دنیا میں طاغوتی طاقتوں نے ہمیشہ حق کی آواز دبانے اور اپنی دھونس جمانے کیلئے منصوبے بنائے ہیں۔ آج بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مختلف ملکوں کو تنقید کا نشانہ بنا کر خوف زدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ ظلم کا نشانہ اہلِ اسلام بالخصوص اہلِ غزہ وفلسطین کو بنایا جا رہا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ غزہ کو جو حوصلہ دیا ہے اسے دیکھ کر ساری دنیا حیران ہے۔ یہ اللہ کی خصوصی رحمت اور عطا ہے۔ حضور اکرمﷺ کے اسوہ پر عمل پیرا ہو کر ان نہتے مسلمانوں نے دنیا کی نا م نہاد سپر طاقتوں کو بے بس کر دیا ہے۔ وہ ظلم کی روش ترک نہیں کر رہے اور یہ استقامت کا راستہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ حضور نبی کریمﷺ اپنے صحابہ کرامؓ خصوصاً نوجوانوں سے بڑی محبت کرتے تھے اور ان کی تربیت کر کے انہیں ہیرے موتی بنا دیتے تھے۔ نوجوان قوموں کا اثاثہ اور حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں۔ آج شیطان امتِ مسلمہ پر حملہ آور ہے اور بالخصوص ہمارے اس سرمائے پر ڈاکا ڈالنے کے پورے جتن کر رہا ہے۔
اصلاحی تحریکوں کے نتیجے میں غزہ کی طرح دیگر خطوں میں بھی مسلم نوجوانوں کی ایک معقول تعداد اپنے دین اور اپنی اساس کی طرف رجوع کر رہی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ کئی نوجوان واقعی گہرے غوروفکر سے قرآن وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان سے کبھی مکالمہ اور سوال وجواب ہو تو قلبی وروحانی مسرت ہوتی ہے۔ ان نوجوانوں کو کئی امور میں بڑا اشکال محسوس ہوتا ہے۔ وہ اسلام کی عظمت اور اپنے اسلاف کی شوکت کو کتابوں میں دیکھتے ہیں اور پھر آج امت کی زبوں حالی کا منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو انہیں عجیب تضاد محسوس ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تضاد کیوں ہے؟ ہم چاہتے ہیں کہ اس موضوع پر سیرتِ رسولﷺ کی روشنی میں غورو فکر کیا جائے۔ اگر ہم صحیح تناظر میں ماضی وحال کا تجزیہ کریں اور جذباتیت سے بالاتر ہو کر حقائق وبصائر کا انطباق کرتے ہوئے معروضی حالات کا مطالعہ کریں تو ہر سوال کا جواب مل جاتا ہے اور ہر گرہ کا سرا ہاتھ آ جاتا ہے۔بلاشبہ اہلِ ایمان سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ غلبہ انکا مقدر ہوگا اور اللہ کی نصرت انکے شاملِ حال ہو گی۔ ان کے دشمن ان کے سامنے مغلوب رہیں گے مگر اس کیلئے صرف ایمان کا دعویٰ ہی کافی نہیں‘ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا اور وہ جوہر اپنے اندر پیدا کرنا ضروری ہے جس کی بدولت نبیِ رحمتﷺ اور ان کے جانثار صحابہ ان بشارتوں کے مستحق ومصداق بنے تھے۔ گویا یہ مدد یقینی ہے لیکن مشروط! اس میں شرط تعداد اور سازوسامان کی کثرت وفراوانی نہیں‘ بلکہ ایمان و عقیدے کی پختگی اور عمل کا اخلاص ومداومت ہے۔
حضور نبی کریمﷺ کے دورِ سعید میں اہلِ ایمان پر سخت آزمائشیں آئیں۔ آنحضورﷺ خود بھی انتہائی جاں گسل مرحلوں سے گزرے۔ اس سب کے باوجود ان لوگوں کے حوصلے ہمیشہ بلند رہے۔ آنحضورﷺ نے صحابہ کرامؓ کو سخت نامساعد حالات میں بھی بشارتیں سنائیں۔ صادق الایمان صحابہ کرام ہمیشہ ان بشارتوں کو سچ جانتے تھے۔ ایک مرتبہ مکی دور میں حضرت خبابؓ بن ارت آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپﷺ اس وقت کعبے کی دیوار کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ حضرت خبابؓ کو آگ کے انگاروں پر لٹایا جاتا تھا کہ وہ ایمان سے برگشتہ ہو جائیں مگر وہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ ان حالات میں پریشانی فطری امر تھا۔ اس پریشانی کی کیفیت میں انہوں نے آنحضورﷺ سے عرض کیا: ''یا رسول اللہﷺ! آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے کہ اللہ ہمیں ان سختیوں سے نجات دیدے‘‘۔ یہ بات سن کر آنحضورﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ آپﷺ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا: ''تم سے پہلے جو اہلِ ایمان گزرے ہیں ان پر اس سے بھی زیادہ سختیاں کی گئیں۔ ان میں سے بعض کو زمین میں گڑھا کھود کر بٹھایا جاتا اور انکے سر پر آرا چلا کر دو ٹکڑے کر دیے جاتے۔ کسی کے جوڑوں پر لوہے کے کنگھے گِھسے جاتے تاکہ وہ ایمان سے باز آجائے۔ خدا کی قسم! یہ کام پورا ہو کر رہے گا یہاں تک کہ ایک شخص (یا ایک عورت) صنعا سے حضر موت تک بے کھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہ ہو گا جس سے وہ خوف کھائے‘‘۔ (صحیح بخاری‘ کتاب الاکرہ)
اللہ کا ارشاد ہے: ''دل شکستہ نہ ہو‘ غم نہ کرو‘ تمہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘ (آلِ عمران: 139)۔ دوسرے مقام پر ارشادِ ربانی ہے ''اور ہم نے تم سے پہلے رسولوں کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ انکے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے۔ پھر جنہوں نے جرم کیا‘ ان سے ہم نے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق ہے کہ ہم مومنوں کی مدد کریں‘‘۔ (الروم: 47)۔ اسی مضمون کی مزید تشریح سورۃ المومن (غافر) میں ملتی ہے‘ جہاں ارشاد فرمایا: ''یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں‘ اور اس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے‘‘ (المومن: 51)۔ رب رحیم وکریم کا وعدۂ نصرت صرف اس دنیا کی زندگی تک محدود نہیں بلکہ روزِ حشر جب سب مادی امیدیں ٹوٹ چکی ہوں گی اور ظاہری سہارے چھوٹ چکے ہوں گے تو بھی وہ اپنے بندوں کا دوست ہوگا۔ ارشادِ ربانی ہے: ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دنیا وآخرت‘ دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔ (ابراہیم: 27)۔ قرآنِ مجید کی یہ بشارتیں پوری امت کیلئے ہیں‘ جس قلبِ مصفّٰی پر یہ نازل ہوئیں‘ اس کا بڑا عظیم مرتبہ اور اعلیٰ مقام ہے۔
رسولِ اکرمﷺ ان بشارتوں کی مجسم تفسیر تھے اور آپﷺ نے اپنے گرد جن لوگوں کو اکٹھا کیا تھا‘ شمعِ رسالت کے وہ سبھی پروانے ان بشارتوں کے نور سے مالا مال اور حلاوتِ ایمان سے سرشار تھے۔ امت جیسے جیسے اس نور سے محروم اور اس حلاوت سے بیگانہ ہوتی چلی گئی اللہ کی رحمتیں بھی روٹھ گئیں اور نصرتِ الٰہی سے محرومیاں ہمارا مقدر بن گئیں۔ ذرا غور کیجیے کہ صحابہ کرامؓ نے جو کلمہ پڑھا تھا وہی کلمہ آج ہم بھی پڑھتے ہیں۔ جس قرآن نے ان کی زندگیاں بدل ڈالی تھیں وہی قرآن انہی الفاظ میں آج بھی پڑھا جاتا ہے لیکن بنیادی فرق یہ ہے کہ ہم نہ اس کلمے کی قدروقیمت کو پہچانتے ہیں نہ قرآن کے انقلابی پیغام کو لے کر اٹھتے ہیں۔
حضور اکرمﷺ صحابہ سے جو بات کہتے‘ ظاہری حالات کی مکمل ناموافقت کے باوجود‘ انہیں اس کے برحق ہونے کا کامل یقین ہوتا تھا۔ ان کا ایمان کبھی متزلزل ہوا نہ ان کے قدم کبھی ڈگمگائے۔ 5ھ میں جب غزوۂ خندق کا مشکل مرحلہ پیش آیا اور آنحضورﷺ نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ مل کر مدینہ منورہ کے دفاع کیلئے خندق کھودی تو اس عمل کے دوران کئی معجزات رونما ہوئے۔ مورخ ابن اسحاق کی ایک روایت سیرت نگار ابن ہشام نے اپنی سیرت نبوی میں نقل کی ہے۔ اس کے راوی حضرت سلمان فارسیؓ ہیں۔
حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں: ''خندق کی کھدائی کے دوران ایک سخت چٹان آ گئی۔ میں نے اسے توڑنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ رسول اللہﷺ مجھ سے قریب ہی کھدائی میں مصروف تھے۔ جب آپﷺ نے صورتِ حال دیکھی تو میری مدد کو تشریف لائے اور کدال پکڑ لی۔ آپﷺ نے پتھر پر ضرب لگائی تو کدال کے نیچے سے بجلی کا شعلہ نکلا۔ پھر دوسری ضرب سے ایسا ہی شعلہ نکلا۔ تیسری ضرب لگی تو بھی بجلی کی سی چمک پیدا ہوئی اور چٹان ٹوٹ گئی۔ میں نے عرض کیا: ''میرے ماںباپ آپ پر قربان‘ یا رسول اللہﷺ جب آپ ضرب لگا رہے تھے تو کدال کے نیچے میں نے شعلے اٹھتے ہوئے دیکھے۔ یہ شعلے کیسے تھے‘‘؟ آپﷺ نے فرمایا: ''سلمان! کیا واقعی تم نے یہ شعلے دیکھے ہیں‘‘؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو حضورﷺ نے کہا: ''پہلی ضرب پر جو شعلہ نکلا تو اس سے اللہ نے یمن پر مجھے فتح عطا کی۔ دوسرے شعلے پر میرے لیے اللہ نے شام کی فتح کا راستہ ہموار کر دیا اور تیسرے شعلے پر اللہ تعالیٰ نے مشرق کے ممالک کی فتح میرے لیے مقدر فرما دی‘‘۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved