4نومبرکو روزنامہ دنیا میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال پانچ سال سے کم عمر چارلاکھ بتیس ہزار بچے موت کا شکارہوجاتے ہیں۔ اس سرکاری رپورٹ کے مطابق دوتہائی اموات پیدائش کے بعد کے پہلے اٹھائیس دنوں میں ہیضہ اور نمونیا جیسی قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔یوں اس مملکت خداداد میں ہرروز 1184بچے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی غربت اور گندگی کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ریاست کے اپنے ادارے کی رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار سے ملک کے محنت کش طبقے کی حالت زار کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ زچگی کے دوران خواتین کی اموات، دوا اور علاج نہ ملنے کے باعث بزرگوں کی وقت سے پہلے وفات اور تعلیم، صاف پانی کی فراہمی اور نکاس کی سہولتیں کے حوالے سے اعداد و شمارمایوس کن ہیں۔ معصوم پھول جن کی جانیںانسانیت پر مبنی سماجی و معاشی نظام میں بچائی جاسکتی ہیں صرف اس لئے بن کھلے مرجھا جاتے ہیں کہ یہاں کے حکمران طبقات اورہوس زرکاماراہوا سرمایہ دارانہ نظام انسانیت کو وہ سہولتیں فراہم کرنے سے قاصر ہے جو کسی بھی مہذب معاشرے کا بنیادی تقاضا ہیں۔اس نظام کی درندگی کا شکار بن کر وقت سے پہلے غربت، بھوک اور قابل علاج بیماریوں کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہارنے والوں کے لواحقین کو یہ تسلی دے دی جاتی ہے کہ یہ ’’رضائے خداوندی‘‘ ہے۔ ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیاں جمہوریت کے کارناموں، سرکاری اداروںکی سرگرمیوں، آئین کی شقوں، سیاست کی ہیرا پھیریوں، بڑے ناموں مگر پست کردار لوگوں کی حرکتوں، دولت و شہرت رکھنے والوں کے قصے کہانیوں، میزائیلوں کے تجربات، فوجی مشقوں، کھلاڑیوں کے کھلواڑاور حکمرانوں کی آنیوں جانیوں پر مبنی ہوتی ہیں۔تمام چینلوںاوراخباروں پرایک وقت میں ایک ہی ایشو(جو زیادہ تر نان ایشو ہوتا ہے) بریکنگ نیوز اور ہیڈلائنوں کی زینت بنتا ہے۔ جس آئین کے تقدس کا حکمران اتنا شور مچاتے ہیںاس کی شق نمبر 3اور 36-A,Bکے مطابق ملک کے ہر شہری کو علاج اور تعلیم سمیت تمام بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی ریاست کا بنیادی فریضہ ہے۔اسمبلیوں اور اقتدار کے ایوانوں میں کون سا’’عوامی‘‘ نمائندہ ہے جس نے آج تک ان آئینی شقوں کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھا ہو؟ جس ’’جمہوریت‘‘ کی بقا کی جنگ ہمارے حکمران لڑ رہے ہیں اس میں جمہور کے حقیقی مسائل اور بنیادی ایشوز کو آخر کیوں دبا کر سیاسی افق سے اوجھل کر دیا جاتا ہے؟ 1184بچے جو ہر روز اس نظام زر کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں ان کے بارے میں ایک ہی اخبار میں چھوٹی سی رپورٹ کیوں چھپتی ہے؟ اس بربریت کا ذکر صرف ایک کالم میں ہی کیوں ہوتا ہے؟ کیا یہ دہشت گردی اور سامراجی ڈرون حملوں سے کہیں بڑے پیمانے کا قتل عام نہیں؟ ہمارے مذہبی رہنما دہشت گردوں کو تو ’’شہادت‘‘ کے رتبے پر فائز کرنے میں ذرا سی دیر نہیں کرتے لیکن اس نظام کی معاشی دہشت گردی کے ہاتھوں قتل ہونے والے یہ معصوم کیا انسان کی اولاد نہیں؟ کیا اس نظام کی معاشی بربریت سے ہونے والے قتل عام پر ’’از خود نوٹس‘‘ نہیں لیا جانا چاہیے؟ اسمبلیوں میں غربت اور محرومی کے خلاف کوئی قرارداد پیش کیوں نہیں کی جاتی؟ 1968-69ء کی انقلابی تحریک کے دبائو کے نتیجے میں 1973ء کے آئین میں محنت کش عوام کے بنیادی حقوق کے بارے میں شقیںڈالی گئی تھیں لیکن سوائے پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت کے، ان شقوں پر عمل درآمد کرنے کی کبھی کوئی کوشش کسی ’’جمہوری‘‘ یا فوجی حکومت نے نہیں کی ۔ آئین کے اس بنیادی حصے کو مسترد کرنے پر نہ تو ’’آئین کی خلاف ورزی‘‘ ہوتی ہے اور نہ ’’جمہوریت کو خطرہ‘‘ لاحق ہوتا ہے۔شاید ہمارے سیاست دانوں، اراکین اسمبلی،دانش وروں اورافسر شاہی کے پاس اتنا وقت کہاں کہ ایسے معمولی مسائل پر توجہ دے سکے۔آخر ان کے پاس کاروبار چمکانے اور دولت کے انبار لگانے جیسے ضروری کام بھی تو ہیں۔انہیں 18کروڑ کیڑے مکوڑوں کی فکر کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جہاں خیرات ایک صنعت بن جائے اور انسانی حقوق، حقوق نسواں، چائلڈ لیبر، ماحولیات اور ’’جانوروں کے حقوق‘‘ جیسے ایشوز کے لئے ہزاروں این جی اوز ہمہ وقت ’’سرگرم‘‘ ہوں وہاں ریاست کو مشقت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ریاست کا کام تو بس دفاع(جو ایٹم بم بنانے کے بعدبھی ناقابل تسخیر نہیں ہوا) ،ٹھیکوں اور کمیشنوں کے معاملات، ملکی سالمیت (جسے ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے)، امن و امان (جو قائم ہونے ہی لگتا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری اور دھماکے شروع ہوجاتے ہیں)، دہشت گردوں سے مذاکرات اور ریاستی اداروں کی لوٹ سیل لگانے جیسے ’’اہم امور‘‘ سرانجام دینا ہوتاہے۔ پھرعوام کی حالت بہتر بنانے کے لیے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے دوست بھی توہیں۔پھراس مملکت خداداد میں ذخیرہ اندوزی، قبضے، کرپشن، استحصال کے علاوہ ٹیکس، بجلی اور گیس چوری کرکے ہر سال حج پر جانے والے مخیر حضرات کی بھی کوئی کمی نہیں جو اپنی آخرت سنوارنے کے لئے فلاکت زدہ عوام کی طرف روٹی کے ٹکڑے پھینکتے رہتے ہیں۔ لہٰذا علاج، تعلیم، رہائش، صاف پانی اور خوراک جیسے چھوٹے موٹے معمول کے مسائل کے لئے سیاست اور ریاست کے ایجنڈے پر کوئی جگہ موجود نہیں ہے! گزشتہ تیس برس کے دوران خیرات نے این جی اوز کی شکل میں صنعت اور منافع بخش کاروبار کا درجہ حاصل کر لیا ہے لیکن ’’ درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘ کے مصداق عوا م کی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی جارہی ہے۔بنیادی ضروریات زندگی آبادی کی بھاری اکثریت کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔پینے کا صاف پانی آبادی کی اقلیت کو فراہم ہے۔ درست نکاس اور سینی ٹیشن سے آبادی کا بھاری حصہ محروم ہے۔بجلی آتی نہیں لیکن دام باقاعدگی سے بڑھتے ہیں۔ گیس اگر گاڑیوں کو ملتی ہے تو گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔الغرض، اس ملک میں زندگی کا کون سا ایسا شعبہ ہے جس میں عام شہریوں کوسہولت میسر ہو؟ ایک اقلیتی طبقے نے اپنے اقتدار ، دولت اور استحصال کو جاری رکھنے کے لئے عوام کو ذہنی، جسمانی اور سماجی طور پر اتنا لاغر کر دیا ہے کہ اس ملک کی اکثریتی آبادی کی تمام تر تگ و دو روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھنے تک محدود ہو چکی ہے۔انسانیت کا درد رکھنے کا تماشاکرنے والے شرفا اور مخیر حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ خیرات سے یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے۔دعائوں سے درد کم نہیں ہوتے اور فقط نیک خواہشوں سے تقدیریں نہیں بدلتیں۔بچوں کے بچپنے سے محروم ہونے والی مائوں اور مائوں کی مامتاسے محروم ہونے والے بچوں کے کرب پر ’’ترس‘‘ کھانا انسانیت کی توہین ہے۔اس درد کا مداوا صرف اور صرف سرمایہ داری کے ناسور کو اکھاڑ کر ہی کیا جاسکتا ہے جو ’’مخیر خواتین و حضرات‘‘ کبھی بھی نہیں چاہیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی حکمران طبقہ کبھی اپنی دولت اور حاکمیت سے رضاکارانہ طور پر دستبردار نہیں ہوا۔ عوام اپنی طاقت سے حکمرانوں کی آمریت کو اکھاڑتے ہیں اور اسی عمل کو انقلاب کہا جاتا ہے۔ محنت کش اپنی محنت سے اس سماج کی زندگی کو زندگانی بخشتے ہیں، محنت کش طبقے کی محنت سے ہی گھر روشن ہوتے ہیں، کارخانے چلتے ہیں، کھیت اناج اگلتے ہیں اور معاشرے کا پہیہ چلتا ہے ۔ سماج کو چلانے والا طبقہ ہی نظام بدل سکتا ہے۔وہ دن اس ملک کے حکمرانوں کے لئے بدقسمت ترین ہوگا جب یہاں کے محنت کشوں کو اپنی طاقت کا احساس ہوجائے گا۔فیض کے الفاظ میں: یہ ہر اک کی ٹھوکریں کھانے والے یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے یہ مظلوم مخلوق اگر سر اٹھائے تو انسان سب سرکشی بھول جائے یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں یہ مالکوں کی ہڈیاں تک چبا لیں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved