ہارڈ ریاست کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ سختی سے کام چلایا جائے۔ یعنی کوئی مسئلہ اُٹھے تو ہاتھ میں ڈنڈا ہونا چاہیے۔ دیکھا جائے تو شروع دن سے ہی ہماری ریاست میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ اگر تھانیداری چلتی تو کیا بنگال علیحدہ ہو جاتا؟ بنگالیوں کے خلاف ڈنڈا استعمال ہوا اور اُس میں ہماری ریاست ناکام ہوئی۔ بلوچوں کے خلاف کتنی دفعہ سخت رویہ اپنایا گیا حتیٰ کہ ایک نہیں‘ وہاں کئی آپریشن ہو چکے ہیں۔ کوئی بھی کارگر ثابت ہوا؟
پہلے دن سے یہاں کوشش یہ رہی کہ اختیارات اور طاقت سینٹر میں مرکوز رہیں۔ فیڈریشن والی بات تو یہاں کبھی سمجھ نہ آئی۔ بنگالیوں کی اکثریت تھی تو اُس کا توڑ یہاں کی نوکر شاہی نے وَن یونٹ میں ڈھونڈا۔ آج کا جو پاکستان ہے اس سارے کو ایک صوبہ بنا دیا اور اس کے معاملات لاہور سے چلائے جاتے ۔ نوکرشاہی اور کچھ اہم اداروں میں ہم پنجابی اکثریت میں تھے جس کا مطلب یہی لیا گیا کہ پنجاب حکم چلا رہا ہے اور پھر قدرتی طور پر تمام خرابیوں کا ذمہ دار پنجاب کو ٹھہرایا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ یہاں اتنی بڑی ہو چکی ہے باقی تمام ادارے اس کے سامنے سکڑ کر رہ گئے ہیں۔ لیکن اس نظام سے کام چلتا تو پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی جو ہم بھگت رہے ہیں۔ لہٰذا اکابرینِ ریاست کو کون سمجھائے اور کیسے سمجھائے کہ یہاں تو ہارڈ ریاستی رویہ پہلے دن سے ہی روا رکھاگیا اور اُس سے کچھ حاصل نہیں ہوا‘ لہٰذا نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘ جمہوری رواداری کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
پچھلے دو تین سالوں کو ہی دیکھ لیں۔ یہ مان لیتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کوئی مثالی حکومت نہیں تھی‘ اُس میں لاکھ خامیاں تھیں لیکن اتنا تو دیکھا جائے کہ رجیم چینج کا تماشا رچایا گیا اور حالات بہتر ہونے کے بجائے ہر چیز کا ستیاناس ہو گیا۔ اگر ایک بُری چیز تھی تو اُس کی جگہ کوئی اچھی چیز آنی چاہیے تھی۔ لیکن یہاں کام الٹ ہوا اور پھر آوازیں اُٹھیں عوام نے کچھ کہنا چاہا تو سختی کا سہارا لیا گیا۔ مان لیاکہ عوام دبک گئے‘ کچھ کہنے والے چپ ہو گئے لیکن کیا مسائل حل ہوئے ہیں؟ پاکستان کو استحکام نصیب ہو گیا ہے؟ کیا ہماری حالت بہتر ہو گئی؟
لہٰذا التماس ہے کہ کچھ ٹھہراؤ پیدا کیا جائے اور سوچا جائے کہ قوم کیلئے اگلا قدم کیا ہونا چاہیے۔ موجودہ حال تو یہ ہے کہ ہر چیز کو اوپر سے دبایا جا رہا ہے۔ الیکشنوں کا یہاں کیا ہوا اُسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ صورتحال کتنی دیر برقرار رکھی جا سکتی ہے؟ ہر چیز کو کب تک دبایا جا سکتا ہے؟ اسی لیے مودبانہ التجا ہے کہ کچھ آگے کا سوچا جائے اور قوم کو بھی اعتماد میں لیا جائے کہ جو ہونا تھا ہو گیا لیکن موجودہ دلدل سے نکلنے کے لیے ہمیں یہ کرنا ہے اور ایسا ہم کریں گے۔ یہاں حکومتی ہرکاروں کو سنیں تو اُن کی زبانوں پر ایک ہی چیز آتی ہے کہ عمران خان کو برا بھلا کہتے رہو۔ اس سے کچھ حاصل ہو پھر تو ہم کہیں کہ بالکل ٹھیک ہے‘ اسی نشانے پر گولہ باری کرتے رہیں۔ لیکن کچھ تو خیال کریں کہ موجودہ صورتحال تادیر برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ ایسا نظام یا حکومتی بندوبست جس سے عوام بالکل بے دخل ہو جائیں‘ زیادہ دیر قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ یہاں بڑے بڑے لوگ آئے‘ بڑا مضبوط تھانیداری نظام اُن کا سمجھا جاتا تھا لیکن ایوب خان کو بھی جانا پڑا اور جب گئے تو حالت بُری ہو چکی تھی۔ یحییٰ خان بھی جتنی دیر رہے خوب مزے کیے اور ملک وقوم کا بینڈ بھی بجا گئے۔ ضیاالحق اپنے دور کے بڑے جابر حاکم تھے‘ اسلام کے وعظ بھی قوم کو خوب سنائے اور وہ اس لیے کہ کہنے کو اُن کے پاس اور کچھ نہ تھا۔ آخری وقتوں میں اُن کا نظام بھی محض ڈنڈے کے زور پر نہیں چل رہا تھا۔ تاریخ کے یہ سبق ہمارے سامنے ہیں ‘ ان سے کچھ سیکھا جائے۔ لیکن نہیں‘ وہی پرانی مشقیں ہم نے دہرائے جانی ہیں۔
نئی صورتحال البتہ یہ ہے کہ دونوں مغربی صوبوں میں تقریروں اور پریس کانفرنسوں کا سہارا نہیں بلکہ بندوق کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں باقاعدہ مسلح مہمات جاری ہیں۔ اور ان مہمات کی سنگینی ایسی ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں خطرناک قسم کے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ یہ سوالات ملک کی بقا اور مستقبل کے بارے میں ہیں کہ آگے جا کے ہو گا کیا۔ بہرحال ایک بات لکھ لی جائے کہ ازخود کسی نے کچھ کرنا نہیں۔ لاکھ کہا جائے کہ جمہوریت کی پاسبانی اور پاسداری ہونی چاہیے‘ ایسا خود سے کسی نے نہیں کرنا۔ اپنی تاریخ میں ہم نے دیکھا ہے کہ حاکمِ وقت اپنی لائن پر ہی چلتے رہتے ہیں‘ ادھر سے اُدھر نہیں ہوتے۔ تبدیلی ان کی مرضی سے نہیں آتی بلکہ ان کی مرضی کے برخلاف آتی ہے۔ اس لیے جمہوریت کی بات ہوتی رہے گی لیکن ہمارے کہنے سے کسی نے جمہوریت پسند نہیں بن جانا۔ تھانیدار یہی سمجھتے ہیں کہ سب سے مؤثر ہتھیار اُن کی تھانیداری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رونے دھونے سے کبھی اُکتا جاتے ہیں کیونکہ معلوم ہے کہ رونے دھونے سے کچھ ہوتا نہیں۔ جو نظام چلا رہے ہوتے ہیں ان کی روشیں بدلتی نہیں۔ اُن کی سوچ پرانے زاویوں پر قائم رہتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ طوفان آتا ہے تو بتا کے نہیں آتا۔ مشرف کا دور ہی دیکھ لیں‘ بڑے اطمینان سے اپنی کرسی پر براجمان تھے اور کہیں سے وکلا تحریک کھڑی ہو گئی۔ مشرف اور اُن کے ساتھیوں کو بات سمجھ ہی نہ آئی کہ ہو کیا رہا ہے۔ 2007ء کا سال کیا بھاری اُن پر گزرا۔ جج تھے کہ بے قابو ہو گئے اور حاکمِ وقت کے خلاف فیصلے آنے لگے۔ اور پھر حالات کا تقاضا ایسا ہوا کہ مشرف کو وردی اتارنی پڑی۔ جاتے جاتے اُس شخص کو کمان سونپ گئے جس کے بارے میں جلد ہی پچھتاوے کا شکار ہونے لگے۔ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ لیکن حکمرانی کے اپنے انداز ہوتے ہیں اور جو اقتدار میں بیٹھے ہیں اُن کی ایک اپنی نفسیات بن جاتی ہے۔ لہٰذا ہمارے کچھ کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔
ان تماشو ں کو دیکھ کر ایک خیال پختہ ہو رہا ہے کہ ہمارے ماڈل میں کچھ بنیادی خرابی تھی۔ جن مفروضوں پر یہ ماڈل تیار کیا گیا کہ مسلمان خطرے میں ہیں اور اپنی زندگی صحیح گزارنے کے لیے اُنہیں ایک علیحدہ ماحول چاہیے یہ سوچ منطق کی رو سے کچھ اتنی پختہ نہ تھی۔ علیحدہ ماحول چاہیے تھا تو زیادہ پائیدار بنیادوں پر اُس ماحول کو بنایا جاتا۔ یہ جو ایک ہی نظریاتی سانچے میں پاکستان کی مختلف اکائیوں کو ڈھالنے کی کوشش کی گئی یہ پچھتر چھہتر سال کے تجربات کے آئینے میں اتنی صحیح نہیں لگتی۔ ہمارا قومی المیہ یہ رہا کہ نظریات کا غلط مفہوم لیا گیا۔ اس سے ناکامی ہوئی لیکن ناکامی کو ماننے کے لیے ہم تیار نہیں۔
فارمولا تو بڑا سادہ سا ہے کہ لوگوں کی رائے کو اہمیت دی جائے لیکن پاکستان کا یہ مسئلہ ہے کہ اس سادہ سے فارمولے پر عملدرآمد ہمیں بہت مشکل لگتا ہے۔ قومی انتخابا ت کو چھوڑیں‘ اُن کا بتنگڑ جو ہم نے بنایا ہے سامنے ہے۔ یہاں لوکل الیکشن نہیں ہوتے۔ بڑے شہروں کا انتظام منتخب نمائندوں پر نہیں چھوڑا جاتا۔ پرابلم شاید ہمارے مزاج کا ہے۔ ہر چیز میں ہم نے تھانیداری کی کوشش کی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved