تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     21-04-2025

سدا سندھ بہتا رہے

ہمارا سندھ اور دریائے سندھ سے رشتہ بہت پرانا ہے۔ جہاں بھی ہم رہیں‘ دریا اور اس کے کناروں کی سرزمین‘ شمالی علاقوں سے لے کر بحیرہ عرب تک‘ ہمارے خوابوں اور خیالوں میں خوشبوئیں بکھیرتی رہتی ہے۔ شعور کی آنکھ اس دریا کے کنارے کھولی۔ تب وہ موجوں میں تھا۔ اپنے گھر اور جنگل کی حدود سے آگے اگر کوئی تصویر اپنے ذہن میں ایک قیمتی خزانے کے طور پر محفوظ ہے تو وہ سکول کا پہلا دن‘ جب 72 سال پہلے دریا کا بپھرا ہوا پانی کسی اژدھے کی طرح ایک پورے قدیمی بازار کو اپنی لپیٹ میں لیے ہڑپ کیے جا رہا تھا۔ ایک صدی پہلے تعمیر شدہ پرائمری سکول ایک رات پہلے غائب ہو چکا تھا۔ لوگوں کا ایک جم غفیر کنارے پر کھڑا بے بسی سے دریا کی طغیانی کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی موجوں کی گھن گرج اور زمین کے کٹائو اور اس کے بڑے بڑے حصوں کے دھڑام سے گرنے کا شور اتنا زیادہ تھا کہ میں سہما ہوا اور خوف زدہ تھا۔ ہمارا سکول چند دن بعد کچھ فاصلے پر ایک جھونپڑی میں آباد ہو گیا۔ دو اساتذہ اور تیس چالیس بچے۔ ایک طرف جنگل‘ دوسری طرف دریا تھا۔ تب ہم لوگ ان صدیوں پرانے جنگلات میں چھوٹی چھوٹی بستیوں کی صورت‘ جو خاندانی ہوا کرتی تھیں‘ رہتے تھے۔ اکثر لوگوں کی گزر اوقات مال مویشی پالنے پر ہوتی‘ مگر خود کفالتی زراعت بھی تھی۔ زمین کے قابلِ کاشت ٹکڑے محدود تھے۔ ایک نہر دور دراز سے آتی‘ مگر صرف گرمیوں کے مہینوں میں ہی اس میں پانی ہوتا تھا‘ جب بارشوں سے دریا بھر جاتا۔ ہمارے ملک میں سبھی علاقوں میں انگریزی دور سے پہلے کھیتی باڑی کہیں کنویں کھود کر اور اکثر دریائوں کے کنارے ہوا کرتی تھی۔ تاریخی طور پر یہ درست نہیں کہ سب سے پہلے انگریزوں نے نہریں دریائوں سے نکالیں۔ انہوں نے بیراج بنائے‘ دریائوں کو روک کر مزید نہریں نکالیں اور مرکزی پنجاب اور سندھ میں کئی بیراج بنائے تاکہ پانی سارا سال زراعت کے لیے مہیا رہے۔ اس سے قبل نہریں ہر دریا میں سے نکالی جاتی تھیں‘ بلکہ ہزاروں کی تعداد میں تھیں جو زمینداروں نے خود کھود کر اپنی زمینیں آباد کی تھیں۔ اس طرح کی نہریں آج بھی دریائوں کے کناروں پر موجود ہیں جو صرف سیلاب کے وقت ہی کھیتوں کو سیراب کرتی ہیں۔
ہم نے دریائے سندھ کو اُس زمانے میں دیکھا ہے جب دریا تقسیم نہیں ہوئے تھے۔ بیاس‘ ستلج اور راوی اپنی تمام شان وشوکت کے ساتھ اپنی تاریخی گزر گاہوں سے مستیاں اور اٹکھیلیاں کرتے‘ اپنے ساتھ لائی ہوئی زرخیز مٹی اور پانی کی خیرات بانٹتے آپس میں پنجند کے مقام پر مل جاتے تھے۔ سندھ مغرب میں کچھ فاصلے پر اب بھی بہتا ہے۔ ہمارے آبائی علاقے میں دریا ایک ہی ہے‘ اور اس طرح سندھ میں بھی کہ سب دریا کوٹ مٹھن سے ذرا شمال میں اس میں آ کر گرتے ہیں۔ اب تو صرف سیلابوں کے دنوں میں ہی ستلج اور راوی میں کچھ پانی نظر آتا ہے‘ بس ماضی کی نشانیاں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ یہ دریا تقسیم کرنے کے دلائل‘ اپنی جان کی امان پاتے ہوئے کہوں گا‘ ہمیں تو قائل نہیں کر سکے۔ دریا تو صرف زمینوں کی نہیں‘ تہذیبوں کی سیرابی کرکے آئے ہیں۔ انگریزی دور سے بیاس‘ ستلج پر بنی نہروں کے پانیوں کی تقسیم دو ریاستوں‘ بہاولپور اور جیسلمیر کے درمیان تھی‘ اور اس طرح دیگر بیراجوں پر بھی مشرقی اور مغربی پنجاب کے اضلاع کے درمیان ایسے معاہدے تھے۔ آخر کب تک بھارت نہروں کا پانی روکے رکھتا۔ حکمرانوں کو جلدی بہت تھی‘ اور ان سے کہیں زیادہ عالمی بینک کو قرضہ دینا تھا۔ دنیا کے ہر خطے میں دریا کئی ممالک کے درمیان میں سے بہتے ہیں‘ سب میں معاہدے ہوتے ہیں اور سب اپنے اپنے حصے مقرر کرکے پانی لیتے ہیں۔ دریائوں کی تقسیم کا فارمولا‘ تین آپ کے اور تین ہمارے‘ صرف یہاں ہمارے خطے میں ہی آزمایا گیا‘ اور اس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
اب تو وہ خاک میں خاک ہو گئے۔ اگر زندہ ہوتے تو ان خشک بیاس اور ستلج کے کناروں اجڑی بستیاں‘ گائوں اور کسی زمانے کے ہر ے بھرے کھیتوں کی جگہ اب اُڑتی ریت دیکھتے۔ تین مرتبہ بیاس کے کنارے‘ کوٹ رادھا کشن کے مشرق کی طرف ایک گائوں جانے کا اتفاق ہوا۔ لوگ نقل مکانی کرکے کہیں اور جا بسے ہیں۔ جو مجبور ہیں صرف وہی رہ گئے ہیں۔ چولستان بھی ایک زمانے میں دریائوں کی سرزمین تھی۔ دریا موسمی اثرات سے اپنا رخ تبدیل کر گئے تو زرخیز زمینیں صحرا میں بدل گئیں۔ یہاں ڈیموں اور نہروں کی مخالفت مقصود نہیں کہ تاریخی طور پر انسان دریائوں کے پانیوں سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ انگریزی دور میں اس میں جدت آئی اور اب اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ ہمارا مسئلہ کچھ اور ہے کہ دریائوں کے پانی کی مقدار تو وہی ہے جو اِن کے تقسیم ہونے کے بعد تھی مگر آبادی چھ گنا بڑھ چکی ہے۔ آج کل چونکہ روٹی‘ پانی‘ بجلی‘ ہوا اور نجانے کس کس بات پر سیاست ہوتی ہے تو اس لیے پانی کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے روٹی کی مثال دیتے ہیں۔ ایک آدمی کے پا س کھانے کے لیے چھ روٹیاں ہوں اور پھر پانچ افراد کنبے میں اور شامل ہو جائیں تو ہر ایک کے حصے میں ایک ہی روٹی آئے گی۔ آب بے شک جعلی پیروں فقیروں سے پھونک مروا کر دیکھ لیں وہ ایک سے چھ نہیں ہو سکتیں۔ آبادی بڑھی تو شہر بھی پھیلنا شروع ہو گئے۔ صنعتوں کے علاوہ اتنی بڑی آبادی کی زرعی ضرورت کے لیے بھی پانی درکار ہے۔ اب ہم دنیا کے ان ممالک کی صف میں پہلے نمبر پر ہیں جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔
اگر کسی میں عقل ہوتی تو پانی کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے نہروں اور ڈیموں سے کہیں زیادہ ترجیح آبادی کے مسئلے کو دیتا۔ آپ جتنے بھی ڈیم بنا لیں اور نہریں کھود لیں‘ آبادی پر کنٹرول نہیں تو بڑھتی ہوئی آبادی دیمک کی طرح چاٹ کر تمام وسائل کا صفایا کر دے گی۔ یہ حکمرانوں کے ٹولے اور ان کے گماشتے جو روزانہ ہمیں ہر شام لڑائی جھگڑوں کی ڈرامہ بازیاں دکھا رہے ہوتے ہیں‘ کسی سے آبادی کو کنٹرول کرنے کے پروگرام کے بارے میں کسی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہو تو ہمیں بھی خبر کر دیں۔ صرف سیاسی دکان چمکانے کے لیے اس آبادی کے لیے اگلے مہینے راشن کا نعرہ ہے‘ تو کہیں لاکھوں گھر بنانے کی تجویزیں‘ کہ حکمرانوں کے سیاسی شعور کی پرواز کی حد یہیں تک ہے۔ آج جو بھی ہمارے دریائوں میں پانی کے بہائوکی صورت ہے‘ اسے دیکھ کر خوف آتا ہے کہ کہیں ان کا حال بیاس‘ ستلج اور راوی جیسا نہ ہو جائے۔ معیشت کے دو پہلو ہمیشہ سے رہے ہیں‘ طلب اور رسد۔ اگر پانی کی طلب آبادی‘ زراعت‘ صنعت اور شہری آبادیوں کی ضرورت کے لیے بڑھتی رہے گی تو رسد کے لیے آپ کیا تدبیر کر سکتے ہیں‘ جب پانی کی دریائوں میں مقدار وہی رہے یا موسمی اثرات کے نتیجے میں کم ہو جائے۔ ہمارے ہاں مل بیٹھنے‘ سر جوڑنے یا موسمی اثرات کے تمام حقائق سامنے رکھ کر بات کرنے کی روایت دھول بن کر اڑ چکی ہے۔ فصلی بٹیروں کی سیاست میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ مجمعوں میں آستینیں چڑھا کر ایک دوسرے کو للکاریں اور ہر حل طلب مسئلے کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیں۔ اب تو سندھ دریا وہ نہیں رہا جو ہم نے پہلے دن دیکھا تھا۔ ایک دن اُس نے بھی جواب دے دینا ہے کہ اب میرے پاس کچھ نہیں‘ سب کچھ تو پہلے لے چکے ہو۔ بس دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ سندھ سدا بہتا رہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved