13 اپریل کو برطانوی شہر لیسٹر میں پروفیسر خورشید احمد 93 برس کی عمر میں رحلت فرما گئے تھے۔ ان کی کثیر الجہات شخصیت کے بارے میں میرا کالم 16 اپریل کو شائع ہوا تو بہت سے قارئین نے پسندیدگی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی مزید کالموں کا مطالبہ کیا اور کچھ تجاویز بھی دیں۔ پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے تہران یونیورسٹی سے ایک پیغام میں لکھا ''آپ نے اُن کی کتب کو چراغِ راہ قرار دیا ہے۔ اُس 'چراغِ راہ‘ کا بھی ذکر ہونا چاہیے جس کے 'نظریۂ پاکستان نمبر‘ کی آج کی نوجوان نسل کو پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے‘‘۔ نوجوان نسل کو میں یاد دلا دوں کہ پروفیسر خورشید احمد 'چراغِ راہ‘ جیسے علمی رسالے کے پچاس کی دہائی کے اواخر اور ساٹھ کی دہائی کے اوائل تک مدیر تھے۔ 1960ء میں انہوں نے 'نظریۂ پاکستان نمبر‘ شائع کیا تھا۔ اس شمارے کا اگلے کسی کالم میں تفصیلی تذکرہ ہوگا۔ بہت سے قارئین کرام نے توجہ دلائی کہ 1964ء کے ایوبی 'عدالتی بورڈ‘ کے سامنے 32 سالہ نوجوان قیدی خورشید احمد کے اس تاریخی بیان کا بھی تذکرہ ہونا چاہیے جس کی گونج آج تک سیاست کے ایوانوں سے لے کر اعلیٰ عدالتوں میں سنائی دیتی ہے۔ پہلے اس بیان کے پس منظر کے طور پر چند سطریں ملاحظہ کیجئے۔
1958ء میں اُس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے 1956ء کے متفقہ دستور کی بساط لپیٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا تھا۔ اگرچہ ایوب خان نے 1962ء میں صدارتی آئین نافذ کیا تھا مگر انہوں نے اپنی آمرانہ خُونہ چھوڑی۔ کسی شخص یا جماعت کی تنقید انہیں انتہائی ناگوار گزرتی تھی۔ تمام تر حکومتی حربوں اور پابندیوں کے باوجود جماعت اسلامی نے نام نہاد قانون کی پابندی کرتے ہوئے اکتوبر 1963ء میں سہ روزہ سالانہ اجتماع لاہور میں بھرپور کامیابی سے منعقد کیا۔ جماعت کی اس کامیابی کے بعد حکومتِ وقت اور بھی غضبناک ہو گئی۔ لاہور کے اس اجتماع کے صرف دو ماہ بعد 6 جنوری 1964ء کو وطنِ عزیز میں سر اُٹھا کر چلنے اور حکمرانوں کو ان کے فرائض یاد دلانے کی پاداش میں جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دے دیا گیا اور اس وقت کے مشرقی و مغربی پاکستان کے 50 ارکانِ مجلس شوریٰ وعاملہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ جماعت اسلامی نے پاکستان کی ساری تاریخ میں ہمیشہ قوم کے سامنے دلیل کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر جمہوری انداز میں کام کرنے والی جماعت ہے۔
فروری 1964ء میں جماعت اسلامی کے کم وبیش 50 ارکانِ شوریٰ کو جس عدالتی بورڈ کے سامنے پیش کیا گیا اس کی مسندِ انصاف پر وہ صاحب بھی تشریف فرما تھے جن کے دستخطوں سے جماعت کے زعما کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ ایسے کمالات و عجائبات وطنِ عزیز میں عام ہیں۔
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں‘ کس سے منصفی چاہیں
اس ''عدالتی بورڈ‘‘ کے سامنے پیش ہونے کیلئے جماعت اسلامی کے تمام اسیروں کو ملک کی مختلف جیلوں سے لاہور لا کر یہاں ایک جیل میں جمع کر دیا گیا۔ 28 فروری 1964ء کو مولانا مودودی نے بورڈ کے سامنے پیش ہو کر 17 فل سکیپ صفحات پر مشتمل بیان دیا۔ اس بیان میں مولانا نے اپنی گرفتاریوں کا اصل پس منظر‘ ظالمانہ سیاسی کھیل اور ملکی قانون کو موم کی ناک بنا کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے ڈرامے اور اس کے کرداروں کو بڑے مؤثر طریقے سے بے نقاب کیا۔ مولانا نے جیل کے اندر بے سرو سامانی کے عالم میں دو دن اور ایک رات میں بہت محنت سے اس بیان کو عالمی تاریخِ انصاف کی ایک ناقابل فراموش دستاویز بنا دیا تھا۔
جماعت کے تمام زعمائے کرام‘ جن میں میاں طفیل محمد‘ پروفیسر غلام اعظم‘ پروفیسر غفور احمد اور سیّد اسعد گیلانی وغیرہ نے بورڈ کے سامنے اپنے اپنے رنگ میں اپنا اپنا فسانۂ دل سنایا اور اپنا رنگ خوب جمایا۔ مولانا گلزار احمد مظاہری نے اپنے بیان کا اختتام اس دعا پر کیا: یا اللہ! ہمارے حکمران اپنے آپ کو عقلِ کل ہی نہیں‘ مختارِ کل بھی سمجھتے ہیں۔ حکمران تاریخِ عالم کے اوراق پلٹیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ دنیا میں آمروں کا کیا حشر ہوا تھا۔ خالقِ دو جہاں ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے اور انہیں انجامِ بد سے بچا۔ تاہم جس بیان نے مولانا مودودی کے بعد اپنی دھاک بٹھا دی وہ جماعت اسلامی کے نوجوان رکنِ شوریٰ پروفیسر خورشید احمد کا تھا۔
پروفیسر صاحب اپنی کتاب ''تذکرۂ زنداں‘‘ میں لکھتے ہیں: ارکانِ بورڈ نے کئی بار کوشش کی کہ لوگ صرف مولانا کے بیان پر ایضاً کہہ دیں اور چلے جائیں مگر ارکانِ شوریٰ نے اس سے صاف انکار کر دیا اور ہر ایک نے اپنے انداز میں اپنا دفاع پیش کیا:
کوئی حد ہی نہیں شاید محبت کے فسانے کی
سناتا جا رہا ہے‘ جس کو جتنا یاد ہوتا ہے
پروفیسر خورشید احمد نے عدالتی بورڈ کے ایک رکن‘ ہوم سیکرٹری شہزادہ عالمگیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے بحیثیت ایڈووکیٹ جنرل 1953ء میں مولانا مودودی اور جماعت کے دوسرے رہنماؤں کیلئے سزائے موت اور لمبی قیدوں کا مطالبہ نہیں کیا تھا؟ عدل کی تابناک روایات یہی ہیں کہ جب ایک شخص کسی ایک پارٹی کے سلسلے میں ایک مرتبہ فریق کی پوزیشن لے لیتا ہے تو پھر اسے مذکورہ شخص کے خلاف فیصلہ کرنے کے مقام پر نہیں بٹھایا جاتا۔ پروفیسر خورشید احمد بورڈ کے سامنے 3 مارچ کو پیش ہوئے مگر اُن کی حوالہ جاتی کتب کا گٹھڑ دیکھ کر ارکانِ بورڈ نے کہا کہ آپ کا بیان مختصر نہیں مفصل لگتا ہے‘ اسے کل پر رکھیے۔ اگلی بات پروفیسر صاحب کی زبانی سنیے: ''4 مارچ 1964ء کو بخار کی شدت کم کرنے کیلئے دو انجکشن لگوائے اور پھر ساڑھے آٹھ بجے صبح ہم عدالت پہنچ گئے۔ گیارہ بج کر چالیس منٹ پر مجھے بورڈ نے بلایا اور ساڑھے تین بجے میں نے اپنا کیس مکمل کیا۔ بیچ میں 25 منٹ کا وقفہ کھانے اور نماز کیلئے رہا۔ اس طرح الحمدللہ میں نے تین گھنٹے لیے اور یہ سب سے زیادہ وقت تھا جو کسی نے بورڈ کے سامنے پیشی کے موقع پر لیا:
ہزار طوق و سلاسل ہوں‘ لاکھ دار و رسن
جنوں کو حوصلۂ کار آ ہی جاتا ہے
بیشتر گفتگو اردو میں ہوئی‘ درمیان میں کبھی سلسلہ کلام انگریزی میں بھی شروع ہو جاتا۔ ہوم سیکرٹری صاحب اکثر سوال انگریزی ہی میں کرتے اور میں اُن کا جواب انگریزی ہی میں دیتا۔ تین گھنٹے کے بعد جب میں نے اپنی بات مکمل کر لی تو بظاہر ارکانِ بورڈ اور سی آئی اے کے افسران سب پر ہی خاصا اثر تھا۔ ایک صاحب نے کہا ''گو مجھ کو کہنا تو نہیں چاہیے لیکن آپ کو سننا ہمارے لیے ایک حقیقی مسرت تھا۔ آپ نے اپنا اور اپنی جماعت کا مقدمہ بہت خوبی سے پیش کیا ہے‘‘۔ جو فردِ جرم پروفیسر خورشید احمد کو سنائی گئی‘ کم و بیش وہی فردِ جرم جماعت اسلامی کے ہر قیدی پر عائد کی گئی۔ اس کی تفصیلات اور پروفیسر صاحب کا مفصل جواب ''تذکرۂ زنداں‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے فردِ جرم میں عائد کیے گئے تمام الزامات کا قانون کی زبان میں ٹھوس استدلال کے ساتھ جواب دیا۔ اس قانونی بحث کے بعد انہوں نے واقعاتی حوالے سے ایک ایک الزام کو لے کر اس کی حقیقت واضح کی۔
جماعت کے قانونی ودستوری استدلال کو بالآخر فتح نصیب ہوئی۔ پہلے ڈھاکہ ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے حکومت کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے جماعت اسلامی کو بحال کر دیااور 9 اکتوبر 1964ء بروز جمعۃ المبارک جماعت کے اسیروں کے لیے زندانوں کے دروازے کھل گئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved