دوسری عالمی جنگ کے خاتمے اور جمعیتِ اقوام (League of Nations) کی ناکامی کے بعد اقوامِ متحدہ وجود میں آئی‘ اس کی جنرل اسمبلی کو مجلسِ مباحثہ بنا دیا گیا۔ اس کی قراردادوں کے نفاذ کا کوئی مؤثر طریقہ کار موجود نہیں ہے‘ لہٰذا انکی حیثیت محض سفارش کی سی ہی رہتی ہے۔ البتہ سکیورٹی کونسل کے پاس کسی حد تک اپنی قراردادوں کے نفاذ کے اختیارات ہیں‘ مگر پانچ ممالک (امریکہ‘ روس‘ چین‘ برطانیہ اور فرانس) کو قراردادوں اور فیصلوں کو ردّکرنے کیلئے حقِّ تنسیخ (ویٹو پاور) دے دیا گیا ہے۔ ماضی میں دنیا دو قطبی نظام میں تقسیم ہو گئی تھی‘ سرمایہ دارانہ اور جمہوری ممالک کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں اور کمیونسٹ وسوشلسٹ ممالک کی قیادت سوویت یونین کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔ تحدید وتوازن کیلئے کم ازکم دو متوازی عالمی طاقتیں آمنے سامنے رہتی تھیں۔ بعض ممالک نے غیر وابستہ تحریک (Non Aligned Movment) کے عنوان سے اپنی ایک الگ تنظیم بھی قائم کر دی تھی۔
افغانستان میں دراندازی اور دس سال پر محیط افغان جہاد کے نتیجے میں سوویت یونین کو افغانستان سے ناکام ونامراد ہوکر نکلنا پڑا اور اسی کے نتیجے میں سوویت یونین بھی تحلیل ہو گیا۔ وسطی ایشیائی ریاستوں اور مشرقی یورپ کے ممالک کو آزادی مل گئی‘ دیوارِ برلن ٹوٹ گئی اور جرمنی متحد ہو گیا۔ اس کے بعد ایک نیا ورلڈ آرڈر وجود میں آیا‘ دو متوازی سپر پاورز یا دو قطبی نظام کے بجائے یک قطبی نظام وجود میں آیا اور دنیا امریکہ کے تابع ہو گئی۔ یورپی ممالک نیٹو کے پرچم تلے ویسے ہی امریکہ کے تابعِ مہمل تھے۔ اس دوران چین بلاشبہ دنیا کی ایک بڑی معاشی قوت بن چکا ہے‘ مگر ابھی وہ امریکہ کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں شاید نہیں ہے۔ عالمی تجارت بحری گزرگاہوں سے ہوتی ہے اور اس وقت امریکہ دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت ہے۔ پوتن کی قیادت میں روس ایک بار پھر سر اٹھا رہا تھا‘ مگر یوکرین جنگ نے اسے بھی وقتی طور پر محدود کر دیا ہے۔ اس دوران برازیل‘ روس‘ بھارت‘ چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل ایک گروپ برِکس (Brics) کے نام سے وجود میں آیا مگر ابھی تک وہ بھی امریکہ کیلئے چیلنج نہیں بن سکا۔ گزشتہ تین عشروں سے امریکہ کبھی اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتا رہا‘ جیسے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اور کبھی ایران جیسے ممالک پر یکطرفہ پابندی عائد کر کے دنیا کو اپنے تابعِ فرمان بناتا رہا ہے۔ ظاہر ہے: امریکہ نیٹو کے دفاعی اخراجات برداشت کر کے اس کی قیمت بھی ادا کرتا رہا ہے۔
20 جنوری 2025ء کو ٹرمپ کے موجودہ دورانیے کے آغاز سے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سارے اتحادیوں کو لاتعلق کر کے یکطرفہ اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ چین‘ کینیڈا اور میکسیکو وغیرہ پر نئی درآمدی محصولات عائد کر دی ہیں‘ یورپ کو بھی اسی صف میں رکھنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ''سب سے پہلے امریکہ‘‘ اور ''امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائو‘‘ اس کے مقبولِ عام نعرے ہیں۔ وہ مغربی یورپ پر دبائو بڑھا رہا ہے کہ اپنا دفاعی بجٹ جی ڈی پی کے پانچ فیصد تک بڑھائو‘ اس سے ان کی ویلفیئر سٹیٹ کا سارا ماڈل متاثر ہو جائے گا۔ پس کسی کو نہیں معلوم کہ ٹرمپ کے ان اقدامات کی روشنی میں نئے عالمی نظام (ورلڈ آرڈر) کی صورت گری کیا ہو گی اور یورپ کہاں کھڑا ہو گا۔ ٹرمپ یوکرین کے صدر کو اپنی شرائط پر روس سے جنگ بندی پر تقریباً مجبور کر چکا ہے اور بظاہر اس کے جن علاقوں پر روس قابض ہو چکا ہے‘ ان کی واگزاری کی کوئی ضمانت بھی نہیں ہے‘ بلکہ شاید صورتحال '' جیسی ہے اور جہاں ہے‘‘ (Status Quo) کی بنیاد پر معاہدہ کرانا چاہتا ہے۔ نیز یوکرین کو جنگی مَد میں دی ہوئی امدادکے عوض قیمتی معدنیات کا معاہدہ کرنے پر بھی مجبور کر رہا ہے۔ یورپ نے مسلم ممالک کی طرح ''اخلاقی اور سیاسی حمایت‘‘ کی طفل تسلی یوکرینی صدر زیلنسکی کو دی ہے اور فوٹو سیشن کے سوا کوئی عملی مادّی مدد کے آثار نظر نہیں آئے۔ چین اگرچہ بڑی معاشی قوت بن چکا ہے‘ لیکن سرِدست اُس کی امریکہ اور مغرب سے ٹکر لینے کی پالیسی نہیں ہے‘ وہ براہِ راست ٹکرائو سے بچ کر اپنی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے‘ بلکہ تیز تر کرنے اور سائنس وٹیکنالوجی میں مسابقت کی طرف گامزن ہے۔ ٹرمپ کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بننے کی پیشکش کر چکا ہے‘ اسی طرح ڈنمارک کے زیرِ تسلّط گرین لینڈ جزیرے کو بھی براہِ راست اپنے قبضے میں لینے کا عندیہ دے چکا ہے‘ اس لیے کسی کو نہیں معلوم کہ عالمی مستقبل کیا ہوگا‘ الغرض دنیا ایک انجانے موڑ پر آ کھڑی ہوئی ہے‘ کسی کو نہیں معلوم کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین؍ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ!
کہا جاتا ہے ہر ملک کی طرح ڈیپ سٹیٹ امریکہ میں بھی ہے‘ کیا وہ ٹرمپ کے پاپولزم کے ہوتے ہوئے اس کی طبعی جولانیوں کے آگے کوئی بند باندھ سکے گی‘ اس کا اندازہ ابھی کسی کو نہیں ہے۔ سردست وہ پاپولزم کے گھوڑے پر سوار بگٹٹ دوڑے جا رہا ہے۔ یوکرینی صدر زیلنسکی وائٹ ہائوس میں ہونے والی توتڑاک پرنہ صرف تحریری معافی مانگ چکے ہیں‘ بلکہ ٹرمپ کے مطالبات ماننے پر بھی آمادگی ظاہر کر چکے ہیں۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد روس چین کے زیادہ قریب آ چکا تھا‘ کیا ٹرمپ کا ایجنڈا روس اور چین میں فاصلے پیدا کرنا ہے اور چین کو تنہا کر کے اس کا مکو ٹھپنا ہے‘ وقت آنے پر سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ امریکی ڈیپ سٹیٹ پنٹاگون‘ سی آئی اے‘ نیشنل سکیورٹی کونسل‘ ایف بی آئی‘ ہوم لینڈ سکیورٹی‘ یو ایس سیکرٹ سروس اور اس جیسے اداروں پر مشتمل ہے۔ یو ایس ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی دلچسپی کا ایک اہم شعبہ دنیا کے مختلف حصوں میں جنگیں برپا کرنا ہے‘ کیونکہ اس سے ان کی ڈیفنس انڈسٹری کا پہیہ چلتا ہے اور ڈیپ سٹیٹ کے اداروں کو بے پناہ وسائل ملتے ہیں۔درآمدات پرمحصولات بڑھانے سے یقینا امریکہ کی مجموعی آمدنی میں اضافہ ہو گا‘ لیکن اس کے مابعد لازمی اثرات میں یہ بھی ہے کہ امریکی شہریوں کیلئے اشیائِ صرف کی قیمت خرید میں اضافہ ہو گا اور اگر اس کی تلافی ٹرمپ حکومت اجرتوں کو بڑھانے کی صورت میں کرتی ہے تو یقینا افراطِ زر میں اضافہ ہوگا اور کم آمدنی والے لوگوں کیلئے مصارفِ زندگی کو پورا کرنے میں مشکل پیش آئے گی‘ کیونکہ ٹرمپ کی ترجیح یہ ہے کہ بڑے ٹیکس دہندگان کو ٹیکسوں میں رعایت دی جائے۔ پس انجام کے اعتبار سے امریکہ کے مالیاتی میزانیے میں کوئی حقیقی اضافہ نہیں ہو پائے گا‘ اس کے برعکس امریکی شہریوں میں مایوسی اور ردعمل پیدا ہو سکتا ہے۔
اگر امریکہ کے ہاتھ اٹھانے کے نتیجے میں برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی اور جاپان اپنی فوجی قوت بالخصوص بحری بیڑوں میں اضافہ کرتے ہیں‘ تو یہ صورتحال امریکی بالادستی کیلئے ایک چیلنج کی صورت بھی پیدا کر سکتی ہے۔ مسلم ممالک سرِدست متاثرین میں رہیں گے‘ کیونکہ امتِ مسلمہ کے پاس کوئی عالمی مرکزی قیادت ہے اور نہ متمول مسلم ممالک اپنے وسائل میں دوسرے مسلم ممالک کو شریک کرنے کیلئے تیار ہیں۔ وہ تو اس کیلئے بھی تیار نہیں کہ مختلف شعبوں کے ماہرین‘ ٹیکنیشن‘ پیشہ ور اور لیبرفورس کی درآمد میں مسلم ممالک کو ترجیح دیں تاکہ ترسیلاتِ زر کی صورت میں پاکستان جیسے ممالک کو سہارا ملے۔ الغرض ابھی امت اور ملت کا کوئی عملی اور حقیقی تصور بہت دور ہے‘ امتِ مسلمہ قومی ریاستوں میں بٹی ہوئی ہے اور بعض اوقات ان کی وابستگیاں اور ترجیحات بھی مخالف سَمت میں ہوتی ہیں۔ مثلاً: وہ پاکستان کوبھارت پر ترجیح دینے کیلئے ہرگز تیار نہیں۔ اگر آج دبئی میں ''ایک فرد ایک ووٹ‘‘ کی بنیاد پر رائے شماری ہو جائے تو بھارت کے جیتنے کے امکانات نمایاں ہیں کیونکہ ان کی افرادی قوت ہر شعبے میں مسلم ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پس عالمی سیاست کو بے یقینی نے گھیر رکھا ہے‘ یورپ عالمی سیاست میں اتنا بے توقیر اور بے اثر گزشتہ صدیوں میں کبھی نہ تھا‘ جہاں پر اسے ٹرمپ نے لاکھڑا کیا ہے‘ بظاہر یورپ یہ تاثر تو دے رہا ہے کہ وہ ٹرمپ کی شرائط پر سرنگوں نہیں ہوگا‘ لیکن آنے والا وقت بتائے گا کہ عالمی سیاست کی تشکیل نو کیسے ہوتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved