امریکہ سے پہلا دفاعی معاہدہ ہوا تو پیٹن ٹینک اور سیبر لڑاکا طیارے ہمیں ملنے لگے اور ان کے آنے سے نقصان یہ ہوا کہ ہمارے فیصلہ سازوں نے کچھ غلط نتائج اخذ کر لیے۔ سیاست ہماری صحیح بنیادوں پر استوار نہیں ہوئی تھی‘ آئین تب تک نہ بنا تھا‘ سیاسی و دیگر ادارے ناپختہ تھے۔ البتہ یہ ٹینک اور لڑاکا جہاز اُس زمانے کے جدید ہتھیار تھے۔ اور یہ جب آئے تو جنگجوانہ ذہن کچھ اِترا سے گئے کہ ہمیں ہندوستان پر سبقت حاصل ہو گئی ہے۔ ویسے بھی اُس زمانے کی کہانیوں میں ایک یہ بھی تھی کہ ایک مسلمان دس ہندوؤں کے برابر ہے۔ اُن شروع کے سالوں میں ہندوستان سے دشمنی کا کوئی جواز نہ تھا۔ زیادہ تجارت ہماری ہندوستان سے تھی‘ آنا جانا آسان تھا‘ دہلی میں ہمارے سفیر کو بڑی پذیرائی حاصل تھی اور وہاں اچھا خاصا اُس کا ٹھاٹھ ہوا کرتا تھا۔
ایوب خان کے زمانے میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ پاکستان معاشی لحاظ سے زیادہ ترقی کر رہا ہے اور ہندوستان کی معاشی رفتار بیل گاڑی کی مانند ہے۔ 1965ء کا آغاز ہوا اور رن آف کَچھ میں ایک معمولی قسم کی لڑائی پاکستان اور ہندوستان میں چھِڑی جس میں ہمارا پلہ کچھ بھاری رہا اور اس سے سبقت کے غلط اندازے اپنا لیے اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے عظیم رہنما بھی تھے جنہوں نے ایوب خان کے کان بھرنے شروع کر دیے کہ اب وقت ہے کشمیر پر فیصلہ کن جنگ کرنے کا‘ نہیں تو کچھ عرصہ گزرا تو ہندوستان کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔ تاریخِ پاکستان میں ایک نفسیاتی پہلو پر زیادہ زور نہیں دیا گیا لیکن میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ 1964ء کے صدارتی انتخاب میں جو ہزیمت فیلڈمارشل کو اُٹھانی پڑی اُس کی وجہ سے اُن کے دل میں یہ آرزو پیدا ہو سکتی تھی کہ کسی معرکے کی بدولت اس ہزیمت کا اثر زائل کیا جائے۔ جیسے عرض کیا یہ میرا اپنا قیاس ہے کہ اُس صدارتی انتخاب اور اُس میں روا رکھے گئے کرشمات کا نفسیاتی اثر فیلڈ مارشل صاحب کے ذہن پر ضرور پڑا ہوگا۔
بہرحال صدارتی انتخاب میں حبیب جالب کی کٹتی ہوئی انقلابی شاعری ایک طرف‘ پھر رن آف کَچھ کا مقابلہ اور ساتھ ہی بھٹو صاحب کی شیریں بیانی کہ اب وقت ہے ہندوستان سے حساب چکانے کا۔ ان سارے عوامل کا نتیجہ یہ نکلا کہ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی وسیع منصوبہ بندی کے فیلڈ مارشل نے مقبوضہ کشمیر میں کچھ چھیڑخانی کے آغاز کی حامی بھر لی۔ امید یہ تھی کہ کمانڈوز وہاں جائیں گے اور کشمیری عوام ہندوستانی حاکمیت کے خلاف بغاوت کرنے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ بغاوت تو کوئی نہ ہوئی‘ ہمارے کمانڈوز پکڑے اور مارے گئے۔ پھر چھمب جوڑیاں کے محاذ پر ہماری طرف سے پیش قدمی ہوئی جس کے جواب میں ہندوستانیوں نے لاہور اور سیالکوٹ محاذ پر حملہ کر دیا۔ یوں 65ء کی جنگ کا قضیہ شروع ہوا۔ یہ ایسی مہم تھی جس کی کوئی ضرورت نہ تھی اور جس کے نتیجے میں پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑا۔ ملک اچھا بھلا چل رہا تھا‘ اس جنگ کی وجہ سے پٹڑی سے ایسا اُترا کہ آج تک سنبھل نہیں سکا۔
یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ سرکاری پراپیگنڈا مشینری اور میڈم نور جہاں کے لافانی نغموں نے ایسا سماں باندھا کہ عوام بالخصوص ہم جو پنجاب کے باسی ہیں سوچنے کی صلاحیت سے فارغ ہو گئے۔ اور ہم نے وہی راگ الاپنا شروع کیا جو سرکار کی طرف سے ترتیب ہوا کہ مکار دشمن نے رات کے اندھیرے میں اس ملک پر حملہ کیا ہے اور ہماری بہادر افواج نے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے‘ نہیں تو ملک کی بقا خطرے میں پڑ جاتی۔ اب تک یہی کہانی قوم کو سنائی گئی اور قوم بھی ایسی کہ آدھی صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکنے کے باوجود یہی افسانے الاپتی رہی ہے۔ اب جبکہ نئے آندھی و طوفان اُٹھ رہے ہیں اور پرانی حقیقتیں بدل چکی ہیں تو پاکستان کے لوگ اُن تراشے ہوئے افسانوں کے سحر سے نکل رہے ہیں۔
روزِ اول سے نعروں سے بے جا متاثر ہونے والی اس قوم کا مسئلہ ہی یہی رہا کہ تعلیم و ترقی پر تو زور نہ دیا‘ بس ہندوستان دشمنی کے نعروں کی گونج میں سینے پھیلاتے رہے اور غرور کرتے رہے کہ ہماری بڑی سٹریٹجک لوکیشن ہے جس کی وجہ سے لازم ہے کہ دنیا اپنے کام چھوڑ کر ہم پر فدا ہوتی رہے۔ امریکی ٹینک اور لڑاکا طیارے کیا ملے‘ پہلے بغداد پیکٹ کے ممبر ہو گئے پھر سینٹو اور پھر سیٹو کے۔ رو س سے ہمارا کیا مسئلہ تھا لیکن امریکی اثر میں آئے تو خواہ مخواہ کی روس سے بھی خراب کر بیٹھے۔ ٹینک اور طیارے آئے تو ہندوستان دشمنی کا واویلا کچھ زیادہ ہی ہوتا گیا۔ مراکز تو یہاں بننے چاہئیں تھے تعلیم و ترقی کے لیکن جو ہم نے بنائے وہ سکیورٹی کے تھے۔ سکیورٹی کو دیوتا بنائیں تو ضروری ہے کہ دشمن بھی کوئی ہونا چاہیے اور ظاہر ہے ہمارے تناظر میں دشمن کی ضرورت ہندوستان نے پوری کی۔ بنگال کا مسئلہ ہم سے حل نہ ہوا لیکن ہم نے کہا کہ سب ہندوستان کا کرنا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے آج دو سرحدی صوبوں کے مسائل سمجھنے کے بجائے زیادہ تر الزام ہم ادھر اُدھر ڈال دیتے ہیں۔
اگر پہلے ادوار میں امریکی ٹینکوں اور جہازوں نے غلط فہمی میں مبتلا کیا تو 80ء کی دہائی میں جو کسر رہ گئی تھی وہ نام نہاد افغان جہاد نے پوری کردی۔ ڈالروں‘ ریالوں اور اسلحے کی ایسی فراوانی تھی کہ ہمارے لوگوں کا دماغ بالکل ہی خراب ہو گیا۔ امریکیوں کو تو اپنا مفاد عزیز تھا اور اس کی خاطر ہمیں استعمال کررہے تھے اور ہمارا کیا کہنا کہ استعمال ہونے میں ہماری بے قراری دیدنی تھی۔ لیکن ہوا یہ بھی کہ جو افغانوں میں اسلحہ اور پیسے کی تقسیم پر معمور تھے اُن کی اہمیت بڑھتی گئی‘ اُن کی طاقت میں بے حد اضافہ ہوا۔ شروع دن سے سیاست یہاں ویسے ہی کمزور تھی اور جب دوسرے محکمے مضبوط ہوتے گئے تو سیاست اور سیاسی اداروں کی اہمیت و توقیر میں مزید کمی آتی رہی۔ آج ہم رو رہے ہیں کہ سیاسی اور آئینی تقاضے کمزور پڑ چکے ہیں اور دوسرے مراکز مضبوط ہو چکے ہیں تو وجہ اس کی یہی ہے کہ شروع میں امریکہ سے ٹینک اور طیارے آئے اور پھر لہو گرم کرنے والے نعروں کی للکار میں جو ڈالر اور ریال آئے ان سارے عوامل سے تھانیداری کے تقاضے بڑھ گئے اور سیاست بے چاری کسی یتیم خانے کیلئے ہی رہ گئی۔
یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکی کیمپ میں جانا کوئی حادثہ نہ تھا۔ تحریکِ پاکستان کی مسلم قیادت جو تھی اُس کی سوچ ہی رجعت پسندانہ‘ جاگیردارانہ اور روس مخالف تھی۔ حاکمیت ہم پر انگریزوں کی لیکن انگریزوں کے ہم حد سے زیادہ وفادار۔ انگریز مخالف جذبات تو ہماری مسلم لیگ قیادت کا حصہ ہی نہ تھے۔ ہم پہ خبط تو سوار تھا ہندوؤں کا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد جو جمہوریت کی بیماری ہندوستان کو لاحق ہو گی اُس میں اکثریت ہندوؤں کی ہو گی۔ ہمیں تو یہ غم کھائے جا رہا تھا‘ انگریز سامراج سے ہمارا کوئی مسئلہ نہ تھا۔
لہٰذا انگریز گئے اور ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو یہ تقریباً قدرتی امر تھا کہ پاکستانی قیادت سیدھی امریکی کیمپ میں جائے۔ اور وہاں گئے اور اسلحہ آنے لگا تو دماغ خراب ہو گئے۔ شروع کے دنوں میں امریکی معاشی امداد کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی لیکن امداد لینے کا آغاز کیا گیا اور پھر ایسی لَت پڑی کہ اُس سے چھٹکارا ناممکن ہو گیا۔ آج ہمارا کشکول ہے اور اُس بے وفا کا شہر ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved