پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ دو دہائیوں سے چلا آ رہا ہے مگر گزشتہ چند برسوں خصوصاً 2021ء کے بعد‘ جب افغانستان میں افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کیا‘ اس میں نمایاں شدت آئی ہے۔ اس کی وجہ بڑی واضح ہے۔ دہشت گرد‘ جن میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں سرگرم انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیمیں بھی شامل ہیں‘ نے افغانستان میں جنگ بند ہونے کے بعد اپنا رُخ پاکستان اور دیگر ممالک کی طرف موڑ دیا۔ افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک مثلاً ایران‘ ازبکستان‘ تاجکستان اور ترکمانستان میں ان تنظیموں کو اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی کیونکہ ا ن ملکوں کی حکومتوں نے ان کی روک تھام کیلئے پہلے سے سخت اقدامات کر رکھے تھے مگر پاکستان میں ان دہشت گردوں‘ جن میں سے بھاری تعداد کالعدم ٹی ٹی پی کی ہے‘ نے اپنی کارروائیاں دوبارہ شروع کردیں۔ وہ کچھ عرصہ پیشتر انہی علاقوں سے بھاگ کر افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف جنگ میں طالبان کے ساتھ شریک ہو ئے تھے۔ اگست 2021ء میں جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو نئی عبوری حکومت کے ایک اہم رہنما نے باضابطہ طور پر اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ ان کی صفوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو بھی امریکیوں کے خلاف جنگ میں شانہ بشانہ شریک رہے۔ طالبان کے اس سینئر رہنما نے ٹی ٹی پی کے علاوہ مزید درجن بھر ایسی تنظیموں کا نام لیا جنہیں ان کے اپنے ملکوں یعنی چین اور ازبکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے خلافِ قانون قرارد دیا جا چکا اور وہ وہاں سے بھاگ کر افغانستان میں طالبان کے ساتھ جا ملی تھیں۔ اس بیان میں طالبان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان سے امریکیوں کے انخلا اور جنگ بند ہونے کے بعد ان گروپوں کی اب افغانستان میں کوئی جگہ نہیں ر ہی اور طالبان کی حکومت چاہے گی کہ یہ تنظیمیں اپنے اپنے ملکوں کو واپس چلی جائیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ افغان طالبان کے اس اعلان کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا‘ حالانکہ ہماری خفیہ ایجنسیاں اور سکیورٹی اداروں کی افغان حالات پر متواتر گہری نظر تھی۔
جس وقت افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کے توسط سے کابل میں پاکستانی حکام اور افغانستان میں مقیم کالعدم ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے مابین مذاکرات کا انکشاف ہوا‘ اس سے بہت پہلے کالعدم ٹی ٹی پی کے مسلح جنگجو پاکستان کے قبائلی اضلاع میں داخل ہو کر بھتہ خوری‘ مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ اور زمینوں پر قبضے کی کارروائیاں شروع کر چکے تھے۔ خیبر پختونخوا میں مقامی لوگوں نے ٹی ٹی پی کے مسلح دہشت گردوں کی نہ صرف موجودگی کی نشاندہی کی بلکہ ان کی شدت پسند کارروائیوں پر احتجاجی جلوس بھی نکالے اور حکومت سے ان کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا لیکن چونکہ انہیں افغانستان کی عبوری حکومت کی حمایت اور مدد حاصل تھی‘ اس لیے سرحد پر خاردار تار ہونے کے باوجود یہ عناصر بڑی تعداد میں پاکستان کے علاقوں میں داخل ہو گئے۔ اگلے دو برس میں ان عناصر کی سرگرمیوں میں حیرت انگیز اضافہ دیکھنے میں آیا اور سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے علاوہ ان کی سرگرمیاں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے افغانستان سے ملحقہ علاقوں تک پھیل گئیں۔
یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بلوچستان میں شروع سے ہی حالات نارمل نہیں رہے۔ یہ بھی افسوسناک حقیقت ہے کہ صوبے کے مسائل اور عوام کی شکایات دور کرنے کے لیے گزشتہ 75 برس میں جوکوششیں کی گئیں وہ نتیجہ خیز نہیں ہو سکیں۔ اس کی وجہ سے ریاست اور بلوچ معاشرے میں بداعتمادی کی خلیج وسیع تر ہوتی گئی اور دونوں طرف سے انتہا پسندانہ مؤقف اختیار کیا گیا۔ وہ عناصر جو نہ صرف پاکستان کے موجودہ جمہوری نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس کی جگہ اپنی محدود اور گمراہ کن سوچ پر مبنی نظام مسلط کرنا چاہتے ہیں‘ انہوں نے بلوچستان کی اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا ہے اور مقامی شرپسندوں کے ساتھ مل کر صوبے کے ہر حصے میں اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ دہشت گرد پہلے سے زیادہ تعداد میں منظم ہو کر جدید ترین اسلحے کے ساتھ سکیورٹی فورسز اور ان کے ٹھکانوں مثلاً چوکیوں‘ تھانوں‘ قافلوں‘ بسوں حتیٰ کہ ریلویز پر بھی حملہ آور ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملہ اور مسافروں کو یرغمال بنانے کا واقعہ اس کی تازہ ترین اور ہولناک مثال ہے۔ اگرچہ سکیورٹی فورسز نے دور دراز اور اجاڑ علاقے اور دشوار گزار راستوں کے باوجود فوری طور پر مؤثر کارروائی کر کے تمام یرغمالیوں کو رہا کرا لیا اور اس میں ملوث تمام دہشت گردوں کوکیفرِ کردار تک پہنچا دیا مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ماضی میں اگرچہ دہشت گردی کے کئی بڑے اور ہلاکت خیز واقعات ہو چکے ہیں مگر یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ اس سے قبل دہشت گرد ریل کی پٹڑیوں کو بم سے اڑانے کی کارروائیوں میں ملوث رہے یا چلتی گاڑیوں پر بھی فائرنگ کی گئی مگر ایک پوری ریل گاڑی کو دھماکے کے ذریعے روک کر اس کے تمام مسافروں کو یرغمال بنانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ وزیراعظم کے اس بیان سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ پاکستان ایسے کسی اور واقعے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کوئٹہ میں ایک اجلاس میں اس واقعے اور ملک کے مغربی صوبوں میں بڑھتی دہشت گردی کے جو قومی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں‘ اُن کی نشاندہی کرتے ہوئے وزیراعظم نے درست کہا کہ اگر اس کو نہ روکا گیا تو ملک کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ ان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ دہشت گردی کی موجودگی میں ملک میں معاشی ترقی کا سفر جاری نہیں رہ سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے پچیس کروڑ عوام کی نہ صرف ترقی اور خوشحالی خطرے میں ہے بلکہ ان کی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سالمیت بھی داؤ پر ہے کیونکہ دہشت گرد پاکستان کو پُرامن اور خوشحال نہیں دیکھ سکتے۔ دہشت گردوں کے اس خطرناک ایجنڈے کے پیش نظر وزیراعظم نے اپیل کی ہے کہ سیاسی پارٹیاں اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر 2014ء کی طرح اتحاد کا مظاہرہ کریں اور قومی سیاسی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اور ایک ایسی حکمت عملی تیار کرے جو دہشت گردی کے اس چیلنج کا کامیابی اور مؤثر طریقے سے مقابلہ کرسکے۔ سیاسی اور عسکری قیادت کے مل بیٹھنے کی یہ تجویز اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ساری ذمہ داری ابھی تک ہماری مسلح افواج اور سکیورٹی اداروں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے اور گزشتہ دو دہائیوں سے ہمارے سکیورٹی اداروں کے بہادر اور جری سپاہی اور افسران اپنی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ قوم اور حکومت کی حمایت اور مدد ان کے ساتھ ہے اور پہلے کی طرح اس موقع پر بھی سکیورٹی فورسز کو ہر قسم کی مدد اور وسائل مہیا کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ فوجی قیادت کے ساتھ سیاسی قیادت کا مل بیٹھ کر ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کرنا اس لیے اہم ہے کہ دہشت گردی کی کمر توڑنے اور بیخ کنی کے دعووں کے برعکس دہشت گردی کا عفریت روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے اور ملک و قوم کے وسیع پیمانے پر نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ اس رحجان کی روک تھام تبھی ممکن ہے جب فوجی قیادت کے ساتھ سیاسی قیادت کے اِن پُٹ سے ہمہ جہت اور معروضی حالات سے مکمل آگاہی پر مشتمل حکمت عملی تیار کی جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved