تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     18-03-2025

بلوچستان خود احتسابی! جناب! خود احتسابی!

''فہمِ تناسب‘‘ کیا ہوتا ہے؟ فرنگی اسے sense of proportion کہتے ہیں! یعنی کسی معاملے کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھنا! عمل اور سوچ میں کسی ایک طرف کو جھک نہ جانا! آپ کا بیٹا اگر راہِ راست سے ہٹ رہا ہے تو صرف زجر وتوبیخ سے‘ صرف سرزنش سے اور صرف ڈانٹ ڈپٹ سے کام اور بگڑ جائے گا۔ ساتھ ہی نرمی اور ملائمت کو بھی بروئے کار لانا ہو گا! یہ انیسویں صدی کے وسط کی بات ہے۔ کسی انگریزی اخبار میں ایک کارٹون چھپا۔ یہ گدھوں کی دوڑ کا مقابلہ تھا۔ گدھے پر جو سوار تھا اس نے خاردار چھڑی کے سرے پر گاجر لٹکائی ہوئی تھی۔ گدھے کو تیز دوڑانے کے لیے وہ اسے چھڑی سے مارتا تھا اور خوش رکھنے کے لیے گاجر دکھاتا تھا۔ یہیں سے محاورہ بنا: Carrot and stick۔
ایک روایت یہ ہے کہ اس محاورے کو سیاسی تلازمے کے طور پر سب سے پہلے چرچل نے 1938ء میں ایک خط میں استعمال کیا۔
ہماری بہادر مسلح افواج دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ جانوں کی قربانی دی جا رہی ہے۔ ہمارے بیٹے شہید ہو رہے ہیں۔ ماؤں کے حوصلے جوان ہیں مگر آنکھیں چھلک بھی رہی ہیں۔ بچے یتیم ہو رہے ہیں لیکن عزم میں کمی نہیں۔ وہ کمانڈو جو بنوں میں زخمی ہوا‘ اسے جب ٹرین کے اغوا کا علم ہوا تو سب کے منع کرنے کے باوجود اپنے دیگر ساتھیوں سے جا ملا جو ٹرین کے اغوا کنندگان سے مقابلہ کر رہے تھے۔ پارلیمنٹ سے لے کر کابینہ تک اور وفاق سے لے کر صوبوں تک‘ سب دہشت گردوں کے خلاف یک زبان ہیں۔ قومی اسمبلی میں اس حوالے سے جو قرارداد پاس کی گئی اس میں تحریک انصاف سمیت تمام جماعتیں شامل تھیں۔ جو دہشت گرد ملکی سالمیت پر حملہ کریں اور پاکستانیوں کو قتل کریں ان کا علاج صرف اور صرف تلوار ہے۔ مگر کیا صرف تلوار کافی ہے؟ گاجر کہاں ہے؟؟ جو دہشت گرد بن گئے وہ تو بلاشبہ قابلِ گردن زدنی ہیں۔ مگر جن مسائل کی وجہ سے نوجوان انتہا پسندی تک پہنچ جاتے ہیں اور دہشت گردوں سے جا ملتے ہیں‘ ان مسائل کا کیا ہو گا؟
بلوچستان کے ساتھ ہمارے پالیسی سازوں‘ حکومتوں اور اداروں نے وہی سلوک روا رکھا جو سابقہ قبائلی علاقوں کے ساتھ روا رکھا گیا۔ تعلیم کا فقدان‘ ذرائع روزگار کی قلت اور ملک صاحبان اور خان صاحبان کی چیرہ دستیاں عام قبائلی کو بندوق تک لے گئیں۔ پاکستان بننے کے بعد قبائلی علاقوں میں کتنے کارخانے لگے؟ کتنے کالج اور یونیورسٹیاں بنیں؟ پولیٹکل ایجنٹ جو فنڈز قبائلی علاقوں کے ملک صاحبان اور خان صاحبان میں بانٹتے رہے وہ کہاں کہاں خرچ ہوئے یا کس کس کی جیب میں گئے؟ بد قسمتی سے پاکستان نے ان علاقوں کے ساتھ وہی سلوک جاری رکھا جو تقسیم سے پہلے انگریز حکومت کر رہی تھی۔ بلوچستان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ تعلیمی ادارے بنے نہ کارخانے لگے۔ ملازمتیں عنقا رہیں۔ مگر بدترین زہر جس سے بلوچستان سینچا جاتا رہا‘ سرداری نظام ہے۔ یہ سرداری نظام وہ دو دھاری تلوار تھا جو ایک طرف وفاق کی فیاضیوں اور بخششوں سے مالامال ہو کر وفاق کو بلیک میل کرتا رہا اور دوسری طرف بلوچ عوام کو صوبے کے وسائل سے محروم رکھتا رہا۔ قبیلے کا عام آدمی عملاً سردار کا غلام ہے۔ وہ اپنے گھریلو معاملات تک اس کی اجازت سے طے کرتا ہے۔ بلوچ عوام کو ان سرداروں نے کس دنیا میں رکھا؟ اس کا اندازہ صرف اس حقیقت سے لگا لیجیے کہ چور کو پکڑنے کے لیے لوگوں کو جلتے کوئلوں پر چلایا جاتا ہے۔ چند برس پہلے ایک سردار صاحب لاہور میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ ان سے اس وحشیانہ رسم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ببانگِ دہل کہا کہ یہ ان کی قبائلی روایت ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو سردار پرستی کا سبق پیدائش ہی سے پڑھانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں بلوچستان کے تعلیمی اداروں کے اساتذہ ایک تربیتی کورس کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اکثریت لیکچرر حضرات کی تھی۔ ایک دن میری گفتگو بھی رکھی گئی۔ جب اس مکروہ رسم کے حوالے سے سرداروں کا ذکر ہوا تو حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان اعلیٰ تعلیم یافتہ بلوچوں نے اعتراض کیا کہ سرداروں کے خلاف کچھ نہیں سنیں گے۔ ان سرداروں نے قبائل کو جدید زمانے کی ہوا تک نہ لگنے دی۔ تعلیم سے دور رکھا۔ یہ واقعہ خود ایک بلوچ دانشور نے سنایا کہ ایک بلوچ قبیلے کا لڑکا کراچی گیا اور وہاں دس جماعتیں پاس کر لیں۔ واپس آیا تو اس کا باپ خوشی سے اسے اپنے قبیلے کے سردار سے ملانے لے گیا۔ لڑکے نے نسبتاً صاف ستھرا لباس پہنا ہوا تھا۔ بال سنوارے ہوئے تھے۔ سردار صاحب ملے۔ باپ بیٹا واپس جا رہے تھے کہ لڑکے کو اُٹھا لیا گیا۔ اس کے جسم پر گڑ کا شیرہ مَلا گیا اور چیونٹیوں بھرے غار میں بند کر دیا گیا‘ سردار صاحب کی مستقبل بین نظروں نے بھانپ لیا تھا کہ تعلیم‘ بے شک دس جماعت تک ہی کیوں نہ ہو‘ ان کی سرادری کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ہمارے دوست‘ معروف‘ نیک نام پولیس افسر ذوالفقار چیمہ نے اپنے مشاہدات کے حوالے سے لکھا ہے کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں کی عمارتوں میں سرداروں کے مال مویشی باندھے جاتے ہیں اور ان کے اناج کا ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ ایک سردار نے نئی بندوق ٹیسٹ کرنا تھی۔ اس نے چھت سے گولی چلائی۔ ایک راہ گیر گولی کا نشانہ بنا۔ نئی بندوق ٹیسٹ ہو گئی۔ جیسے یہ معمول کی مشق تھی۔ یہ صرف دو تین مثالیں ہیں۔ ورنہ سرداری نظام نے اس تیرہ بخت صوبے کو پتھر کے زمانے میں رکھا ہوا ہے۔ معدنی وسائل کے نام پر جو رائلٹی حکومتوں سے یہ سردار وصول کرتے ہیں‘ اصل میں وہ بلوچی عوام کا حق ہے۔ سچ یہ ہے کہ جو سرداری نظام بلوچستان میں رائج ہے اس کی مثال مہذب دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ ہاں اگر افریقہ یا لاطینی امریکہ کے دور افتادہ علاقوں میں یہ صدیوں پرانا نظام پایا جاتا ہے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
دہشت گردوں کو بے شک ختم کیجیے۔ معصوم شہریوں کو قتل کرنے والے پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ میں کھیلنے والے اور ریاست کی رٹ کو للکارنے والے زندہ رہنے کے مستحق نہیں۔ ان کا صفحۂ ہستی سے مٹ جانا کم سے کم سزا ہے جو انہیں ضرور ملنی چاہیے۔ تاہم پاکستانی اداروں اور حکومتوں کے پاس بلوچستان کے مسئلے کا دیرپا حل ایک ہی ہے اور وہ ہے بلوچستان کی خوشحالی! بلوچستان کے عام شہری کا بہتر معیارِ زندگی!! سب سے پہلا نمبر انفراسٹرکچر کا ہے۔ بلوچستان میں شاہراہوں کا جال اسی طرح بچھانا ہو گا جس طرح پنجاب میں بچھا ہے۔ بڑے شہروں اور دوسرے صوبوں تک عوام کی رسائی کا نہ ہونا ان میں بے علمی پھیلاتا ہے اور وہ آسانی سے گمراہ ہو جاتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر لازم ہے کہ سکولوں اور کالجوں کا بھی جال پھیلا دیا جائے تاکہ وہ قدیم‘ دقیانوسی اور ترقی کے دشمن نام نہاد تعلیمی نظام سے نجات پا سکیں۔ تیسرے نمبر پر بلوچستان میں ہر حال میں صنعتوں کا قیام عمل میں لانا ہو گا تاکہ عوام کو ملازمتیں مل سکیں۔ ان تینوں اقدامات کے راستے میں دہشت گردی آڑے آئے گی مگر جو بھی ہو جیسا بھی ہو‘ یہ کام کرنے ہوں گے۔ تعلیم‘ انفراسٹرکچر اور صنعت کے بغیر دہشت گردی کو نیا خون ملتا رہے گا!
اور یہ جو حکومتیں گرانے اور اور بنوانے کا سلسلہ بلوچستان میں رہا ہے‘ کیا ہم پاکستانیوں کو اس پر شرم نہیں آنی چاہیے؟ 2018ء میں جس طرح ایک غیر معروف شخصیت کو جوڑ توڑ کے ذریعے ایوانِ بالا کے اوپر بٹھا دیا گیا‘ کیا وہ بلوچستان کی درست نمائندگی تھی؟ ان صاحب نے مرا عات بڑھانے کے علاوہ کون سا کارنامہ سر انجام دیا؟ ہم ایسے غلط اقدامات سے کب باز آئیں گے؟ ہم جمہوریت کو اپنے فطری اور قدرتی راستے پر کب چلنے دیں گے؟؟ یاد رکھیے‘ ہر غلط قدم دہشت گردی کا مددگار ثابت ہو سکتا ہے!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved