تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     18-03-2025

ہم تو اپنا منہ بھی نہیں دھو سکتے

سرکار میں سینکڑوں خرابیاں ہوں گی بلکہ سینکڑوں سے بھی زیادہ کہہ لیں تو کوئی حیرانی یا اچنبھے کی بات نہ ہو گی مگر ہم میں کتنی خرابیاں ہیں‘ ان کی نہ کبھی ہم نے گنتی کی ہے‘نہ کبھی اس بارے سوچا ہے اور نہ ہی ان کو درست کرنے کی کوئی کوشش کی ہے۔ ہم من حیث القوم اپنی ساری غلطیوں کا ملبہ بھی سرکار کے سر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خدانخواستہ میں سرکار کو اس کی خرابیوں سے بری الذمہ قرار نہیں دے رہا۔ اور ہاں! اپنی اپنی پارٹی اور لیڈر کو مرشد‘ نجات دہندہ اور معصوم عن الخطا سمجھنے والے سارے جیالوں‘ پٹواریوں اور یوتھیوں سے التماس ہے کہ وہ اس جملے کو اپنے پسندیدہ لیڈر کے تناظر میں نہ دیکھیں۔ یہ سرکار کی بات ہو رہی اور گزشتہ 78سال کی ساری سرکاریں اس میں شامل ہیں۔ حالات کو اس حد تک خراب کرنا دو چار برس کی‘ یا ایک آدھ بندے کے بس کی بات نہیں۔ اس کے علاوہ خرابی کے جو عوامل ہیں ان کے بارے میں بھی اب سب لوگ جانتے ہیں۔ اگر نام چھپ نہیں سکتا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جن کا ذکر نہیں کیا جا رہا وہ اس خرابی میں شامل نہیں۔ وہ نہ صرف شامل ہیں بلکہ بدرجہ اتم شامل ہیں۔لیکن کیا اس ملک میں معاشرتی بگاڑ کی صرف سرکار ذمہ دار ہے؟ ہمارا اس میں کچھ عمل دخل نہیں؟ دنیا کے وہ ممالک جہاں حکومتیں عوام کی مرضی و منشا سے منتخب ہوتی ہیں اور وہ عوامی مفادات اور جذبات کو سامنے رکھ کر ان کی مکمل فلاح کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہیں‘وہاں بھی ہر کام سرکار کی ذمہ داری نہیں ہے۔ جو ممالک خوشحالی کے اس درجے پر فائز ہیں کہ وہ اپنے عوام کیلئے سب کچھ نہ سہی مگر بہت کچھ کر سکتے ہیں وہاں بھی یہ ذمہ داریاں سرکار اور عوام نے آپس میں بانٹ رکھی ہیں۔ جو کام کرنا حکومت افورڈ کر سکتی ہے وہ کام بھی حکومت اور عوام مل جل کر ہی سرانجام دیتے ہیں۔ ٹریفک‘ صفائی‘ نظم و ضبط اور روز مرہ کے کئی معاملات ایسے ہیں کہ ان میں قانون کی سختی اور اطلاق کے علاوہ وہاں کے عوام کی رضاکارانہ شمولیت اور اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کے حوالے سے بہت سارے امور کی انجام دہی میں شرکت نے معاشرے کو بہت سنوار رکھا ہے۔
اِدھر یہ عالم ہے کہ سرکار وہ گنجی ہے جس کے پاس نہ نہانے کو کچھ ہے اور نہ ہی نچوڑنے کیلئے کوئی چیز ہے‘ مگر ہم ہیں کہ چاہتے ہیں ہمارے باورچی خانے کا ڈسٹ بن بھی سرکار کا صفائی کا عملہ آکر صاف کرے۔ گھر کا سارا کوڑا کرکٹ اٹھا کر گھر کے سامنے سڑک پر پھینک دینا اور شور مچانا کہ صفائی کا انتظام بڑا خراب ہے اور سرکار کچھ نہیں کرتی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمارا صفائی کا سرکاری نظام کوئی آئیڈیل ہے۔ وہ بھی خرابی کی آخری حد پر پہنچا ہوا ہے مگر ہم اس خرابی کو ذاتی کاوش سے کافی کم کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے گھر کے آگے کی صفائی کا ذمہ سرکار پر چھوڑ کر کڑھنے‘ جلنے اور بڑ بڑانے میں اپنی توانائیاں صرف کرنے کے بجائے صرف اپنے گھرکے سامنے والی گلی‘ سڑک یا راستے کو ہی صاف کر لیں تو معاملات کافی حد تک ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ چلتی کار سے چھلکے‘ کاغذ‘ لفافے‘ ریپر اور دیگر گند بلا شیشہ کھول کر باہر پھینکنے اور پھر صفائی کی بری حالت پر شور مچانے کے بجائے اگر ہم اپنے گھر والوں کے گاڑی میں مچائے گئے گند کو کسی خالی شاپر میں ڈال لیں اور اسے کوڑا کرکٹ کیلئے مخصوص جگہ پر پھینکیں تو بھلا اس میں کیا خرچ ہوتا ہے؟ مگر ہم چلتی گاڑی سے کوڑا باہر پھینک کر سڑک پر پڑے ہوئے گند کے بارے میں شور مچاتے ہیں‘ محکموں کو برا بھلا کہتے ہیں حالانکہ سب سے پہلے ہمیں خود کو مطعون کرنا اور اپنا احتساب کرنا چاہیے تھا مگر ہم صرف دوسروں کا احتساب کرنے اور حساب لینے میں مصروف ہیں۔
مولوی مسجد میں اپنے مقتدیوں کو صرف عبادات کی تلقین اور آخرت کے عذاب سے ڈرانے میں مصروف ہیں۔ اسلام دین ہے اور دین میں عبادات سے زیادہ معاملات کا ذکر ہے مگر ہمارا مذہبی پیشوا ان سارے معاملات سے لاتعلق ہو کر ہمیں ہمارے دین کا صرف ایک حصہ سمجھانے میں مصروف ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ معاملات کو چھوڑ کر کوئی اچھا انسان نہیں بن سکتا اور جو اچھا انسان نہیں ہے بھلا وہ اچھا مسلمان کیسے بن سکتا ہے۔ رسول کریمﷺ نے اپنی سیرتِ مبارکہ‘ اپنے اخلاص‘ اپنے حسنِ کردار اور معاملات سے کفارِ مکہ کو متاثر کرنے کے بعد ان کو دینِ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور لوگ آپﷺ کے کردار سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے نہ کہ انہوں نے آنکھیں بند کرکے اسلام قبول کیا۔
اور صرف مولوی پر ہی کیا موقوف؟ سکول‘ کالج اور یونیورسٹی میں سولہ سالہ تعلیم کے دوران کم از کم میں نے کردار سازی کا ایک مضمون نہیں دیکھا اور ایک پیریڈ نہیں پڑھا‘ استاد کا سارا زور صرف رٹا لگوانے میں‘ زیادہ سے زیادہ نمبروں کے حصول کا طریقہ کار سمجھانے میں اور ٹیوشن پڑھانے میں دیکھا ہے۔ آگے جائیں تو یہی حال ماں باپ کا ہے۔ ماں باپ کا بچوں کی تعلیم پر زور ہے کہ ان کے خیال میں اچھی تعلیم ہی ان کے بہتر مستقبل کی ضامن ہے۔ بچوں کے بہتر رزلٹ کیلئے ٹیوشن اور دیگر غیر قانونی ذرائع تک استعمال کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ جب بچے اپنے والدین کو دنیاوی معاملات میں جائز ناجائز کی اخلاقی اقدار سے عاری دیکھتے ہیں تو ان سے اخلاقی اور معاشرتی اقدار کی کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ ماں باپ کا سارا زور اس بات پر ہے کہ بچہ کہیں بڑا افسر لگ جائے‘ کسی کمائو نوکری کو حاصل کر لے‘ اپنا بڑا سا کاروبار جما لے یا کوئی بھی ایسا کام کر لے جس سے پیسے کی لہر بہر ہو جائے۔ بھلے سے جائز ہو یا ناجائز ہو مگر پیسے کی ریل پیل ہو جائے۔
دو دن ہوئے میں ایک ڈیپارٹمینٹل سٹور سے گھر کی ضرورت کی چیزیں خریدنے کیلئے گیا تو ایک پڑھی لکھی فیملی گاڑی پارک کر رہی تھی۔ پارکنگ کیلئے زمین پر سفید ترچھی لکیریں لگی ہوئی تھیں۔ وہ صاحب ان ترچھی لکیروں کے درمیان گاڑی پارک کرنے کے بجائے اس سے بالکل الٹ دوسرے رخ پر تقریباً تین گاڑیوں کی جگہ پر اپنی گاڑی کھڑی کر رہے تھے۔ میں نے انہیں نہایت مہذب انداز میں کہا کہ رمضان کا رش ہے‘ اگر آپ گاڑی کو سیدھا کرکے لگالیں گے تو دو مزید گاڑیوں کیلئے جگہ بن جائے گی۔ ان صاحب نے مجھے دوسری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ سامنے پارکنگ کی جگہ خالی ہے آپ ادھر پارکنگ کر لیں۔ میں نے کہا: میں تو وہیں پارک کر رہا ہوں‘ میں تو آنے والوں کی آسانی کیلئے کہہ رہا ہوں۔ وہ نوجوان مجھے کہنے لگا: بزرگو! اگر آپ کو کوئی مسئلہ نہیں تو پھر آپ خواہ مخواہ کی فکر نہ کریں۔ پھر طنزیہ انداز میں مسکرا کر کہنے لگا: اس عمر میں خواہ مخواہ کی فکر مندی آپ کی صحت کیلئے ٹھیک نہیں۔ میں نے گاڑی کے دروازے سے نکلتے ہوئے اس کے باپ کی طرف دیکھا کہ شاید میرا ہم عمر یہ شخص اور کچھ نہ سہی تو اپنے بیٹے کو کوئی اشارہ ہی کر دے یا اسے گاڑی درست طریقے سے لگانے کا کہہ دے مگر اس نے گاڑی میں دیگر لوگوں کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا اور منہ پھیر کر دوسری طرف چل پڑا۔
میرے گھر کے عین سامنے ایک بزرگ خاتون رہائش پذیر ہیں۔ ستر پچھتر سالہ عمر کی باجی ریٹائرڈ ٹیچر اور بیوہ ہیں۔ ان کی اولاد نہیں ہے تاہم اپنی شفیق طبیعت کی بدولت میری اہلیہ ان کی محبت سے سیراب ہوتی رہی تھی۔ برسوں گزرے میں ایک رات سفر سے صبح کاذب کے وقت گھر آیا تو دیکھا کہ باجی اپنے اور میرے گھر کے سامنے جھاڑو دے رہی ہیں۔ مجھے تب علم ہوا کہ صبح ہمارے گھر کے سامنے سڑک ہمیشہ اتنی صاف کیوں ہوتی ہے۔ میں نے ایک بار باجی کو کہا کہ آپ جھاڑو کیوں دیتی ہیں ؟ صفائی والا آتا تو ہے۔ باجی کہنے لگیں: بیٹا! ہم اپنا منہ بھی تو دھوتے ہیں۔ یہ جواب سن کر میں اپنے کہے پر باقاعدہ شرمندہ ہو گیا۔ کل سحری سے پہلے دہی لینے کیلئے نکلا تو باجی اپنے اور میرے گھر کے سامنے جھاڑو لگا کر ساتھ والوں کے دروازے کے آگے صفائی میں مصروف تھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved