اگر ہم اگست 1947ء تک پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیں تو پُرامن اور معمول کے تعلقات کے ادوار کشیدہ تعلقات کے ادوار سے کم رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان کے تعلقات میں تقسیم کی لکیر ستمبر 1965ء کی جنگ ہے‘ جس نے ان کے تعلقات کی نوعیت کو یکسر تبدیل کر دیا۔ 1947ء میں دو آزاد ریاستوں کی حیثیت سے پاکستان اور بھارت نے 1947-48ء کے فسادات اور مہاجرین کا مسئلہ‘ کشمیر کا تنازع‘ پانی کا تنازع اور خارجہ پالیسی کی مختلف سمتوں اور عدم اعتماد کے باوجود فعال تعلقات کو برقرار رکھا۔ ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرنا آسان تھا اور تجارت اور بینکنگ کا نظام بھی کام کر رہا تھا۔ ڈاک کا نظام بھی برقرار تھا۔ نہ صرف خطوط بلکہ کتابوں کے چھوٹے پارسل بھی بھارت سے وصول کیے جا سکتے اور بھیجے جا سکتے تھے۔ ایک دوسرے کے اخبارات اور رسائل کراچی‘ لاہور اور دہلی میں دستیاب تھے۔ اپنی گاڑی میں دوسری طرف سفر کرنے کی اجازت حاصل کی جا سکتی تھی۔ پاکستانی سنیما گھروں میں بھارتی فلمیں باقاعدگی سے لگتی تھیں۔ کچھ پاکستانی فلمیں‘ خاص طور پر پنجابی فلمیں بھارت میں بھی لگیں۔
1965ء کی جنگ کے بعد یہ سب بدل گیا۔ بھارت اور پاکستان کی طرف سے امن معاہدہ‘ جسے جنوری 1966ء کا تاشقند معاہدہ کہا جاتا ہے‘ پر دستخط کے بعد بھی تعلقات کو معمول پر لانے میں کئی سال لگے۔ تجارت‘ سفر اور ڈاک کی سروسز بحال ہو گئیں لیکن یہ صورتحال 1965ء کی جنگ سے پہلے کی سطح پر واپس نہیں آ سکی۔ یہ ایک محدود رشتہ تھا جس کو 1971ء میں مشرقی پاکستان میں بھارت کی فوجی اور غیر فوجی مداخلت اور نومبر‘ دسمبر 1971ء کی پاک بھارت جنگ‘ جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہوا‘ کی وجہ سے ایک بڑا دھچکا لگا۔ جولائی 1972ء میں شملہ میں ایک اور امن معاہدے پر دستخط ہوئے جس سے تعلقات کی بحالی کا آغاز ہوا۔ تاہم تعلقات کو معمول پر آنے میں کم از کم تین سال لگے‘ لیکن 1965ء کی جنگ کے بعد تعلقات زیادہ تر محدود ہی رہے۔ محدود تجارتی اور سفری ویزا کی سہولتیں حاصل ہو گئیں] محدود پوسٹل سروس بھی بحال کر دی گئی۔ یہ 1970ء کی دہائی کے اواخر اور 1980ء کی دہائی کے اوائل میں ہوا۔ ٹرین اور بس کے ذریعے سفر کرنا ممکن ہوا حالانکہ سفری ویزا کے اجرا پر پابندی برقرار رہی۔
1980ء اور 1990ء کی دہائی میں تین اہم پیشرفتیں پاک بھارت تعلقات میں نمایاں تھیں۔ سب سے پہلے 1980ء کی دہائی کے وسط‘ خاص طور پر 1990ء کی دہائی میں امریکی‘ یورپی اور برطانوی فنڈنگ کی مدد سے غیر سرکاری سفارتکاری میں اضافہ ہوا۔ یہ سفارتکاری‘ جسے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کہا جاتا ہے‘ نے مختلف معاشرتی گروہوں اور شخصیات کو‘ بشمول ریٹائرڈ فوجی افسران‘ ریٹائرڈ بیورو کریٹس‘ میڈیا پرسنز‘ ماہرینِ تعلیم اور دونوں ممالک کی اہم معاشرتی شخصیات کو بھارت اور پاکستان کے مسائل حل کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنے کے قابل بنایا۔ دونوں حکومتوں نے اس عمل کی حوصلہ افزائی کی۔ دوسرا‘ کشمیر میں 1987ء کے ریاستی انتخابات میں بڑے پیمانے پر ہونے والی دھاندلی اور بھارتی ریاستی اختیار کو چیلنج کرنے والے کشمیریوں کے خلاف ریاستی جبر میں اضافے کے نتیجے میں 1988-89ء میں مقبوضہ کشمیر میں بغاوت پھوٹ پڑی۔ بھارت کے سرکاری حلقوں نے کشمیر میں سیاسی احتجاج اور تشدد کا الزام پاکستان پر لگایا جس نے 1990ء میں بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو بُری طرح متاثر کیا۔
تیسرا‘ پاکستان نے 11 اور 13 مئی 1998ء کو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 اور 30 مئی کو ایٹمی دھماکے کئے۔ پاکستان کے ایٹمی ردعمل کا مقصد بھارتی ایٹمی بلیک میلنگ کو روکنا تھا۔ ماضی میں بھارت اکثر اپنے فوجیوں کو سرحدی علاقوں میں منتقل کرتا تھا یا پاکستان پر دباؤ ڈالنے کیلئے وہاں فوجی مشقیں کرتا تھا۔ پاکستانی حکام نے بھارت کے فوجی خطرے کو بے اثر کرنے کیلئے جوابی فوجی اور سفارتی اقدامات کیے۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے پاکستان نے بھارت کے نئے ایٹمی خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے بھی ایسا ہی کیا۔ بعد میں بھارت نے جوہری صلاحیت کے سائے تلے کم اہم روایتی فوجی چالوں کی بات کرکے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ ان اقدامات میں محدود جنگ کا تصور‘ سرجیکل سٹرائیک‘ کولڈ سٹارٹ حکمت عملی‘ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر تشدد میں اضافہ اور بلوچستان میں منحرف عناصر کی حمایت شامل تھی۔ پاکستان نے میزائل ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈِلیوری سسٹم سمیت جوہری اور روایتی دفاعی نظام کو اَپ ڈیٹ کرکے ان اقدامات کا مقابلہ کیا۔ مسئلہ کشمیر سمیت بھارت پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کی ایک نئی کوشش 2004-2008 ء میں ایک مکالمے کے ذریعے کی گئی جس میں مسئلہ کشمیر کا قابلِ قبول حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ بھارت اور پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے چار نکاتی فارمولے پر غور کیا جس میں کسی علاقائی تبدیلی کے بغیر کشمیریوں کیلئے لائن آف کنٹرول پر نرمی‘ کنٹرول لائن کے پار مشترکہ انتظامی یا قانون سازی کا طریقہ کار شامل ہے۔ تاہم پرویز مشرف کے اقتدار سے نکلنے‘ ممبئی حملوں اور اس فارمولے پر عمل کرنے کیلئے دونوں حکومتوں کی عدم آمادگی کی وجہ سے یہ عمل 2008ء میں رُک گیا۔
کشمیر اور بھارت میں دہشت گردی کیلئے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے کی بھارتی پالیسی نے بھی ان کے تعلقات کو کشیدہ کیا۔ مئی 2014 ء میں بھارت میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد پاک بھارت تعلقات میں تازہ ترین تعطل شروع ہوا۔ مودی حکومت نے اگست 2014ء میں پاکستان کے ساتھ بات چیت معطل کر دی۔ اس کے بعد سے دو طرفہ بات چیت نہیں ہوئی۔ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا اور اسے ''ریاست‘‘ کی حیثیت سے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تبدیل کر دیا۔ پاکستان نے بھی کشمیر کی ریاست کی حیثیت کی بحالی کے مطالبے کے ساتھ بھارت کے ساتھ تجارت اور سفر سمیت تمام تعلقات معطل کر دیے ہیں‘ جیسا کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 میں تصور کیا گیا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات کو بھی ''ہائی کمشنر‘‘ سے ''چارج ڈی افیئرز‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
2019ء کے بعد بھارت کی پاکستان پالیسی کا مقصد پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا نہیں۔ بھارت نے پاکستان کے بارے میں مسترد کر دینے والا رویہ اپنایا ہوا ہے۔ بھارت کا ماننا ہے کہ ایشیا اور دیگر علاقوں میں چین کے کردار کو روکنے کیلئے امریکہ‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ شراکت داری کی وجہ سے اسے پاکستان کے ساتھ مسائل کے حل میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے اس نے پاکستان کے بارے میں تین جہتی نقطہ نظر اپنایا ہے: ایک‘ پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور ریاستی مسائل کا پروپیگنڈا اور پاکستان میں داخلی انتشار کو ہوا دینے کیلئے ناراض عناصر اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت۔ پاکستان کے ساتھ براہ راست بات چیت نہ کرنا اور دشمنی پر مبنی بیانات اور فوجی حرکتوں کے ذریعہ فوجی دباؤ میں رکھنا۔ انٹرنیٹ پر مبنی پلیٹ فارمز اور جعلی ویب سائٹس کو پاکستان مخالف پروپیگنڈے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی پالیسی‘ روایتی اور غیر روایتی سکیورٹی کو مضبوط بنانے‘ سفارتی سطح پر بھارت کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے اور چین کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دینے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف فعال سفارتی تعامل اور تعاون کو برقرار رکھتے ہوئے دفاعی ہے۔ ان حکمت عملیوں نے پاکستان کے خلاف بھارتی مہم کو جزوی طور پر بے اثر کر دیا ہے۔ تاہم ان عوامل‘ خاص طور پر مودی حکومت کی دشمنی نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں اب تک کا سب سے بڑا ڈیڈ لاک پیدا کیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved