ہم دنیا کی واحد ایسی گورننس ہیں جہاں فیکٹس اینڈ فگرز کی ضرورت ہے نہ انڈسٹری کا پہیہ چلانے کی کوئی ترجیح۔ قوتِ خرید سے محروم عوام کو بے لگام اور منہ زور مہنگائی سے بچانے کے لیے پرائس کنٹرول کا سسٹم سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس کے باوجود سرکار کی ہمت اور جرأتِ اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ وہ دعویٰ کر رہی ہے‘ ہم نے مہنگائی 61 سال کی کم ترین سطح تک لُڑھکا دی۔ ترقی کا دوسرا پیمانہ چیختا ہے‘ اللہ کے فضل وکرم سے سعودی عرب‘ یو اے ای اور پیپلز ری پبلک آف چائنہ نے قرضوں کی واپسی میں ایک سال کی مزید مہلت دے چھوڑی۔ اب تو یہ بھی ہمارے لیے خوشخبری بن چکی ہے کہ آئی ایم ایف ہمارا اگلا بجٹ بنانے کے لیے میٹنگ کرنے پر راضی ہو گیا۔ اس سب پر بھاری نعرہ وہ ہے جس پر ایک دوسرے کو مبارک بادیں دی جا رہی ہیں۔ یہی کہ ترقی کا سفر شروع ہو چکا ہے‘ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا۔ ترقی کے دشمنوں کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیں گے۔ میلی آنکھ والی بات سے ہماری تاریخ کا تیسرا آمر جنر ل یحییٰ خان یاد آتا ہے جس نے متحدہ پاکستان کا اقتدار ٹیک اوور کرتے وقت مشرقی پاکستان میں بسنے والے قائداعظم کے پاکستانیوں کو مٹھی بھر ترقی دشمن کہا تھا۔ یاد دہانی کیلئے عرض ہے کہ جنرل یحییٰ خان مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا تھا۔ اُس نے نہ الیکشن لڑنے کا تکلّف کیا نہ ہی اُسے عوام نے منتخب کیا‘ اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو بقلم خود صدرِ پاکستان آغا محمد یحییٰ خان لکھنا اور کہلانا پسند کرنے لگ گیا۔ شریف راج کی طرف سے 61 سال پہلے والی قیمتوں کے تازہ دعوے سے گزرے ہوئے 61 سال پر نظر ڈالنے کی ضرورت درپیش ہے۔ آئیے فیکٹ شیٹ سے بسم اللہ کرتے ہیں۔
61 منفی 16 سال: اپریل 2025ء سے شروع کریں تو آج سے 61 سال پہلے اپریل کا مہینہ اور سال 1964ء تھا۔ 1964ء میں مزید 13سال جمع کریں تو 1977ء کا سال آ جاتا ہے۔ اس حساب سے سادہ گنتی کہتی ہے کہ آج سے 48 سال پہلے 5 جولائی 1977ء کے روز ایک ''مڈ نائٹ جیکالز آپریشن‘‘ کے ذریعے ضیاء الحق نے 1973ء کا دستور معطل کر کے مارشل لاء لگا دیا۔ اسی ضیاء مارشل لاء کے بینی فشری شریف خاندان کو ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکمرانی تحفے میں ملی۔ اسی عرصے میں پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کو پانچ مرتبہ دھکا لگا کر کبھی گوالمنڈی اور کبھی جاتی امرا میں داخل کیا گیا۔ یہ بھی تاریخی ریکارڈ ہے کہ شریف خاندان والے جب بھی برسرِ اقتدار آئے انہوں نے عوامی استعمال کی ساری چیزوں پر 61 سال پہلے والی قیمتیں بحال کرنے کا اعلان دہرایا۔ اس لیے مہنگائی 61 سال کی کم ترین سطح پر لانے کا دعویٰ نیا ہرگز نہیں۔ اسی تسلسل میں دوسری ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے جس چیز کی قیمت پاکستان میں ایک دفعہ بڑھ گئی وہ ہمیشہ کے لیے اُوپر چڑھ گئی۔ چاہے وہ آلو ہو یا آلو بخارا‘ بینگن ہو یا تھالی کا بینگن‘ زندہ مرغی ہو یا مٹن‘ دل کی شریان میں ڈالنے والی اصلی Stent ہوں یا نقلی اور ایکسپائر شدہ Stent۔ پانی ملا دودھ ہو یا سفید کیمیکل والا فرضی چٹا سفید ملغوبہ‘ واٹر پلس والا ڈیزل ہو یا مٹی کا تیل ملا سُپر پٹرول۔ ہم رنگِ زمین گاجر ہو یا سرخ رنگ کی پینٹ شدہ کیرٹ‘ کھانسی کا شربت ہو یا آبِ فنا کی بوتل۔ جس چیز کی بھی قیمت ایک دفعہ مہنگائی کی سطحِ مرتفع سے بلند ہو گئی وہ اقتدار کے نشے کی طرح پھر کبھی اُترکر نیچے نہیں آئی۔ سیانے کہہ گئے ہیں: کوئی بھی دعویٰ جو دلیل کے بغیر ہو وہ باطل سمجھا جائے گا۔ اس لیے اب چلتے ہیں 61 سال میں مہنگائی کی شرح سب سے نیچے لے آنے کے دعویٰ میں دلیل کی تلاش میں۔
بجلی 17 روپے یونٹ مہنگی اور 71 روپے سستی: حسن وعشق کی طرح افراطِ زر اور مہنگائی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دل کی دنیا میں جیسے صحرا نورد‘ کالی کلوٹی لیلیٰ بنتِ سامری اور قیس ابن الربیع کے عشق نے عالمی شہرت حاصل کی‘ ویسے ہی ہماری نئی صدی کی سرکار کا 61 سال والا دعویٰ بھی اشتہاری تجزیہ برداروں میں ہِٹ جا رہا ہے۔ فی الحال61 سال چھوڑ کر 2022ء میں واپس چلتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت ہے‘ شہباز شریف اپوزیشن لیڈر۔ عمران خان کے دور میں دودھ 80 روپے کلو مہنگا تھا‘ اب 180 روپے کلو سستا ہے۔ اس لیے گلی گلی دودھ کی نہریں شہریوں کو دعوتِ سوئمنگ دے رہی ہیں۔ دورِ عمران میں پٹرول 150روپے فی لیٹر مہنگائی کی انتہا تھا جسے 1961ء کی کم ترین سطح پر لا کر 256 روپے کر دیا گیا۔ 70 ہزار والی موٹر بائیک مہنگی تھی اب یہ سستی ہو کر1 لاکھ 50 ہزار کے رعایتی نرخوں پر مل رہی ہے۔ عمران دور میں روٹی 10 روپے کی مہنگی ترین سطح پر پہنچ گئی جسے موجودہ سرکار نے 1961ء والی قیمت 15 روپے فی روٹی پر گرا دکھایا ہے۔ دورِ عمران میں گھریلو گیس کا اوسط بِل 500 روپے سے 800 روپے تک مہنگا تھا۔ اب یہی بل سستا کرکے 5 ہزار روپے سے 8 ہزار روپے تک ماہانہ آتا ہے۔ اس کی ایک مثال دیکھ لینا کافی ہوگا ‘ اگر آٹا 80 روپے کلو فروخت ہو تو مہنگائی 18 فیصد ہوتی ہے۔ ظاہر ہے یہ فگرز عمران خان کے دورِ حکومت کی فیکٹ شیٹ سے ملتے ہیں۔ اگر شہباز سپیڈ کی فیکٹ شیٹ دیکھیں تو آٹا 100 سے 110 روپے فی کلو بیچنے سے مہنگائی کی شرح 1 فیصد پر آ جاتی ہے۔ یہ سچ ہے‘ آپ اور ہم 1961ء والی قیمتوں سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
عمران خان کی عوام دشمن حکومت چینی 70 تا 80 روپے کلو بیچتی رہی۔ اب چینی سال 1961ء کے ریٹ یعنی 170 روپے فی کلو پر واپس چلی گئی ہے۔ فیکٹ شیٹ کے حوالے سے پہلے اسحاق ڈار نے عالمی شہرت حاصل کی اور اب اورنگزیب صاحب نے اس شہرت کو عالمگیر بنا کر دکھا دیا۔ عمران کے دور کی چینی بدذائقہ تھی‘ اب چینی شہد جیسی ہے‘ جس کی نہروں میں غریبوں کو سوئمنگ کی کھلی چھٹی ہے۔ پاکستان کی سرزمین پر دودھ اور شہد کی نہروں میں سوئمنگ کی اجازت دینے والے قوم کے اَن داتا نہیں دیوتا بھی ہیں۔
یونان کی زمین نے ہذیان و کرب میں
اک اندھے دیوتا کو جنم کس لیے دیا؟
جو بادِ تند و دستِ صبا دیکھتا نہیں
انسان دیکھتا ہے‘ خدا دیکھتا نہیں
یونان اور پاکستان میں صرف''نون‘‘ کامن ہے۔ نہر بھی نون سے بنتی ہے۔ اس لیے یہی نون آج کل نہروں کی سوئمنگ میں غرقاب ہو چلی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved