تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     10-04-2025

آم کے آم! گٹھلیوں کے دام

کفار کی ایجادات سے مجھے شروع ہی سے نفرت ہے۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ ان کی مخالفت کروں اور امتِ مسلمہ کو ان کے شر سے محفوظ رکھوں!
چنانچہ جب چھاپہ خانہ آیا تو میں نے ہندوستان سے لے کر ترکی تک اس کی مخالفت کی۔ یہ ایک شیطانی ایجاد تھی جس کا مقصد ہماری مقدس کتابوں کی توہین کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ کہاں سرکنڈے کے ترشے ترشائے پوتّر قلم دوات والی متبرک روشنائی اور کہاں چھاپہ خانے میں استعمال ہونے والی پتھر کی منحوس پلیٹیں اور لوہے کے دیگر ناپاک پرزے!! چہ نسبت خاک را با عالم پاک! اس کا مقصد ہمارے کاتبوں اور خوش نویسوں کو بیروزگار کرنا بھی تھا۔ جب خوش نویس کسی کتاب کی نقل تیار کرتا تو اس میں مہینے لگتے۔ اس تاخیر میں ایک خاص قسم کی برکت ہوتی‘ جبکہ پریس میں کتاب کی سینکڑوں نقلیں آناً فاناً تیار ہو جاتیں! یہ بھلا کیا بات ہوئی۔ چنانچہ جب پرتگالیوں نے جہانگیر کے دربار میں پریس کا تعارف کرایا تو میں نے ان کافروں کی سازش ناکام بنا دی۔ اسی طرح جب جرمنی سے چھاپہ خانہ لا کر عثمانی خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو میں نے اس کی مخالفت کی اور اسے مسلمانوں میں بے برکتی پھیلانے سے باز رکھا۔ لاؤڈ سپیکر کی مثال لے لیجیے۔ یہ آیا تو میں نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔ اسے مسجد میں داخل ہونے سے روکا۔ یہ اور بات کہ بعد میں یہ کافرانہ ایجاد ہماری عبادت گاہوں میں داخل ہو ہی گئی۔ مگر میں نے مخالفت کرکے اپنا فرض ادا کیا۔ ٹیلی فون ایک اور ناجائز آلہ تھا۔ پہلی بار میں نے اس میں سے آواز نکلتی سنی تو ''ھذا صوت الشیطان‘‘ کہہ کر اسے دھتکار دیا۔ وہ تو اس وقت کے عرب بادشاہ نے مجھے دھوکا دیا۔ اس نے ایک طرف سے اس پر تلاوت کروائی جو دوسرے کنارے پر مجھے سنوائی گئی۔ یوں مجھے ہتھیار ڈالنے پڑ گئے۔ یہی حال ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا ہوا۔ میں نے ان غیرمسلم شیطانی ڈھکوسلوں کی ہر میدان میں ہر ممکن مخالفت کی۔ فلموں کے خلاف تو میرا زہریلا پروپیگنڈا خوب کامیاب رہا! پاکباز لوگوں نے اپنے بچوں کو اس سے بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ معاشرے میں فلم کو غیر اخلاقی قرار دینے میں میری کوشش ہی کا عمل دخل تھا۔ معلوماتی ڈاکومینٹریز پر بھی میں نے عدم جواز کی چھاپ لگوائی۔ اہلِ پاکستان کو یاد ہو گا کہ کچھ عرصہ قبل میں نے سر عام صوفوں کو نذرِ آتش کیا اور باور کرایا کہ صوفے مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہیں۔ جہاں تک کار‘ بس‘ ٹرک‘ ٹرین اور ہوائی جہاز کا تعلق ہے تو اصولی طور پر مجھے کفار کی ایجاد کردہ ان سواریوں کی بھی مخالفت کرنی چاہیے تھی مگر یہاں مفادات کا ٹکراؤ آڑے آ گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ میں گھوڑوں اور اونٹوں پر سفر کرنے کی وکالت کرتا اور ان شیطانی سواریوں پر بیٹھنے کو کبیرہ گناہوں میں شمار کرتا‘ لیکن ان سے میں خود بھی فائدہ اٹھانا چاہتا تھا چنانچہ اس حوالے سے میں نے زبان بند رکھی۔
پھر سوشل میڈیا آ گیا اور سچ تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا آندھی اور طوفان کی طرح آیا۔ اس کے سحر نے مجھے حیران کر دیا۔ مخالفت کرتا تو کس بنیاد پر؟ اس کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ سب کچھ ملیامیٹ ہو گیا۔ ای میل‘ وٹس ایپ ہی کیا کم حیرت کدے تھے کہ یوٹیوب نے بالکل ہی میرے اوسان خطا کر دیے۔ اس کی مخالفت میں مَیں کہتا تو کیا کہتا! یہاں میری ذہانت کام آئی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ یوٹیوب کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کروں۔ یوٹیوب حقیقت میں ایک جادو نگری ہے۔ ہم خرما و ہم ثواب! شہرت الگ اور مالی منفعت الگ! لیکن یہاں یہ سوال اٹھا کہ میں یوٹیوب پر کروں گا کیا؟ پیشے کے لحاظ سے میں مستری تھا۔ کچھ کچھ مستری اور کچھ کچھ لوہار! مذہب تو میرے لیے ایک ہتھیار تھا۔ اسے میں ذاتی مفاد کے لیے اور کچھ کچھ سنسنی پھیلانے کے لیے استعمال کرتا تھا‘ ٹی وی اور لاؤڈ سپیکر کی مخالفت تو آسان تھی۔ اس میں ذاتی نقصان نہ تھا۔ مخمصہ یہ تھا کہ مذہب کا باقاعدہ علم میں نے حاصل نہیں کیا تھا۔ کہاں وہ علما جو آٹھ آٹھ دس دس سال دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ عربی زبان سیکھتے ہیں۔ دورۂ حدیث کرتے ہیں۔ تفسیر‘ منطق‘ فقہ‘ نحو کے علوم پر عبور حاصل کرتے ہیں۔ پھر مدتوں پڑھاتے ہیں۔ طلبہ کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ تصنیف و تالیف کا کام کرتے ہیں۔ ان کی زندگیاں قال اللہ اور قال الرسول کہتے کہتے گزر جاتی ہیں۔ اب یہ سب کچھ تو میں نے کیا نہیں تھا۔ تو سوال یہ تھا کہ یوٹیوب کے لیے مذہب کو کیسے استعمال کروں؟ آخر میرے زرخیز دماغ نے اس کا حل نکال لیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ چودہ سو سال سے جو اختلافی مسائل خوابیدہ چلے آرہے تھے اور امت کے افراد جن اختلافات کو بھول کر آرام و اتحاد سے زندگی بسر کر رہے تھے‘ انہیں پھر سے تازہ کروں‘ امت کے مختلف گروہوں کو آپس میں لڑاؤں‘ انہیں اشتعال دلاؤں اور ایک ہنگامہ پیدا کروں۔ جو اختلافی مسائل پہلے علما کی حد تک رہتے تھے‘ میں انہیں ان عام لوگوں تک لے آیا جو دین کی مبادیات تک سے ناواقف تھے۔ یوں گھر گھر میں مَیں نے تفرقہ پیدا کیا۔ لوگ دست و گریباں ہونے لگے۔ میں نے کوشش کی کہ شیعہ سنیوں سے جھگڑیں‘ سنی شیعوں سے اُلجھیں۔ یہ جو مسائل تھے کہ نماز پڑھتے وقت ہاتھ باندھنے ہیں یا کھلے چھوڑنے ہیں‘ رفع یدین کرنا ہے یا نہیں‘ آمین اونچی کہنی ہے یا آہستہ‘ ان مسائل کو میں نے خوب اچھالا۔ میں نے اپنے پیروکاروں کا ایک اچھا خاصا گروہ بنا لیا۔ ان پیروکاروں نے ان اختلافات کو گھر گھر‘ گلی گلی‘ شہر شہر پہنچایا‘ پھیلایا اور ہنگامے اٹھائے۔ پھر میں نے ایک قدم اور آگے بڑھایا۔ مزہ دوبالا کرنے کے لیے میں نے بڑے بڑے علما کو للکارنا شروع کر دیا۔ ان کی تضحیک کی۔ ان کا ٹھٹھااڑایا۔ اس سے نیم خواندہ‘ نیم تعلیم یافتہ لوگ بہت خوش ہوئے۔ ان کے ہاتھ ایک شغل لگ گیا۔ بحثیں مجادلوں کا رنگ اختیار کرنے لگ گئیں۔ میں نے اسی پر بس نہیں کیا‘ جو بزرگانِ کرام مرحوم ہو چکے تھے‘ بلکہ بعض کو تو دنیا سے رخصت ہوئے صدیاں بیت چکی تھیں! ان پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیا۔ مبتذَل قسم کے اعتراضات کیے۔ ان کے نام رکھے‘ ناشائستہ زبان نہ صرف خود استعمال کی بلکہ اپنے نیم تعلیم یافتہ اور بنیادی دینی علوم سے بے بہرہ پیروکاروں کو بھی اس راہ پر لگا دیا۔
الحمد للہ‘ میری شبانہ روز محنت رنگ لائی۔ آج ملک میں اختلافی مسائل پوری طرح اُبھر چکے ہیں۔ لوگ بحثیں کر رہے ہیں۔ لوگ جھگڑ رہے ہیں۔ لوگ چیخ رہے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے نماز روزے کو باطل قرار دے رہے ہیں۔ میں اپنی کھیتی کو پھل دیتا دیکھ کر خوش ہو رہا ہوں! واللہ! یہ کام جو میں نے کر دکھایا‘ مزے کا ہے۔ آم کے آم! گٹھلیوں کے دام! شہرت میری آسمان تک پہنچ چکی ہے۔ بڑے بڑے ثقہ علما مجھ سے خائف ہیں کیونکہ میری ناشائستہ زبان سے یہ باعزت علما خوف زدہ ہیں۔ جس طرح یوٹیوب کو میں نے استعمال کیا‘ یوٹیوب کے موجدوںSteve Chen‘ Chad Hurleyاور جاوید کریم نے تو اس کا سوچا بھی نہ ہو گا!! واہ واہ! سبحان اللہ! نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ یوٹیوب سے میں نے پیسہ بھی خوب کمایا! اپنے مکان میں مقید رہ کر میں نے وہ کام کر دکھایا جو بڑے بڑے تفرقہ باز نہ کر سکے! مسجد گیا‘ نہ امام بارگاہ‘ نہ کسی مدرسہ سے تعلیم حاصل کی نہ کسی عالم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ ہینگ لگی نہ پھٹکری! آج گھر گھر میرے نام کا چرچا ہے۔ اور ہاں! میں فخر سے کہتا ہوں کہ میں تو بات ہی اختلافی مسائل پر کرتا ہوں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved