے دانشوروں‘ عالم فاضل لوگوں اور اعلیٰ طبقات سے تعلق رکھنے والوں سے جامعہ پنجاب کے فیصل آڈیٹوریم میں خطاب کیا۔ ہماری تنظیم کے لوگ بھی جمع تھے اور ہم دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے لیکن چپ کر کے راہداریوں میں بھٹوصاحب کی تقریر سننے بیٹھ گئے۔ پہلے بھی ایک دو مرتبہ لاہور میں ان کے عوامی جلسوں میں شرکت کر چکا تھا لیکن یہاں ایک مختلف نوعیت کا اجتماع تھا‘ اور انگریزی میں تقریر کا رنگ ہی کچھ اور تھا۔
آزاد فضا کا وہ دور بھٹو صاحب کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی تمام ہوا۔ بہت باتیں ہیں جو اُن کے دورِ اقتدار کے خلاف لکھی جا چکی ہیں اور آج بھی ان کے مخالفین کی کمی نہیں۔ ہم نے ایوب خان سے آج تک کے تمام ادوار کے نئے اور پرانے سیاسی قائدین کو دیکھا‘ سنا اور بار بار اقتدار میں آتے دیکھا ہے۔ میرے خیال میں قائداعظم محمد علی جناح کے بعد ذوالفقار علی بھٹو جیسا قابل‘ ذہین اور مدبر ہماری سیاست میں نہیں آیا۔ کئی لوگ اُن کی شخصیت میں تضادات دیکھتے ہیں اور کئی تاریخی واقعات ایسے ہیں جن سے ان کے کردار کے بارے آرا بدل جاتی ہیں‘ تاہم وہ اپنے دور کے عالمی رہنمائوں کی صف میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ قومی اور عالمی سیاست کے اسرار ورموز پر جو انہیں عبور حاصل تھا‘ وہ بعد کے زمانوں میں ہم نے کسی میں نہ دیکھا۔ بے شک اُن کے مزاج میں سخت گیری تھی اور سیاسی مخالفین کے لیے نرم گوشہ بھی تنگ تھا‘ مگر بادشاہانہ انداز ہمارے کلچر کا ہمیشہ سے حصہ رہا ہے۔
اُس دور میں کچھ ایسے عجیب وغریب واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے اُن کے ذہن میں سازشوں اور سازشیوں کے بارے میں تشویش بڑھ گئی۔ یہ شاید ہماری تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ لاہور میں پنجاب پولیس ہڑتال پر چلی گئی۔ اور بھی واقعات ہیں۔ کشمکش تو رہی مگر حالات وہ کبھی نہ تھے جو بعد کے ادوار میں پیدا ہوئے‘ جن کے ہم عینی شاہد ہیں اور جن کے اثرات آج بھی اپنے معاشروں میں عدم برداشت‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی صورت دیکھ رہے ہیں۔ شعروادب‘ ثقافتی رنگ اور سیاسی اختلاف اور رواداری کی روایات بھٹو دور تک پرانی طاقت کے ساتھ برقرار رہیں۔ فلمیں بنتیں‘ سینما گھروں میں رونق ہوتی‘ ادبی محفلوں میں نامور لوگ رونق افروز ہوتے اور فن اور فنکاروں کی باتیں ہوتیں۔ آج معاشرتی مکالمے کا رنگ ہی کچھ اور ہے‘ اور اس کے بارے میں کچھ کہنا یا لکھنا خطرے سے خالی نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved